بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

بینات

 
 

ملکی معیشت کو سود سے پاک کرنے کی دُہائی!

ملکی معیشت کو سود سے پاک کرنے کی دُہائی!

الحمد للہ وسلامٌ علٰی عبادہ الذین اصطفٰی

قرآن کریم، سنتِ نبویہ، اجماعِ اُمت اور عقلِ سلیم کی رو سے سود حرام ہے۔ سود کی حرمت، نجاست، قباحت اور شناعت کو شرعی نصوص میں بڑا واضح اور غیر مبہم انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ جو شخص سود جیسی لعنت کو نہیں چھوڑتا، اس کے خلاف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جانب سے کھلا اعلانِ جنگ ہے۔ یہی نظریۂ پاکستان بھی ہے، جسے روزِ اول سے تاحال موقع بموقع دہرایا جارہا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی سود اور اس کی تباہ کاریوں کو کئی باراپنی سفارشات میں واضح کیا۔ وفاقی شرعی عدالت نے سود کو غیر اسلامی قراردیا اور اپنے فیصلہ میں لکھا کہ سودی نظام کو فوراًختم کیا جائے، اس لیے کہ یہ غیر اسلامی، ناجائز اور حرام ہے۔ لیکن ۱۹۹۱ء میں اس وقت کی حکومت اور پاکستانی بینکوں نے اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی۔ اتنے سال اپیلوں میں ضائع ہونے کے بعد ۲۰۲۲ء میں پھر عدالتِ عظمیٰ کی وساطت سے یہ سننے اور پڑھنے کو ملا کہ بینک کا سود حرام ہے اور پاکستان سے اس کا خاتمہ ہونا چاہیے، مگر اس فیصلہ میں بھی فوری خاتمے کے حکمنامہ کی بجائے پانچ سال کی مہلت شامل تھی، گو یہ فیصلہ بھی کئی پہلوؤں سے تشنہ اور متعدد سوالوں کا مورد تھا، جس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے کئی حکومتی ادارے اور پرائیویٹ بینک اس فیصلے کے خلاف عدالتِ عظمیٰ جاپہنچے، اسی کشاکشی کے احوال میں حرمت ِ سود سیمینار کے عنوان پر اجتماع کیا گیا تھا اور اس میں پرائیویٹ بینکوں سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ اپنی اپیلیں واپس لیں، اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ سود کے خاتمے کے لیے وزارتِ خزانہ میں ایک مستقل ڈویژن اور اس کے تحت ایک ٹاسک فورس قائم کرے، جو مالیاتی اداروں کو سود سے پاک کرنے کا مرحلہ طے کرکے اُسے نافذ کرے۔ اس اجتماع میں کئی قراردادیں بھی منظور کیں، اس عدالتی فیصلے سے لے کر مذکورہ اجتماع کی قراردادوں تک پیش کردہ روئیداد پر ماہنامہ ’’بینات‘‘ کے صفحات میں کچھ تبصرے بھی شائع ہوچکے ہیں، مگر تاحال ان قراردادوں پر عمل درآمد کی کوئی شکل سامنے نہیں آسکی۔ اس پس منظر کے تناظر میں یہ دیکھا، سنا اور سمجھا جاسکتا ہے کہ وطنِ عزیز سے سود کے خاتمہ کے لیے سنجیدگی کا کتنا فقدان ہے، جبکہ ملک کے دستور کی دفعہ : ۲۲۷ غیر مبہم الفاظ میں یہ اقرار کرتی ہےکہ ملک کے موجودہ تمام قوانین کو قرآن وسنت کے مطابق بنایا جائے گا، اور قرآن وسنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا۔ 
اس دفعہ کو عملی طور پر مؤثر بنانے کےلیے دفعہ ۲۰۳ کے ذریعے وفاقی شرعی عدالت کا قیام عمل میں لایا گیا تھا، اس کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں کے لیے سپریم کورٹ میں شریعت اپیلنٹ بینچ تشکیل دی گئی تھی، ان دونوں عدالتوں میں علماء ججزکی شمولیت ضروری تھی، تمام مکاتب فکر کے علماء، دینی تنظیموں اور تاجر برادری کے نمائندہ اجتماع نے اس بات پر گہری تشویش کا اظہار کیا تھا کہ اس وقت یہ اہم ترین ادارے تقریباًمعطل ہیں ۔ اگر کسی شخصیت کا تقرر ہوتا ہے تو اسے بھی غیرمؤثر رکھنے کا وطیرہ چلا آرہا ہے۔ پاکستان سے سود کے خاتمہ کے لیے ایک طرف سنجیدگی کا فقدان ہے اور دوسری طرف محض دُہائی دی جاسکتی ہے، اس دُہائی کی تازہ مثال ۲۳؍ اپریل ۲۰۲۴ء کو موجودہ قومی اسمبلی میں رکن اسمبلی محترم جناب سید مصطفیٰ کمال نے قائم کی، اس اہم تقریر کو قومی میڈیا نے حسبِ روایت کوئی اہمیت نہیں دی، اس لیے تاریخ میں اس خطاب کو محفوظ رکھنے اور افادۂ عام کی غرض سے کسی قدر حک و اضافہ کے بعد اس کے چند اقتباسات نذرِ قارئین کرنے جا رہے ہیں۔ سید مصطفیٰ کمال صاحب نے کہا: 
’’ جناب ڈپٹی اسپیکر! ہم اس وقت پاکستان میں جو معاشی نظام چلا رہے ہیں، میں اس بارے میں آپ کو دو تین چیزوں کی نشان دہی کرنا چاہتا ہوں۔ قائد اعظم محمد علی جناح  ؒ نے ۱۹۴۸ء میں جب اسٹیٹ بنک کی عمارت کا افتتاح کیا تو انہوں نے اپنے خطاب میں یہ کلمات ادا کیے: ’’ ہمیں مساوات و معاشرتی انصاف کے حقیقی اسلامی تصور پر مبنی ایک معاشی نظام دنیا کے سامنے پیش کرنا ہوگا ۔ ‘‘ آج جس آئین کے تحت اس ایوان میں ہم بیٹھے ہیں، شہید ِ جمہوریت جناب ذوالفقار علی بھٹو  ؒ نے ۱۹۷۳ ء میں جو آئین بنایا، اس میں سود کے خاتمے کا ذکر ہے ۔ پھر جب انہوں نے دیکھا کہ معاشی نظام اس طرح سے نہیں چل رہا، ۷۶ سال ہو گئے اس ملک کو بنے ہوئے، ۵۱ سال ہو گئے اس آئین کو بنے ہوئے، آج تک ہمارا معاشی نظام ٹھیک نہیں ہو پایا، متعدد فیصلے آنے کے بعد ۲۰۲۲ ء میں شرعی عدالت نے رِبا کو حرام قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگلے ۵ سالوں میں یہ ختم ہو جانا چاہیے۔ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے ! میں آپ کے سامنے قرآن کریم کی ۲ ؍آیاتِ مبارکہ پڑھنا چاہتا ہوں : 
1  : سورۃ البقرۃ کی آیت : ۲۷۸ - ترجمہ: ’’اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو، اگر تم واقعی مؤمن ہو، سود کا جو حصہ بھی کسی کے ذمے باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو ، پھر بھی اگر تم ایسا نہ کرو گے تو اللہ اور اس کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی طرف سے اعلانِ جنگ سن لو ۔ اور اگر تم سود سے توبہ کرو تو تمہارا اصل سرمایہ تمہارا حق ہے ۔ نہ تم کسی پر ظلم کرو، نہ کوئی تم پر ظلم کرے۔‘‘
2  : آیت :۲۷۶  - ترجمہ : ’’اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے اور اللہ کسی ناشکرے گنہ گار کو پسند نہیں کرتا ۔ ‘‘
جناب ڈپٹی اسپیکر! ہمارے محترم و معززاور قابل وزیر کا آج بھی اخبار میں بیان چھپا ہے کہ پاکستان کی معیشت بہت ترقی کرنے والی ہے۔ آئی- ایم- ایف سے نئی ڈیل ہونے والی ہے۔ تو یہ معیشت کس بنیاد پر ہے ؟ یہ سود پر ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں فرما رہا ہے کہ: یہ اللہ اور اس کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے کھلی جنگ ہے، اور میں سود کو مٹا کر رہوں گا۔ میں اللہ کی بات مانوں یا وزیر صاحب کی بات مانوں؟ اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ: اس سودی نظام سے ہم اس ملک کو ترقی دیں گے، ملک خوش حال ہو جائے گا تو یہ اللہ کی طاقت کے ساتھ ضد ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ اللہ اور اس کا رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس ملک میں ہم سے یہ جنگ نعوذ باللہ ! ہار گئے ہیں؟ ہم اس سودی نظام میں رہ کر اس ملک میں خوش حالی پیدا کریں گے ؟ ایسا بالکل ممکن نہیں ہے ۔ اس ملک کے ہر گھر کی دیواریں سونے کی ہو جائیں اور چھت چاندی کی ہو جائے، پھر بھی میں کہوں گا کہ: اللہ اور اس کا رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہی یہ جنگ جیتیں گے، اور ہمارے لیے دھوکا ہے۔ ہم دیکھ نہیں رہے کہ ۷۶ سالوں میں ہمارے حالات کیا ہوگئے؟ ہم کوئی چیز سدھارنے کے قابل نہیں ہیں اور نہ ہم قرآن کی مان رہے ہیں۔ میں آپ کے سامنے مزید ۲؍ احادیث نقل کرنا چاہتا ہوں:
1 : حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا : ’’سود خوری کے گناہ کے ۷۰ حصے ہیں، ان میں سے ادنیٰ اور معمولی ایسا ہے جیسے اپنی ماں کے ساتھ بدکاری کرنا ۔ ‘‘
2: رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا : ’’جس قوم میں زنا اور سود پھیل جائے، وہ دنیا ہی میں مستحقِ عذاب ہو جاتی ہے ۔ ‘‘
جناب ڈپٹی اسپیکر! اللہ کی کتاب، اللہ کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا فرمان، بانیِ پاکستان کی بات، بھٹو شہید کا آئین ہم مان نہیں رہے اور ہم کہہ رہے ہیں کہ اپنے دماغ لگا کر ہم اس ملک کو خوش حال کریں گے؟! ہم مسلسل اللہ اور اس کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے جنگ میں ہیں ۔ انڈیا کا پائلٹ جہاز لے کر آیا تھا، اس جہاز کو ہماری فوج نے مار گرایا اور اس کے پائلٹ کو ہم نے دو سے تین دن میں مرہم پٹی کر کے چائے پلا کر واپس اس لیے بھیجا کہ کہیں انڈیا سے ہماری کوئی جنگ نہ شروع ہوجائے۔ ہم اس وقت انڈیا سے تو جنگ کرنے کے قابل ہیں نہیں، لیکن اللہ اور اس کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے ۷۶  سالوں سے جنگ کر رہے ہیں۔ کارگل کا واقعہ پیش آیا تو نواز شریف صاحب بل کلنٹن کے پاس امریکا گئے کہ جنگ رکواؤ ۔ ہم نے جلدی جنگ رکوائی، کیوں؟ اس لیے کہ ہم انڈیا سے جنگ کرنے کے قابل نہیں ہیں ۔ ہم کتنے بہادر ہو گئے ہیں کہ اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک میں، جس میں ہمارا یہ سودی نظام چل رہا ہے، ہم مسلسل اللہ اور اس کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے کھلی جنگ میں ہیں !ہمیں بہت ہی قابلِ احترام اور لائق وزیر ِ خزانہ ملے ہیں، لیکن میں ان سے گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ ہم اللہ اور اس کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے جنگ نہیں کر سکتے ۔ اور ہم پرانے زمانے میں جانے کی بات نہیں کر رہے، کسی چیز کو خراب کرنے کی بات نہیں کر رہے، ہم تو یہ کہہ رہے ہیں کہ خدارا! سود سے جان چھڑائیں، اس لیے کہ سود کے بارے میں کس قدر وعیدیں آئی ہیں ! 
