بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1446ھ 17 اپریل 2025 ء

بینات

 
 

مدارس رجسٹریشن ۔۔۔ اصل حقائق‎

مدارس رجسٹریشن ۔۔۔ اصل حقائق‎ ‎


‎میجر جنرل (ر) ڈاکٹر غلام قمر ، ڈائریکٹر جنرل برائے مذہبی تعلیم ووفاقی وزارتِ تعلیم (اسلام آباد ) کا ۳؍ اگست ۲۰۲۴ء کو  ایک قومی اخبار میں  ’’مدارس رجسٹریشن، حقیقت اور افسانہ‘‘ کے عنوان سے کالم شائع ہوا ہے۔ اس کالم میں  مدارس رجسٹریشن کے حوالے سے بعض باتیں  ایسی ہیں  جو حقائق کے منافی ہیں  ، ہم سمجھتے ہیں  کہ ان باتوں  کی وضاحت نہایت ضروری ہے۔ موصوف نے اپنے کالم میں  مدارس رجسٹریشن، یکساں  نصابِ تعلیم اور اتحادِ تنظیمات کے حکومتوں  کے ساتھ مذاکرات کو موضوع بنایا ہے۔’’انہوں  نے تأثر دینے کی کوشش کی ہے کہ : ’’۲۰۱۹ء میں  وزارتِ تعلیم کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے مطابق دینی مدارس رجسٹریشن سے انکاری ہیں ، اور وہ گورے انگریز کے بنائے ہوئے ۱۸۶۰ ء کے سوسائٹی ایکٹ کے تحت ہی مدارس کی رجسٹریشن کرانا چاہتے ہیں ۔‘‘ اس سلسلے میں  چند گزارشات پیش ہیں ‎ :
1- ‎حقیقت یہ ہے کہ ۱۸۶۰ ء کے سوسائٹی ایکٹ کے قانون کے متعلق یہ بات درست نہیں  کی گئی، ہم تو در حقیقت اس ایکٹ کے سیکشن ۲۱؍ کے تحت رجسٹریشن چاہتے ہیں ، ۲۰۰۴ء میں  سیکشن ۲۱؍ اس وقت کے صدر اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے دور میں  اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان اور حکومت کے مابین کئی مہینوں  کے مذاکرات کے بعد حتمی اور طے ہوا تھا۔ وہ سیکشن ۲۱؍ گورے انگریز کا نہیں ، بلکہ مسلمانوں  کا اور حکومتِ پاکستان کے اداروں  کا طے کردہ ہے، اس لیے یہ تأثر دینا غلط ہے کہ ہم گورے انگریزوں  کے ایکٹ کے تحت رجسٹریشن چاہتے ہیں  ۔ یہ بالکل بے بنیاد بات ہے۔ ۲۰۰۴ء میں  طے ہونے والا سیکشن ۲۱؍ خاص دینی مدارس کی رجسٹریشن کے لیے ہی ہے۔ ہم نے اس وقت یہ بات کہی تھی کہ اگر اس میں  کسی بھی وقت ترمیم کی ضرورت ہو تو وہ بھی باہمی مشاورت سے کی جاسکتی ہے۔
یہاں  جملہ معترضہ کے طور پر عرض ہے کہ ہم تو ۱۸۶۰ء کے سیکشن ۲۱؍ کی بات کرتے ہیں  جو ہم مسلمانوں  نے باہمی مشاورت سے طے کیا ، جبکہ آپ نے تو ۱۸۶۰ء کے سوسائٹی ایکٹ کو اس کی روح کے مطابق اور اس کی تمام دفعات کو من وعن قبول کیا ہوا ہے۔ کیا اب بھی اس ایکٹ کے تحت مختلف ادارے اور سوسائٹیاں  رجسٹرڈ نہیں  ہوتیں ؟! کیا آپ نے اس ایکٹ کو کبھی ختم کرنے کا سوچا بھی ہے؟ دوسری طرف ہمارا پورا عدالتی نظام برٹش لاء کے مطابق فیصلے کرتا ہے، جو گورے انگریز کا ہی وضع کردہ ہے، کیا کبھی اس سے پیچھا چھڑانے کا سوچا گیا؟ ایک پہلو اور بھی ہے کہ مدارس کی رجسٹریشن میں  رکاوٹ کون ہے؟ کہیں  یہ دباؤ کسی انگریز ، گورے یا کالےکافروں  کی طرف سے تو نہیں ؟؟ اندر کی بات تو کوئی بھی نہیں  بتا رہا۔
بہر حال یہ ۱۸۶۰ ء کا سیکشن ۲۱؍ متفقہ طور پر طے ہوا ، اب یہ قانون بن چکا ہے۔ اس کے مطابق قومی اسمبلی اور چاروں  صوبائی اسمبلیوں  میں  قانون سازی ہو چکی ہے۔ اور یہ جو وزارتِ تعلیم میں  رجسٹریشن ہے، یہ تو ایگزیکٹو آرڈر کے تحت ہے ، اس کی قانونی حیثیت نہیں  ہے، اس لیے ہم جس قانون کی بات کر رہے ہیں  وہ باقاعدہ ایک قانون ہے، اور جس کی آپ بات کر رہے ہیں  وہ قانون ہے ہی نہیں ۔ اس کے علاوہ ہم نے کہا تھا کہ مدارس کے بندا کاؤنٹ کھلوائے جائیں  اور نئے اکاؤنٹ کھلوانے میں  بھی تعاون کیا جائے؛ یہاں  تو اُلٹا مدارس کے اکاؤنٹ بند کیے جا رہے ہیں ۔ تو معاملہ صاف شفاف کیسے رہا ؟!
2- موصوف نے اپنے کالم میں  لکھا ہے کہ : ’’معاہدے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ڈائریکٹریٹ جنرل برائے مذہبی تعلیم ( ڈی جی آرای) کا قیام عمل میں  لایا گیا ، مدارس کو چاہیے تھا کہ اپنی رجسٹریشن ڈی جی آر ای کے ساتھ کرواتے، لیکن اتحاد تنظیماتِ مدارس نے اپنے زیر انتظام والحاق مدارس کی رجسٹریشن کروانے سےانکار کر دیا۔‘‘ وغیرہ۔
اس سلسلے میں  عرض ہے کہ مدارس رجسٹریشن کے سلسلے میں  کوئی الگ ڈائریکٹریٹ قائم کرنے کی بات تو سرے سے معاہدے میں  شامل ہی نہیں  تھی، معاہدے کا منشا یہ تھا کہ دینی مدارس کی جو رجسٹریشن پہلے سوسائٹیز ایکٹ کے تحت وزارتِ صنعت کے ساتھ ہوتی تھی ، اب وزارتِ تعلیم میں  ہوگی ، جس کا واضح مطلب یہ تھا کہ اسی سادگی کے ساتھ ہوگی جس سادگی کے ساتھ وزارتِ صنعت میں  ہوتی تھی، اس کے لیے وزارتِ صنعت نے نہ کوئی الگ ڈائر یکٹریٹ قائم کیا تھا، نہ ملک بھر میں  اس کام کے لیے الگ دفاتر قائم کیے تھے، نہ پانچ سال کے بعد رجسٹریشن کی تجدید ضروری تھی ، البتہ سالانہ کو ائف بیشک بھیجے جاتے تھے۔ معاہدے میں  ۱۲؍ ریجنل سینٹر قائم کرنے کی بات تھی ، اس کے متعلق یہی خیال تھا کہ جس طرح ہر ضلع میں  وزارتِ تعلیم کا دفتر ہوتا ہے، انہی میں  ۱۲؍ منتخب اضلاع میں  ریجنل دفاتر قائم کر دیے جائیں  گے، جس کا عملہ وزارتِ تعلیم سے ہی منسلک ہوگا ، جہاں  مدارس کی رجسٹریشن بآسانی سہولت کے ساتھ ہو جایا کرے گی۔ اسی طرح جیسے دینی مدارس کی رجسٹریشن پہلے وزارتِ صنعت میں  ہوتی تھی ، اس کے لیے کوئی الگ عملہ نہیں  تھا، کوئی الگ دفاتر نہیں  تھے ، جیسے دیگر اداروں  اور سوسائٹیوں  کی رجسٹریشن ہوتی تھی، اسی طرح دینی مدارس کی بھی رجسٹریشن ہو جایا کرتی تھی، مگر یہ کہ ایک الگ ڈائریکٹریٹ قائم ہوگا ، اس کا الگ عملہ ہوگا ، با قاعدہ اربوں  روپے کا فنڈ ہوگا، پھر اس ادارے کے پورے ملک میں  ذیلی ادارے ہوں  گے؛ یہ چیز معاہدے میں  شامل نہیں  تھی، بلکہ یہ تو سراسر دیوالیہ پن کے قریب پہنچنے والے قومی خزانے پر مزید بوجھ ڈالنے والی بات تھی۔ یہ سب یک طرفہ طور پر کیا گیا، جبکہ معاہدے میں  یہ بات شامل تھی کہ ایسے کسی بھی اقدام سے قبل اتحاد تنظیماتِ مدارس کو اعتماد میں  لیا جائے گا۔ نیز ڈائریکٹریٹ کے تحت اتنے بڑے منصوبے کا لازمی نتیجہ یہ قرار دیا جائے گا کہ دینی مدارس اسی ڈائیریکٹریٹ کے ماتحت اور تابع سمجھےجائیں  گے اور زبانی طور پر کہا گیاتھا کہ مدارس وزارتِ تعلیم سے منسلک ہوں  گے ، تابع نہیں  ہوں  گے، مذکورہ منصوبہ عملی طور پراس کی نفی کرتا ہے ۔ پھر یہ بھی کہ ڈی جی آرای کا آفس اسلام آباد میں  ہونے کی وجہ سے مدارس رجسٹریشن کے لیے آنے والے حضرات کی سفری مشکلات کا سبب بھی ہوتا۔ بہر حال یہ تمام باتیں  معاہدے کے خلاف کی گئیں  اور ان کا سوائے اس کے اور کوئی مقصد معلوم نہیں  ہوتا کہ دینی مدارس کو پریشان اور کنٹرول کیا جائے۔ملک میں  جتنے بھی عصری تعلیمی ادارے ہیں ، وہ اپنے اپنے ضلع میں  متعلقہ محکمے میں  رجسٹر ڈ ہوتے ہیں ، مدارس کے ساتھ ہی یہ امتیازی سلوک کیوں  کہ وہ ضرور ایک الگ تھلگ ادارے سے (جس کی کوئی قانونی حیثیت بھی نہیں ) منسلک ہوں ؟
3-ہم بار بار یہ واضح کر چکے ہیں  کہ دینی مدارس اپنی آزادی اور خود مختاری کو کسی رکاوٹ کے بغیر قائم رکھنے کے لیے پر عزم ہیں ، اور کسی حکومتی ادارے کے تابع یا ما تحت ہونے کو گوارا نہیں  کر سکتے اور اگر اس آزادی و خود مختاری کو باقی رکھنے کے لیے انہیں  کوئی بھی قربانی دینی پڑے تو وہ اس کے لیے بھی تیار ہیں ، لہٰذا وزارتِ تعلیم میں  رجسٹریشن کے لیے اتنے بڑے منصوبے اور اتنے اخراجات کی نہ صرف یہ کہ ضرورت نہیں ، بلکہ مقصد کے لیے بھی مضر ہے۔
4- ‎جوڈائیریکٹریٹ برائے مذہبی تعلیم قائم کیا گیا ہے، اُسے سرکاری تعلیمی اداروں  میں  دینی تعلیم بقدرِ ضرورت دینے کے لیے استعمال کیا جائے اور اس کے ذریعے تمام تعلیمی اداروں  میں  اتنی دینی تعلیم دینے کا اہتمام کیا جائے جو ہر مسلمان کے لیے فرضِ عین ہے۔
5-  ‎۲۰۱۹ء میں  وزارتِ تعلیم کے ساتھ جو معاہدہ ہوا تھا اس پر خود وزارتِ تعلیم نے عمل نہیں  کیا، مثلاً معاہدہ میں  یہ طے تھا کہ جب تک مدارس کی رجسٹریشن وزارتِ تعلیم کے ساتھ مکمل نہیں  ہو جاتی، ان کی پرانی رجسٹریشن کو تسلیم کیاجائے گا، لیکن اس معاہدے کے بعد اس بات کو ایک دن کے لیے بھی تسلیم نہیں  کیا گیا۔
معاہدے کی دوسری شق یہ تھی کہ جن مدارس کے اکاؤنٹس بند کیے گئے ہیں  وزارتِ تعلیم نہ صرف وہ اکاؤنٹ کھلوائے گی، بلکہ نئے اکاؤنٹس کھلوانے میں  بھی مدد کرے گی ، وزارتِ تعلیم کی جانب سے اس طرح کا کوئی تعاون نہیں  ہوا۔ معاہدے کی ایک شق یہ تھی کہ مدارس کے کوائف اکٹھے کرنے کے لیے واحد مجاز ادارہ محکمہ تعلیم ہوگا، اس پر خود وزارتِ تعلیم نے ، حکومت نے ، معاہدے پر دستخط کرنے والوں ، حکومتی عہدیداروں  اور متعلقہ اداروں  نے عمل نہیں  کیا، جبکہ آج کے دن تک حسب سابق ایجنسیوں  کے افراد کا مدارس میں  آنے جانے ، مدارس کو خوفزدہ کرنے ، اور ہراساں  کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
6-جہاں  تک یکساں  نصابِ تعلیم کی بات ہے تو اس کا ہم نے بالکل انکار نہیں  کیا، ہم تو چاہتے ہیں  کہ ملک میں  طبقاتی نظامِ تعلیم کا خاتمہ ہو، یکساں  نصابِ تعلیم کی تدوین میں  تو ہم نے اپنا حصہ ڈالا ہے اور اس میں  ہم نے عملی طور پر کام کیا ہے۔ یہاں  سوال یہ ہے کہ کیا یکساں  نصابِ تعلیم کو بیکن ہاؤس، لاہور گرامر اسکول، آکسفورڈ اور کیمبرج کے نام سے چلنے والے برینڈڈ عصری تعلیمی اداروں  نے بھی تسلیم کیا ہے؟ یقیناً جواب نفی میں  ہے۔ مدارس تو اب بھی کہتے ہیں  کہ عصری مضامین کا جو بھی قومی نصابِ تعلیم ہوگا اسے اپنے ہاں  ضرورت کے مطابق نافذ کریں  گے۔ یہاں  یہ بات بھی عرض کرتا چلوں  کہ دینی مدارس اپنے ہاں  عصری نصاب پڑھا بھی رہے ہیں ، چناں چہ ابھی پچھلے دنوں  میٹرک بورڈز کے جو امتحانی نتائج آئے ہیں  اس میں  ہمارے مدارس کے طلبہ نے اول دوم اور سوم پوزیشنیں  لی ہیں ، آپ ملتان بورڈ، بہاولپور بورڈ، ساہیوال بورڈ، راولپنڈی بورڈ ، آزاد کشمیر بورڈ ، اسی طرح فیڈرل بورڈ کے امتحانی نتائج کا جائزہ لے لیجئے، آپ کو مدارس کے طلبہ ٹاپ پہ نظر آئیں  گے۔ اس سے یہ حقیقت آشکارا ہوتی ہے کہ مدارس اپنے ہاں  نہ صرف عصری تعلیم دے رہے ہیں ، بلکہ ان کا تعلیمی معیار بھی اتنا اعلیٰ ہے کہ طلبہ تعلیمی بورڈز میں  ٹاپ پوزیشنیں  لےرہے ہیں ۔
ہم عصری تعلیم کے مخالف تھے نہ ہیں ، لیکن آپ بتائیے کہ یکساں  نصابِ تعلیم کے نفاذ میں  رکاوٹ کون ہے؟ ان اداروں  کے نام لیجیے ، صورت حال تو یہ ہے کہ تمام صوبائی حکومتوں  نے یکساں  نصابِ تعلیم کے وژن کو قبول نہیں  کیا۔ آپ کی ایلیٹ کلاس کے جو تعلیمی ادارے ہیں  ؟ اے لیول یا اولیول کراتے ہیں ؛ وہ اسے قبول نہیں  کر رہے۔ اب بتائیےکہ دینی مدارس کا اس میں  کیا قصور ہے؟!
7- ‎دینی مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے مزید عرض کرتا چلوں  کہ موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف صاحب جب پی ڈی ایم کے دورِ حکومت میں  وزیر اعظم تھے ، تو ان سے ہمارے کئی گھنٹے تک مذاکرات ہوئے ، ان مذاکرات میں  اس وقت کے وزیر تعلیم ، وزیر داخلہ اور دیگر متعلقہ وزارتوں  اور محکموں  کے نمائندے موجود تھے، وزیر اعظم صاحب نے پوری بحث کے بعد ایک مسودے کی منظوری دی، اور حکم جاری کیا تھا کہ اس کے مطابق مدارس کو رجسٹریشن کا اختیار دے دیا جائے ، اس میں  دونوں  آپشن موجود تھے، مدارس چاہیں  تو اپنے آپ کو ۱۸۶۰ء کے سیکشن ۲۱؍ کے تحت رجسٹرڈ کرالیں  ، چاہیں  تو وزارتِ تعلیم میں  خود کو رجسٹرڈ کرالیں  ، اس سے پہلے بھی مدارس کو اختیار رہا کہ چاہیں  تو سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہوں ، چاہیں  تو ٹرسٹ کے قانون کے تحت رجسٹرڈ ہوں ۔ اب سوال یہ ہے کہ جب وزیر اعظم نے ہدایات جاری کر دیں ، اور معاہدے کے مسودے پر دستخط کر دیے یعنی منظوری دے دی تو پھر اس پر عمل درآمد کیوں  نہیں  ہوا؟ وزیر اعظم ملک کا چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے، کیا اس کے فیصلے کی کوئی اہمیت نہیں  ؟! اس پر بھی ذرا روشنی ڈالیے۔
پھر جب پی ڈی ایم کی حکومت کا آخری دور تھا ، حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم العالی اور یہ عاجز بندہ ایک ہفتہ مسلسل اسلام آباد میں  رہے، اس دوران ہماری ملاقاتیں  ڈی جی سی محترم جناب آرمی چیف صاحب سے ہو ئیں ، وزیر اعظم شہباز شریف صاحب سے حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مسلسل رابطے میں  رہے ، ان مذاکرات اور رابطوں  کے نتیجے میں  ایک مسودے پر اتفاق بھی ہو گیا، جس میں  وزارتِ تعلیم کے اور اسی شعبے کو جو مدارس کے لیے قائم کیا گیا تھا؛ ان کی تجاویز کو بھی لیا گیا، اور انہیں  اس مسودے میں  شامل کیا گیا ، اسے خواندگی کے لیے قومی اسمبلی میں  پیش کردیا گیا، تاکہ یہ با قاعدہ قانون بن جائے ، پھر کیا وجہ ہوئی کہ اچانک اس پر عمل درآمد روک دیا گیا؟ اصل بات جو ہے وہ یہ کہ اس میں  رکاوٹ کون بنا؟ یقیناً اس میں  کچھ عالمی اداروں  کی مداخلت بھی ہے، جسے چھپایا جارہا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں  کہ ہم متعلقہ فریق ہیں ، ہمارے تحفظات کو سامنے رکھ کر بات کی جائے۔ اور اگر کسی عالمی ادارے کی طرف سے مسئلہ ہے تو ہم اس کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنے کے لیے بھی تیار ہیں ۔ بہرحال قرائن اور علامات بتاتی ہیں  کہ درونِ خانہ کوئی بات ضرور ہے، اور یہ رکاوٹیں  عالمی دباؤ پر ہیں  ، ہمارے متعلقہ محکمانہ افراد گوروں  اور انگریزوں  کے دباؤ میں  ہیں ، اسی لیے جب بھی طویل مذاکرات کے بعد کسی مسودے پر اتفاقِ رائے ہوتا ہے تو حکومت اچانک پیچھے ہٹ جاتی ہے ۔
آخر میں  میں  یہ کہنا چاہوں  گا کہ مدارس کی دینی خدمات پر انہیں  سراہنے اور اور ان کی خدمات کے اعتراف میں  تنگ دلی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ ابھی میٹرک کے امتحانات میں  مدارس کے طلبہ نے ٹاپ پوزیشنیں  لی ہیں ، مگر کیا کسی بھی اعلیٰ حکومتی شخصیت یا سرکاری ادارے کی جانب سے اس بات کو سراہا گیا ہے؟ اس کی بجائے اُلٹا مدارس کو کبھی رجسٹریشن کے نام پر، کبھی کوائف طلبی کے نام پر، کبھی کسی اور بہانے سے تنگ اور پریشان کرنے کا عمل تسلسل سےجاری رہتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں  کہ دینی مدارس کی آزادی و خود مختاری، خودداری ، اور حریتِ فکر و عمل سب سے اہم ہے، ہم اسے دینی علوم کے تحفظ، اُمتِ مسلمہ کی صحیح دینی رہنمائی ، اور علومِ اسلامیہ کی اشاعت کے لیے ضروری سمجھتے ہیں ۔ ان شاء اللہ اس سلسلہ میں  ہم اپنا فرض ادا کرتے رہیں  گے ۔
الحمدللہ تمام مکاتب فکر کے دینی مدارس و جامعات کی اکثریت اتحاد تنظیماتِ مدارس پاکستان میں  شامل وفاق و تنظیموں  سے وابستہ ہے اور اتحاد تنظیماتِ مدارس پاکستان کی مرکزی قیادت محبِ وطن اور علم وفضل میں  مشہور و معتبر شخصیات پر مشتمل ہے اور یہی پاکستان کے تمام دینی مدارس و جامعات کے نمائندہ ہیں ۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین