’’ماہ نامہ بینات کی اشاعتِ خاص ’’امامِ اہلِ سنت مفتی احمد الرحمٰنؒ ‘‘ میں آپ کی شخصیت کا تعارف، تذکرہ اور علمی و فکری زندگی کے بے پناہ راہ نما اُصول ملتے ہیں، اسی اشاعتِ خاص سے باذوق اہلِ علم بخوبی استفادہ کر رہے ہیں، ایسے ہی باذوق اہلِ علم میں سے جامعہ کے استاذ حضرت مولانا نور الرحمٰن صاحب زید علمہٗ نے اپنے استفادہ کے دوران یہ قیمتی ملفوظات جمع فرمائے ہیں، جو افادۂ عام کے لیے ماہ نامہ بینات کے قارئین کے مطالعہ کی نذر کیے جارہے ہیں۔‘‘ (ادارہ)
1-فرمایا: ’’ ہمیشہ دعا مانگا کرو، ناممکن تو صرف آپ لوگوں کی سوچ میں ہے، اللہ پاک کے لیے تو کوئی چیز بھی ناممکن نہیں۔‘‘ (اشاعتِ خاص بیاد امامِ اہلِ سنت حضرت مفتی احمد الرحمٰن رحمۃ اللہ علیہ ، صفحہ:۱۰۲۴)
2-فرمایا: ’’ جب اللہ رب العزت راضی ہونے لگتا ہے تو انسان کو اپنے عیوب نظر آنے لگتے ہیں اور یہ اللہ رب العزت کی رحمت کی پہلی نشانی ہوتی ہے اور پھر ان عیوب اور گناہوں سے وہ توبہ کرتا ہے، یہ اللہ رب العزت کی رحمت کی دوسری نشانی ہوتی ہے۔‘‘ (صفحہ:۱۰۴۸)
3-فرمایا: ’’ مایوس وہ ہوتا ہے جو ذاتِ باری تعالیٰ پر یقین نہیں رکھتا اور محروم وہ ہوتا ہے جو اللہ پاک کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا۔‘‘ (صفحہ:۱۱۱۴)
4-فرمایا: ’’ اپنے حصے کا عمل کیے بغیر دعا پر بھروسہ کرنا حماقت ہے اور اپنی محنت پر بھروسہ کر کے دعا سے گریز کرنا تکبر ہے۔ انسان بھی کتنا عجیب ہے، دعا کے وقت سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بہت قریب ہیں اور گناہ کے وقت سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بہت دور ہیں۔‘‘ (صفحہ:۱۱۱۸)
5-فرمایا: ’’ پریشانی سے بچنے کا ایک ہی طریقۂ علاج ہے کہ انسان اپنی زندگی اپنے خالق کی مرضی کے مطابق گزارے۔‘‘ (صفحہ:۱۲۲۲)
6-فرمایا: ’’عزیزو! صورت بغیر سیرت کے ایسا پھول ہے جس پر کانٹے بہت زیادہ ہوں اور خوشبو بالکل نہ ہو۔‘‘ (صفحہ:۱۱۷۱)
7-فرمایا: ’’ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ ناکارہ ہاتھ ہے تو اس کو چاہیے کہ صاحبِ علم و عمل اور صاحبِ قلب کے پاس بیٹھے، وہ گوہرِ نایاب بن جائے گا۔‘‘ (صفحہ:۱۰۳۱)
8-فرمایا: ’’ اللہ پاک سے مانگنے کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ آپ اپنے جذبات کو الفاظ کا رنگ نہ بھی دے سکیں، تب بھی وہ ذات آپ کے جذبات و احساسات کو آپ سے بہتر جانتا ہے۔‘‘ (صفحہ:۱۰۲۱)
9-فرمایا: ’’ جو تم سے نہیں ہو رہا اسے اللہ پاک کے حوالے کر دو، پھر دیکھو کیا ہوتا ہے، اللہ پاک اسی کو وسیلہ بنا دے گا جو تمہاری راہ میں رکاوٹ ہے۔‘‘ (صفحہ:۹۶۳)
10-فرمایا: ’’کسی کے ہاں مہمان بن کر جاؤ تو ایسے گویا کہ نابینا ہو اور وہاں سے نکلو تو ایسے گویا تم گونگے ہو۔‘‘ (صفحہ:۹۴۶)
11-فرمایا: ’’ جب تم دنیا کی مفلسی سے تنگ آ جاؤ اور رزق کا کوئی راستہ نہ نکلے تو صدقہ دے کر اللہ تعالیٰ سے تجارت کر لیا کرو۔‘‘ (صفحہ: ۹۴۷)
12-فرمایا: ’’ میاں! اپنی زبان کی حفاظت کرنا؛ کیوں کہ یہی تمہاری عزت و ذلت کی ذمہ دار ہے۔‘‘ (صفحہ:۹۴۸)
13-فرمایا: ’’ گزشتہ نعمتوں پر شکر کرنا آئندہ نعمتوں کا سبب بنتا ہے۔‘‘ (صفحہ:۹۴۸)
14-فرمایا: ’’ اللہ سے محبت کرو، وہ آزمائشیں ضرور دیتا ہے، مگر آزمائشوں میں بھی تنہا نہیں چھوڑتا۔‘‘ (صفحہ:۹۴۸)
15-فرمایا: ’’ کسی کا راز تلاش مت کرو اور اگر نظر آجائے تو فاش مت کرو۔‘‘ (صفحہ:۹۴۹)
16-فرمایا: ’’ کردار ہی ایک ایسی کتاب ہے جسے اندھے اور جاہل بھی پوری طرح پڑھ اور سمجھ سکتے ہیں۔‘‘ (صفحہ:۹۴۹)
17-اعلیٰ حکومتی عہدے داروں کو مخاطب کر کے فرمایا: ’’ میرا دین بلاضرورت پانی بہانے سے روکتا ہے، کسی بے گناہ کے خون بہانے کو کیسے جائز قرار دیا جا سکتا ہے؟ ‘‘ (صفحہ:۹۴۹)
18-ایک صاحب نے کسی دوسرے شخص کا شکوہ کیا تو فرمایا کہ: ’’ میاں! حقیقت تو یہ ہے کہ عمل صرف عمل سے پھیلتا ہے، باتوں سے نہیں، آپ صرف باتیں کرتے ہو، جب کہ وہ کام کرتے ہیں۔‘‘ (صفحہ:۹۵۰)
19-فرمایا: ’’ کوئی آئینہ اس کی اتنی اچھی تصویر نہیں دکھا سکتا جتنی کہ اس کی گفتگو۔‘‘ (صفحہ:۹۵۰)