بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

بینات

 
 

قربانی کیجیے! مگر گناہ کے ساتھ نہیں

قربانی کیجیے! مگر گناہ کے ساتھ نہیں


ماہِ ذوالحجہ کی آمد آمد ہے، بلکہ جس وقت رسالہ آپ کے ہاتھ میں آئے گا تو ماہِ مبارک شروع ہوچکا ہوگا۔ اس ماہ کی خاص عبادت بیت اللہ کا حج ہے، بعض فرزندانِ توحید حرم پہنچ چکے اور بعض خوش نصیب کشاں کشاں پہنچ رہے ہیں۔ یہ سب حضرات از روئے حدیث‘ اُمت کی طرف سے وفد بن کر میدانِ عرفات میں اللہ کو منانے پہنچ رہے ہیں۔ 
حج کے علاوہ اس ماہ کی ایک بڑی عبادت عید الاضحیٰ ہے، جس کو عرف میں عیدِ قربان بھی کہتے ہیں۔
قربانی قُرب سے ہے، بمعنی اللہ کے قریب ہونا، ویسے تو شریعت کے تمام ہی احکام اللہ تک پہنچنے کی سیڑھیاں ہیں، قربانی ان میں سے ایک اہم عمل ہے، جو کہ سنتِ ابراہیمی ہے، جب حضرت ابراہیم  علیہ السلام  اللہ کے حکم پر اپنے لختِ جگر کو ذبح کرنے پر آمادہ ہوگئے ، قلم سے لکھنا اور پڑھنے والے کا پڑھنا آسان، مگر کون باپ ہوگاجو یہ کام کرنے پر تیار ہوجائے۔ جی ہاں! زمین وآسمان اور منیٰ کی وادی گواہ ہے کہ ایک بوڑھا باپ کس طرح اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کرنے پر تیار ہوگیا۔ اللہ کا کرم بھی دیکھیے، صرف حوالگی مطلوب تھی، ورنہ بدلہ میں جنت سے مینڈھا بھیج کر رہتی دنیا تک کی امتِ مسلمہ کو یہ بتادیا کہ اللہ کے نام پر جب بھی کوئی چیز ’’قربان‘‘ کرنے پر آمادہ ہوگے کبھی پچھتاوا نہ ہوگا، پھر یہ جذبہ ایسا قبول ہوا کہ آخری نبی کی امت کے لیے اس کو شعار بنادیا گیا، بہ ظاہر تو جانور ذبح کیا جاتا ہے، اس کے گوشت سے لطف اندوز ہوا جاتا ہے، مگر درحقیقت اس ایک حکم میں کئی طرح کے پیغام و سبق دیے گئے، اسی لیے فرمایا کہ عید الاضحی کے دن اس کا کوئی عمل جانور کے خون بہانے سے افضل نہیں۔ (جامع ترمذی، حدیث:۱۴۹۳)
مگر ٹھہریے ! شیطان ہمارا ازلی دشمن ہے، وہ اگر مسلمان کو عمل سے ہٹا نہیں پاتا تو یا اس کی نیت پر حملہ کرتا ہے، ورنہ کم از کم عمل میں سوراخ کرادیتا ہے، قربانی کے سلسلہ میں دو اہم باتوں کی طرف توجہ دلانی ہے:
۱-  کسی بھی عمل کے اللہ کی بارگاہ میں قبول ہونے کے لیے اخلاص شرط ہے۔ مشہور حدیث عام طور پر زبان زد بھی ہے: ’’إنما الأعمال بالنیات‘‘ تبلیغی جماعت کے ہمارے بزرگ حضرت مفتی زین العابدین صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  اخلاص کا مفہوم ’’وجہِ عمل یا محرکِ عمل‘‘ سے بیان کیا کرتے تھے، یعنی کسی عمل کو کیوں کیا جارہا ہے؟ اس عمل کا محرک وباعث باری تعالیٰ کی خوشنودی کے سوا کوئی بھی غرض ہو تو نیت کے اس کھوٹ کو شرک تک سے تعبیر کیا گیا ، پھر یہی نہیں، قربانی کے معاملہ میں تو سورۂ حج آیت :۳۷ میں واضح فرمایا: 
’’لَنْ یَّنَالَ اللہَ لُحُوْمُہَا وَلَا دِمَاۗؤُہَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ‘‘ 
 ترجمہ:’’اللہ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے، نہ کہ خون، لیکن اس کے پاس تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘
ملاحظہ:(یہاں تقویٰ سے مراد مفسرین اخلاص لیتے ہیں۔)
قربانی کے معاملہ میں ہماری نیت کہاں پھسلتی ہے، جانور عمدہ، فربہ اور مہنگا لائے، تاکہ محلے میں شہرت ہو، دور دور سے لوگ میرے جانور کو دیکھنے آئیں، پتہ چلے کہ یہ فلاں سخی کے جانور ہیں۔ واہ واہ تو مل جائے گی، مگر ثواب اکارت ہوا۔ اس لیے بہت احتیاط کے ساتھ نیت پر پہرا دینے کی ضرورت ہے۔نیت کی یہ خرابی سارے اجر کو ضائع کردے گی۔
دوسری چیز یہ ہے کہ قربانی ہے تو ان ایام کا افضل ترین عمل مگر مسلمان کو اپنے کسی عمل سے تکلیف پہنچانا، اس بارے میں اسلام بہت حساس ہے، حتیٰ کہ ایسی جگہ فرض نماز کوبھی منع کیا گیا، جہاں مسلمانوں کی عام گزرگاہ ہونے کی وجہ سے تکلیف کا اندیشہ ہو۔ (سنن ترمذی، حدیث نمبر:۳۴۷) ایک عورت کا تذکرہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے سامنے آیا کہ بہت نمازی پرہیزگار ہے، مگر اس کی وجہ سے پڑوسی اذیت میں رہتے ہیں، فرمایا: یہ عورت دوزخی ہے۔ (مسند احمد، روایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ) اور ایک شخص کی صرف اس بات پر مغفرت ہوگئی کہ اس نے رکاوٹ بننے والی ایک ٹہنی کو کاٹ دیا۔ (صحیح مسلم، حدیث:۹۱۴) اس سے اندازہ لگائیے کہ کیا قربانی کا افضل ترین عمل ہمیں اجازت دے گا کہ سڑک روک کر جانور کھڑے کیے جائیں، عید کے دن آلائشیں ٹھکانے لگائے بغیر کلیجی کھانے میں مشغول ہوجائیں، جانور ذبح کرکے خون کو گٹر لائن میں گرادیا جائے، خواہ کچھ عرصے بعد نکاسی کا نظام درہم برہم ہوجائے، یا ان جیسی دیگر صورتیں۔ اس لیے قربانی کے اس عظیم عمل کو ’’نیکی برباد گناہ لازم‘‘ کا مصداق نہ بننے دیا جائے۔
ہماری کم قسمتی کہ ہمارے یہاں بلدیاتی نظام یا اس نظام کو نافذ کرنے والے ادارے کی بعض کمزوریوں کی وجہ سے ہمارے لیے گویا رکاوٹ کھڑی نہیں ہوتی، لیکن کیا یہ بات ہماری اس کوتاہی کے لیے عذر بن سکتی ہے؟ ہرگز نہیں! اس لیے نیت کیجیے، اس عید قربان پر اپنی اس خواہش کو قربان کریں گے اور اس اہم عبادت کے ساتھ ایذاء مسلم کے گناہ کو شامل نہیں ہونے دیں گے۔ 

ائمہ کرام سے گزارش

عید سے پہلے کے جمعہ اور عید کے اجتماع میں مناسب ہوگا اگر ان امور کی طرف متوجہ کیا جائے، دیکھا یہ گیا ہے کہ لوگوں میں ائمہ کی ہدایات کو اخذ اور قبول کرنے کی استعداد ہوتی ہے، متوجہ کرنے اور Educate کرنے کی کسر ہوتی ہے۔وصلی اللہ وسلم علٰی سیدنا محمد و علٰی من تبعہٗ ۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین