الحمد للہ وسلامٌ علٰی عبادہ الذین اصطفٰی
ایک ملزم مبارک ثانی قادیانی جو ایک قادیانی تعلیمی ادارہ کا پرنسپل تھا، آج سے ۵ سال قبل ۷؍ مارچ ۲۰۱۹ء کوچناب نگر میں قادیانی جماعت کے تعلیمی اداروں میں قادیانی جماعت کے دوسرے سربراہ مرزا محمود کا قرآن مجید کا ترجمہ و تفسیر بنام ’’تفسیر صغیر ‘‘ تقسیم کرنے کے جرم میں پیش پیش تھا، اسے جنوری ۲۰۲۳ء میں گرفتار کیا گیا۔گرفتاری کے بعد مقدمہ کئی مراحل سے گزرا، پھر قادیانی، مبارک ثانی قادیانی کی درخواست ِضمانت سپریم کورٹ لے کر گئے ۔ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی محمد فائز عیسیٰ صاحب نے اس مقدمہ کی سماعت کی، اور ۶؍فروری ۲۰۲۴ء کو فیصلہ دیتے ہوئے ضمانت منظور کی اور اسے مقدمہ سے بھی بری کردیا۔ڈسٹرکٹ کورٹ اور ہائی کورٹ میں سماعت کے بغیر مقدمہ ختم کرنے کے علاوہ اس ضمانتی فیصلہ میں مقدمہ سے غیر متعلقہ ایسی باتوں کو فیصلہ میں شامل کیا گیا، جس سے واضح طور پر قادیانیوں کی سہولت کاری کا تأثر قائم ہوتا تھا ۔ نیز یہ فیصلہ امتناعِ قادیانیت قانون کی غلط تعبیرات کا مظہر بھی تھا ۔ چنانچہ اس فیصلہ کے سامنے آتے ہی کراچی سے لے کر خیبر تک پورے ملک کے نامور قانون دان، اسلامیانِ وطن، مذہبی اور سیاسی حلقوں کے دانشوران سراپا احتجاج ہوئے۔ اس متنازع فیصلہ کے خلاف لاہور میں ۲۱؍فروری ۲۰۲۴ء کو ’’مجلس تحفظ ختم نبوت ‘‘نے کُل جماعتی ختم نبوت کنونشن منعقد کیا، جس میں تمام مکاتب ِ فکر کی مذہبی جماعتوں نے اس فیصلہ کو مسترد کر دیا۔ مسلمانوں کو سراپا احتجاج دیکھ کر پنجاب حکومت نے نظرثانی کی درخواست سپریم کورٹ میں داخل کی۔۲۶؍ فروری کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں نظر ثانی مقدمہ کی درخواست کی ابتدائی سماعت کے بعد اسے سماعت کے لیے منظور کر لیا اور ساتھ ہی ملک کے دس مختلف الخیال مکاتب فکر کے اداروں سے شرعی طور پر اس مقدمہ کے لیے رائے مانگی گئی۔
قائدجمعیت حضرت مولانافضل الرحمٰن دامت برکاتہم ان دنوں کراچی میں تھے، راقم نے آپ سے ملاقات کی اورصورتِ حال گوش گزارکی۔قائد جمعیت پہلے ہی سے فکرمندتھے، وہ حضرت مولانا مفتی محمدتقی عثمانی مدظلہٗ سے اگلے روزمشاورت کے لیے وقت طے کرچکے تھے۔چنانچہ دارالعلوم کراچی میں اگلے روز ان دونوں حضرات کا اجلاس ہوا، جس میں راقم بھی شریک ہوا۔ تفصیلی طورپرحالات کاتجزیہ کرکے فیصلہ کیا گیاکہ حضرت مولانامفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ عدالت کے اس مقدمہ سے متعلق استفسارپرجامع مانع جواب لکھیں جو قرآن وسنت اورمروّجہ قانون سے مبرہن ہو، اس پرتمام مکاتبِ فکر کے دستخط کرائے جائیں۔حضرت مولانامفتی تقی عثمانی مدظلہ نے جواب لکھنے اوردوسرے مکاتبِ فکر کے تائیدی دستخط کرانے کی ذمہ داری قبول فرمائی۔آپ نے جواب لکھا، حضرت مولانا مفتی منیب الرحمٰن، حضرت مولانایٰسین ظفر، ڈاکٹراسراراحمدؒ کی قائم کردہ قرآن اکیڈمی لاہور، جامعہ اسلامہ امدادیہ فیصل آباد، پانچ مختلف اداروں کے سربراہوں نے اس کی تائید کی، یوں سب کی جانب سے متفقہ رائے سامنے آئی۔ ۲۸؍مارچ ۲۰۲۴ ء کو سماعت ہوئی۔ عدالت نے تسلیم کیا کہ جن اداروں سے رائے مانگی گئی تھی، ان سب کی رائے آگئی ہے، مزید جس نے رائے دینی ہے وہ تحریری طور پرجمع کرائے، پھر سماعت ملتوی ہوگئی۔ڈیڑھ دوماہ تک تاریخِ سماعت مقررنہ ہوئی تو عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے دوسری بارلاہورمیں آل پارٹیزکنونشن رکھا، جس میں متفقہ مطالبہ ودرخواست کی گئی کہ کیس کی جلد سماعت کی جائے۔ نیز مجلس تحفظ ختم نبوت کی جانب سے چیف جسٹس آف پاکستان کے نام کھلاخط لکھاگیا کہ اس مقدمہ کی سماعت جلد شروع کی جائے۔
۲۹؍مئی ۲۰۲۴ کو سپریم کورٹ میں مقدمہ کی سماعت ہوئی، فیصلہ محفوظ ہوا۔۲۴ جولائی ۲۰۲۴ ء کو فیصلہ آیا، مگر یہ فیصلہ بھی قابلِ اعتراض باتوں اور تحفظات سے بھرپور تھا، پورے پاکستان میں اس پر قانونی بحث چھڑ گئی۔ ۲۵؍جولائی کو مجلس تحفظِ ختمِ نبوت، جمعیت علمائے اسلام سمیت دیگر جماعتوں نے خطباتِ جمعہ میں اس پراحتجاج کیا، پُر امن مظاہرے اور ریلیوں کا اہتمام کیا گیا۔ پارلیمان اور سینٹ میں جمعیت علمائے اسلام، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے بھی اس فیصلہ پر جاندار تنقید کی۔ حکومت نے پارلیمانی کمیٹی قائم کی اور فیصلہ کی تصحیح کے لیےدرخواست دائر کرنے کا فیصلہ کیا۔ ۳؍اگست ۲۰۲۴ء کو اسلام آباد میں مجلس تحفظ ختم نبوت کے تحت قومی رہنماؤں، مذہبی وسیاسی جماعتوں کے سربراہوں پر مشتمل اےپی سی منعقد کی گئی، جس میں یک نکاتی ایجنڈا کے تحت مقدمہ کو جلد نمٹانے کا مطالبہ کیا گیا۔ ۱۹؍ اگست کو اسلام آباد اور راولپنڈی کے سیکڑوں مسلمانوں نے شاہراہِ دستور پر عدالت کے سامنے مظاہرہ کیا۔
اسی دوران حضرت مولانا اللہ وسایا دامت برکاتہم علاج معالجہ کے سلسلےمیں کراچی تشریف لائے ہوئے تھے تو انھوں نے راقم کو حکم فرمایا کہ اس نظر ثانی کے فیصلہ کا جائزہ لیں، چنانچہ آپ کے حکم پر راقم نے پورے فیصلے کا شق وار جائزہ لیا اور تمام قابلِ تحفظات امور کی مدلل و مفصل نشان دَہی کی ۔ یہ مضمون گزشتہ سے پیوستہ شمارے میں قارئینِ بینات ملاحظہ کر چکے ہیں۔ اس مضمون کی اشاعت کے بعد ۲۲ ؍اگست۲۰۲۴ء کو وفاقی حکومت کی اس مقدمہ پر تصحیح کی درخواست پر سہ رکنی فیصلہ کرنے والے بینچ نے سماعت کی تو راقم کو بھی طلب فرمایا، راقم الحروف اُن دنوں مجلس تحفظ ختم نبوت کے تبلیغی دورے پر موریشس میں تھا، اس لیے راقم الحروف کی نمائندگی مجلس تحفظ ختم نبوت اسلام آباد کے امیر مفتی عبدالرشید صاحب نے کی ۔ قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ، حضرت مولانامفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ، حضرت مولانامفتی شیر محمد خان رئیس دارالافتاء جامعہ غوثیہ بھیرہ، جناب مولانا ابو الخیر محمد زبیر صدر ملی یکجہتی کونسل، مولانا ڈاکٹر عطاء الرحمٰن اور دیگر علماء کرام کے عدالت میں بیانات ہوئے، وکلاء نے قانونی دلائل پیش کیے۔ ۲۲ ؍اگست ۲۰۲۴ ء کی سماعت کے بعد حق تعالیٰ کے فضل وکرم سے ختم نبوت کے تحفظ کی صدا گونجی، اسی دن مختصر فیصلہ آیااور تفصیلی فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔ ۱۰ ؍اکتوبر ۲۰۲۴ء کو تفصیلی فیصلہ آ گیا، جس میں واضح طور پر سپریم کورٹ نے اپنے ۶؍ فروری اور ۲۴ جولائی کے فیصلے کی غلطیوں کو تسلیم کیا اور انہیںکالعدم قرار دے کر مبارک ثانی قادیانی کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی جاری رکھنے کا حکم دیا ۔
اس فیصلہ کو ماہ نامہ ’’ بینات‘‘ کے صفحات پر تاریخی طور پر محفوظ رکھنے کی غرض سے من و عن ایک مستقل مضمون کی شکل میں اگلے صفحات پر ملاحظہ فرمائیں !