اب میں عرض کرتا ہوں کہ ہم چاہتے کیا ہیں؟ دیکھیے! ۲۰۲۲ء میں سپریم کورٹ کا آرڈر آیا کہ پانچ سالوں میں یہ سودی نظام ختم ہوگا۔ ۱۶ ؍بینکوں نے شریعت اپیلنٹ بنچ میں اپیل کی ہوئی ہے، ۲ سال ہو گئے ہیں کہ سپریم کورٹ نے اپنی شریعت اپیلنٹ بینچ ہی نہیں بنائی۔ یہاں پر کسی وزیر اعظم کو ہٹانا یا لگانا ہو تو رات کے ۱۲ ؍بجے سپریم کورٹ کھولتے ہیں اور ۲ سالوں سے اللہ اور اس کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے اعلانِ جنگ بند کرنے کی استدعا لٹکی ہوئی ہے، مگراپیلنٹ بینچ نہیں بنا۔ یہ ملک اس نظام کے تحت آگے نہیں بڑھ سکتا، کیوں کہ آپ نے کلمہ پڑھا ہوا ہے: لا إلٰہ إلا اللہ محمد رسول اللہ !
۲ - یا تو ہمارے وزیر صاحب حکم دیں کہ سپریم کورٹ میں اپیلنٹ بنچ بنے، کیوں کہ پانچ سالوں میں سود کو ختم کرنا ہے تو ۲ ؍سال ویسے ہی گزر گئے ہیں، ملک کو تین سالوں میں سود سے مکمل پاک کرنا ہے ۔ 
۳ - اگر اس فیصلے پر عمل درآمد نہیں کرا سکتے تو کسی مفتی صاحب کو یہاں بلائیں، اور وہ آکر یہ بتائیں کہ یہ جو اللہ کی کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ سود اللہ اور اس کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے کھلی جنگ ہے، یہ بات غلط ہے ۔ ہم غلط سمجھ رہے ہیں، قرآن کریم کا حکم ایسا نہیں ہے ۔ اور اگر یہ جنگ ہے تو یہ جنگ ختم کرنی چاہیے ۔ 
۴- اور اگر یہ بھی نہیں کر سکتے تو پھر آئین سے اس بات کو مٹائیں ۔ یہ تو ہم کر سکتے ہیں ناں، یہ ایوان کر سکتا ہے، ورنہ ہم منافق ہیں ۔ میں کہہ رہا ہوں کہ اس کو مٹا دیں اور اعلان کر دیں کہ ہم اللہ اور اس کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی ان باتوں کو مانتے ہی نہیں ہیں، نعوذ باللہ ! پھر ہم منافق سے مجرم ہو جائیں گے، ہمارے جرم کا درجہ کم ہو جائے گا۔ آپ قرآن شریف کی تلاوت سے ایوان کی کارروائی شروع کرتے ہیں، آپ نعت پڑھتے ہیں، آپ ۷۶ سالوں سے جس اللہ اور اس کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے حالت ِ جنگ میں ہیں، اسی اللہ و رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے بات شروع کرتے ہیں ۔ عجیب مذاق ہے ! ‘‘
ہم رکنِ قومی اسمبلی جناب مصطفیٰ کمال کے اس ایمانی جذبے کی تحسین کرتے ہوئے دیگر تمام ارکان پارلیمنٹ سے بھی اسی ایمانی جذبہ کے متمنی بلکہ ملتجی ہیں، لہٰذا تمام اراکینِ اسمبلی جناب سید مصطفیٰ کمال صاحب کا ساتھ دیں اور قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی بنوائیں، اور ان کے کیے گئے مطالبات کو راہِ عمل پر ڈالنے کے لیے بھرپور کردار ادا کریں، بالخصوص ۱۹۷۳ء کے آئین سازوں کے سیاسی ورثاء کا آئینی، اخلاقی اور شرعی فرض بنتا ہے کہ وہ وطنِ عزیز سے سود کے خاتمے کے لیے قائدانہ و ذمہ دارانہ کردار ادا کریں اور ملک سے سود جیسی لعنت کو ختم کرانے میں اپنا کردار ادا کریں ۔ ان شاء اللہ ! اس سےجہاں آپ دنیا میں سرخرو ہوں گے، وہاں آخرت کی جواب دہی سے بھی بچ جائیں گے، ورنہ خسر الدنیا والآخرۃ  کا مصداق بنیں گے ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ فرمائے، آمین !

وصلی اللہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد و علٰی آلہٖ و صحبہٖ أجمعین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین