بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

بینات

 
 

مملکتِ خدادادمیں سدومیت کی راہیں ہموار کرنے کی تدبیریں


مملکتِ خدادادمیں سدومیت کی راہیں ہموار کرنے کی تدبیریں


ٹرانس جینڈر ایکٹ پر بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا، اس کی قانونی تشریح کرنے والے ماہرین بھی اس پر تقریباً متفق ہیں کہ اس ایکٹ کی آڑ میں ہم جنس پرستی کا دروازہ کھولنے کی گھناؤنی سازش رچائی گئی ہے۔ ذیل میں اس ایکٹ تک رسائی کی تاریخ اور اس سے پیدا ہونے والے مباحث کا مختصر تجزیہ پیش نظر ہے:
1- وطنِ خداداد کو یکجا رکھنے کی اِکائی رنگ و نسل ، قوم و زبان اور تہذیب و ثقافت سے ماوراء ہے ، یہ اکائی ’’دینِ اسلام‘‘ ہے ، اگر معاشرے کی مذہبی شناخت قائم رہے گی تو یہ مملکتِ خداداد باوجود انتظامی و سیاسی شکست و ریخت کے دنیا کے نقشے پر پورے طمطراق سے دشمنوں کے سر پر سوار رہ کر باقی رہے گی۔ اگر خاکم بدہن معاشرہ اپنی مذہبی شناخت سے دستبردار ہونے کی راہوں پر گامزن ہو چلے تو اس ملک کو یکجا رکھنے کی کوئی اور اِکائی سرے سے موجود ہی نہیں۔ مملکتِ خداداد کی حفاظت پر مامور محافظین سمیت دانشور طبقہ اس نکتہ کو بخوبی سمجھتا ہے کہ مملکتِ پاکستان کی تعمیر میں مذہبی معاشرے کا کردار ہی کلیدی نوعیت کا ہے۔ ہم آدھا ملک اسی لسانی و قومی شناخت کے لیے اتاؤلوں کے ہاتھ گنوا چکے ہیں اور اس وقت بھی ملک دشمن طاقتیں لسانی ، قومی اور علاقائی عصبیت پر مبنی تحریکوں کے ذریعے اپنے مقاصد نکالنے کے لیے سرگرمِ عمل ہیں۔ تاہم یہ طاقتیں اس بات کا بھی اِدراک رکھتی ہیں کہ جب تک پاکستانی معاشرہ مذہب کی اخلاقی قدروں سے بالکلیہ آزاد نہ ہو‘ اُسے توڑنے کا عمل کامیاب نہیں ہو سکتا۔ 
اخلاقی قدروں کی ریخت کا یہ سفر عرصہ سے جاری ہے۔ جاہلی عصبیت کا فروغ بھی اسی کا حصہ ہے ، فحاشی و عریانی اور مادر پدر آزاد تہذیب کا چرچا بھی انہی مقاصد کی تکمیل کا زینہ ہے۔ ذرائع ابلاغ اور میڈیا کے ذریعے بے لباس ثقافت کی راہ ہموار کرنے اور معاشرتی اقدار کو توڑنے کے لیے مخصوص ڈراموں اور فلموں کا رواج بھی اسی مہم جوئی کےتحت ہے، لیکن قانونی سطح پر ہم جنس پرستی کے لیے ٹرانس جینڈر ایکٹ کا جو تازہ کھیل کھیلا گیا ہے، یہ ہماری معاشرتی و دینی اقدار کے خلاف سب سے گہری و گھناؤنی سازش ہے ۔ 
2- خدا کی زمین پر ہم جنس پرستی کی لعنت کا سب سے پہلے پرچار کرنے والے اہلِ سدوم تھے ۔ سدوم کی بستیوں کی طرف اللہ تعالیٰ کے پیغمبر حضرت لوط علیہ السلام مبعوث ہوئے، قرآنی تصریح کے مطابق اہلِ سدوم سے قبل اس زمین پر کسی ابن آدم نے اس فعلِ بد کا ارتکاب نہیں کیا تھا۔ 
پہلے پہل یہ چند اوباش طبع افراد کے جتھے کا عمل تھا جو راہ گزرتے مسافروں کو تنگ کرنے کی غرض سے اس قسم کے آوازے کستے۔ تاہم جب ایک بات قوم کی عام مجلسوں کا موضوع بن جائے تو اس کی سنگینی اور حساسیت کا تأثر رفتہ رفتہ ذہنوں سے مٹنے لگتا ہے ، آج کا میڈیا بھی یہی کردار ادا کرتا ہے کہ قوم کے ذہنوں سے معصیت کی سنگینی کا احساس بتدریج مٹایا جائے۔ اس وقت کی یہ ضرورت شاید چوپالوں اور بیٹھکوں نے پوری کی ہو گی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا یہ فعل انفرادی سطح پر نہیں رہا، بلکہ اسے معاشرتی جواز ملنے پر یہ قومی مرض بن گیا، یہاں تک کہ ان کی عادات میں اس قدر رچ بس گیا کہ ان کا نشہ بن گیا، جس طرح نشئی دور سے اپنے نشے کی بو سونگھ کر اس کی طرف دوڑتا ہے یا نشہ کرنے والوں کے پاس سے گزرتے ہوئے اس کی نشیانہ حس پھڑکتی ہے، بعینہ یہ دور سے اپنے مقصدِ غلیظ کی تکمیل کا موقع بھانپ لیتے تھے ۔ جس وقت اللہ تعالیٰ نے انہیں نیست و نابود کرنے اور زمین کو ان کی غلاظت سے نجات دینے کا فیصلہ کیا، اس وقت بطور آزمائش ملائکِ عذاب کو امارد کی شکل میں ان کی بستی میں بھیجا ، قرآن کریم نے اس موقع پر ان کے رویے کی جو منظر کشی کی ہے، اس سے سدومی معاشرے کی اقداری سطح کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ ارشادِ ربانی ہے: 
’’وَجَاءَہٗ قَوْمُہٗ يُہْرَعُوْنَ إِلَيْہِ وَمِنْ قَبْلُ کَانُوْا يَعْمَلُوْنَ السَّيِّئٰتِ قَالَ يٰقَوْمِ ہٰؤُلَاءِ بَنَاتِيْ ہُنَّ أَطْہَرُ لَکُمْ  فَاتَّقُوْا اللہَ وَلَا تُخْزُوْنِ فِيْ ضَيْفِيْ  اَلَيْسَ مِنْکُمْ  رَجُلٌ رَّشِیْدٌ۔‘‘
ترجمہ: ’’ اور ان کی قوم ان کے پاس دوڑی ہوئی آئی اور پہلے سے نامعقول حرکتیں کیا ہی کرتے تھے لوط (علیہ السلام) فرمانے لگے کہ: اے میری قوم! یہ میری (بہو) بیٹیاں موجود ہیں، وہ تمہارے (نفس کی کامرانی کے) لیے (اچھی) خاصی ہیں، سو اللہ سے ڈرو اور میرے مہمانوں میں مجھ کو فضیحت مت کرو، کیا تم میں کوئی بھی (معقول آدمی اور) بھلا مانس نہیں۔ ‘‘
وہ حضرت لوط علیہ السلام کے گھر پر چڑھ دوڑے ، نہ لوط علیہ السلام کی نجابت سے شرم آئی، نہ اجنبیوں کے بارے اس طرح کے اِقدام سے کوئی خوف و حجاب لاحق ہوا ،یہ تو ان کی اخلاقی پامالی تھی، لیکن اس اقدام سے یہ بھی پتہ چلا کہ نہ صرف معاشرتی سطح پر اس عمل کی سنگینی کا ادراک محو ہو چکا تھا، بلکہ اس طبقہ کی حیثیت و پوزیشن اتنی مضبوط تھی کہ وہ اس قسم کے اقدامات کے ممکنہ معاشرتی عواقب سے قطعاً بے خوف و مطمئن تھے۔ 
قرآن مجید نے ان کے آنے کو ’’ھرع‘‘ سے تعبیر کیا ہے، جو کسی زخم سے نکلنے والے اس تیز دھار خون اور پیپ کی کیفیت کو کہا جاتا ہے کہ پچھلے کے مسلسل دباؤ سے اگلا رکنے کا نام ہی نہ لے۔ کسی جرم کی طرف علانیہ اس طور پر آنا کہ ایک دوسرے پر گرتے پڑتے، دھکم پیل کرتے اور بے خبروں کو خبردار کرنے کے لیے ڈھنڈورا پیٹنے کا عمل بھی ساتھ جاری ہو، دھاریں مارتے ہوئے ہوئے ناپاک خون کی سی وہ کیفیت ہے جو گردو پیش کو پوری طرح آلودہ کرکے رکھ دیتا ہے اور اپنے تسلسل کے باعث بدترین نفسیاتی پریشانی پیدا کر دیتا ہے۔ اس قوم کی مجرمانہ نفسیات کو سمجھنے کے لیے یہی ایک لفظ کافی ہے ، قرآن مجید کے اسی ایک لفظ نے ان کی مجرمانہ ذہنیت کی سطح پوری طرح آشکارا کی ہے۔ نفسیاتی رو سے روحانی امراض کا یہ وہ خطرناک طبعی اثرہوتا ہے جہاں خدائی قوانین سے انحراف معاشروں میں اجتماعی فساد فی الارض کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور فطرت کے خلاف اس درجہ بغاوت کے بعد معاشروں کے وجود کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا، اس کے بعد خداوند قدوس کے نظامِ تکوین کی حرکیات کے تحت ان کا تذکار صرف ’’عِبْرَۃً لِّاُولِی الْاَبْصَارِ‘‘ کی شکل میں باقی رہتا ہے۔ یہاں یہ نکتہ بھی قابلِ توجہ ہے کہ قرآن مجید نے اپنے اعجازی اسلوبِ بیان کے تحت ان کی اس بھاگ دوڑ کے لیے جو لفظ اختیار کیا، اس کے مفہوم سے اشارہ ملتا ہے کہ سدومی معاشرہ کی مثال ایسے ناسور کی طرح ہے جس سے بہنے والا خون اور پیپ رکنے کانام نہ لے، یعنی سدومیت کا ناسور معاشرہ کو ایسے ہی ناپاک کرکے رکھ دیتا ہے، جیسے مسلسل بہنے والے خون کے ساتھ پاکی کا تصور ممکن نہیں رہتا۔ 
قرآن مجید نے یہ بھی صراحت کی ہے کہ اہلِ سدوم کی یہ مجرمانہ سطح کسی اچانک اور وقتی جذبے اور انقلاب کا اثر نہیں تھا، بلکہ یہ معاشرہ ’’سَیِّئَات‘‘ کے ایک پورے پراسس سے گزر کر اس سطح تک پہنچا تھا۔ معاشروں کی تباہی کے لیے انسانیت میں خدا کی اعلانیہ بغاوت یکدم برپا نہیں ہوتی، انسان ضمیر کو بارہا شکست دیتے دیتے باغیانہ مقام تک پہنچتا ہے، لہٰذا معاشروں کوعمومی تباہی سے بچانا اسی وقت ہی ممکن ہوتا ہے جب ’’سَیِّئَات‘‘ کے مرحلے پر اس سلسلہ کو روک لگا دی جائے، اگر یہ بند نہ باندھا جائے تو زمین کی تطہیر کے لیے تکوینی طور پر ریخت کا عمل برپا ہو کر ہی رہتا ہے، چاہے وہ تطہیرِ ارض براہِ راست آسمانی عذاب کی شکل میں ہو یا انسانوں کو انسانوں پر مسلط کرنے کی شکل میں۔ 
قرآن مجید اس بات کی بھی صراحت کرتا ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام قوم کی اس مجرمانہ سطح پر پہنچنے کے بعد بھی فرائضِ نبوت کی ادائیگی کے لیے سرگرمِ عمل رہے اور وعظ و اِنذار کے ذریعے قوم کی نفسیات کو دو انداز سے جھنجھوڑا۔ ایک تو انہیں خدا سے ڈرایا کہ انسان میں اگر جرم کی نفسیات غالب بھی ہوں، تب بھی اس کے اعصاب پر بالاتر ہستی کا ایک خوف سوار ہوتا ہے اور اکثر اوقات یہی احساسِ خوف اسے جرم سے روک دیتا ہے یا جرم کا بوجھ اس کے سر پر سوار رکھتا ہے، جس سے اس کی اصلاح کی توقع موجود ہوتی ہے، لیکن مجرمانہ نفسیات کی منتہائی سطح پر خوف کا یہ احساس اس قدر مضمحل ہو جاتا ہے کہ تکوینی تھپڑ کے بغیر اسے بیدار کرنا ممکن نہیں رہتا۔ 
خدا کی نصرت سے کسی نبی کی قوتِ توجہ اپنے عہد کے تمام تر لوگوں سے زیادہ مضبوط ہوتی ہے، اس کی اعصابی طاقت مجرمانہ نفسیات کے سامنے کبھی اضمحلال کا شکار نہیں ہوتی، اس منتہائی مجرمانہ ذہن کے سامنے لوط علیہ السلام نے خدا خوفی کی دعوت کے ساتھ انہیں تکمیلِ شہوت کے جائز ذرائع کی نشان دہی کی کہ تمہاری بیویاں جو میری روحانی اولاد ہیں، تمہاری اس قسم کی توجہ و ترکیز کی زیادہ لائق ہیں۔ لوط علیہ السلام کا ان کی بیویوں کو اپنی بیٹیاں قرار دینا ایک تو نبوی شفقت و رأفت کا اظہار تھا، دوسرا یہ کہ حضرت لوط علیہ السلام اہلِ سدوم میں سے نہیں تھے، نسلی و قومی اجنبیت ایسے وحشی و بہیمی معاشروں میں بعض اوقات ایک کمزوری بن جاتی ہے۔ انبیاء علیہم السلام کی دعوتی حکمت عملی کا یہ پہلو بڑا نمایاں ہے کہ وہ دعوت و انذار میں قوموں کے ساتھ اپنائیت کا لہجہ ترک نہیں کرتے ۔ تیسرا یہ کہ نفسیاتی طور پریہ اہلِ سدوم کے لیے ایک بہت بڑی عار بھی تھی کہ لوط علیہ السلام تو ان کے حرم کو بیٹی کا تقدس اور اپنائیت بخش رہے ہیں، لیکن ان کی حس ایسی بگڑ چکی ہے کہ وہ لوط علیہ السلام کے اجنبی مہمانوں کے درپے ہیں، لیکن جب غیرت مکمل مردہ ہو تو ایسی لطیف و باریک تعبیرات سے سبق لینا ممکن نہیں ہوتا۔ 
3-حضرت لوط علیہ السلام کی تلقین سے معلوم ہوا کہ غیر جنس یعنی اپنی بیوی کی طرف میلان ہی فطری ہے۔ ہم جنسی میلانات قطعاً غیر فطری ہیں۔ فرائیڈ یا دیگر انگریز دانشوروں نے ہم جنس پرستی کو جو جینیاتی جرثوموں کی فطری تحریک کا عمل کہہ کر جواز بخشنے کی کوشش کی ہے، یہ قطعاً بلا دلیل ہے۔ یہ ممکن ہے کہ انسان بہیمی جذبات کے تحت فطری عفت کا آخری درجہ بھی زائل کر دے، جس کے بعد اس کی نظر میں محرمات و ہم جنس سے ملاپ کی بھی کوئی قباحت باقی نہیں رہتی، لیکن ماہرینِ نفسیات جانتے ہیں کہ اس درجہ تک رسائی روحانی کے ساتھ ساتھ ایک جسمانی مرض ہے، اور فطری جذبات سے انحراف اور بگاڑ ہے، ایسا انسان طب کی نظر میں غیر متوازن یعنی اب نارمل ہوتا ہے۔ فطرت سے اس انحراف کے نتیجے میں تحریکِ شہوت کے جرثوموں کی حرکیات بے قاعدہ ہو جاتی ہیں، لیکن انہیں توازن پر لانا ایسا ہی ممکن ہوتا ہے جس طرح دیگر جسمانی امراض میں مرض کے علاج کے ذریعے تعدیلِ مزاج ممکن ہوتا ہے، لیکن ان جرثوموں کا فطرتاً غیر متوازن ہونا اور اس بنیاد پر ہم جنس پرست میلانات کو فطری و جینیاتی کہنا علمِ نفسیات و طب کی رو سے خلافِ حقیقت ہے۔ انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات فطری ہوتی ہیں اور ان کی نکیر ہمیشہ غیر فطری امور پر رہتی ہے۔ لوط علیہ السلام کی سدومی مزاج پر نکیر اور انہیں اپنی بیویوں سے قضائے شہوت کی تلقین اس کی واضح اور کافی دلیل ہے کہ انسان کے فطری مزاج اور جینیاتی نظام میں ہم جنس پرست میلانات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ حضرت لوط علیہ السلام نے قوم کی مجرمانہ ذہنیت پر دوسری چوٹ یہ لگائی کہ آپ کا اس طرح کا اقدام معاشرتی رو سے بہت بڑی بے شرمی اور باعثِ رسوائی عمل ہے، جن افراد کے بارے میں آپ ناپاک عزائم لے کر وارد ہوئے ہیں وہ مہمان ہیں اور مہمان کے بارے میں اس طرح کے عزائم کا اظہار میزبان کی رسوائی ہے۔ کوئی معاشرہ کسی جرم کی جس درجہ لت کا شکار ہو، تاہم اگر اس میں حمیت کی رمق قدرے بھی باقی ہو تو وہ مہمانوں سے اجتماعی اور اعلانیہ بے حیائی کا ارتکاب کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا، بعض اوقات خدا خوفی سے عاری اقوام معاشرتی رسم ورسوم کا تو کچھ لحاظ رکھ ہی لیتی ہیں، لیکن سدومی معاشرہ خدافراموشی کے ساتھ ساتھ معاشرتی اقداربھی کھو چکا تھا، اس لیے حضرت لوط علیہ السلام کی اس دوسری تنبیہ سے بھی ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی اور بڑی ڈھٹائی اور بے حیائی سے کہہ دیا کہ آپ ہمارے ارادوں کو جانتے ہیں، ہم آپ کی پیش کردہ تجویز و ہدایت کو درخورِ اعتناء نہیں سمجھتے، ہماری ترجیح تو آپ کے پاس آئے ہوئے مہمان ہیں۔ قوموں کی تباہی کی حد یہی سرخ لکیر ہوتی ہے جسے وہ پار کرکے دائمی غضب کی مرتکب ہو جاتی ہیں کہ ان کے پاس فطری حل موجود ہونے کے باوجود وہ خدا کی بغاوت پر مبنی طرزِ زندگی اور غیر فطری حل سے باز نہیں آتے اور جب ان کے سامنے فطری حل رکھا جائے تو وہ اسے یکسر مسترد کر دیتے ہیں۔ 
4-سدومی معاشرہ کی تباہی کے ذمہ دار جہاں وہ بدکردار تھے جو لوط علیہ السلام کے دروازے پر دھاوا بولے بیٹھے تھے، وہاں اس قوم کے دانشور بھی اس جرم میں برابر کے شریک تھے، کیونکہ قوم کے دانشوروں نے بھی اس عمل قبیح کو ان عادی مجرموں کا بنیادی ’’حق‘‘(رائٹ)تسلیم کرکے معاشرتی سطح پر ان کی مغضوبانہ سرگرمیوں کو جواز بخشا اور جب لوط علیہ السلام نے قوم کے سامنے معقول اور منطقی بات رکھی اور اسے مسترد کیا گیا تو آخر میں یہی دہائی دی کہ کیا تم میں کوئی سمجھ دار انسان نہیں رہا؟ ظاہر ہے کہ جب دانشور اور سمجھ دار طبقہ جرم اور مجرم کا پشت پناہ بن جائے تو کون اسے رجل رشید کہے گا؟ خود حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی جو پیغمبر کے حرم کا حصہ ہونے کے باعث عفیفہ و طاہرہ تھی، قومی رجحانات کے تحت بدکرداروں کی اس گھناؤنی حرکتوں کو ان کا ’’حق‘‘ تسلیم کرتی رہی۔ ظاہر ہے جو خدا کی محرمات پر مجرمانہ خاموشی سے بڑھ کر اسے جواز بخشنے تک کا کفر کر بیٹھے وہ خدا کے عذاب سے کیونکر بچ سکتا ہے، اس لیے قومِ لوط جب اس کھلی بے حیائی پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کا شکار ہوئی اور ان پر پتھروں کی بارش کے ساتھ ان کی بستیوں کو اُلٹ کر پھینکا گیا تو معاشرے کا یہ آزاد خیال (براڈ مائنڈڈ) طبقہ بھی اس کی زَد میں آیا، یہاں تک کہ لوط علیہ السلام کی بیوی بھی اپنے اس نظریے کے باعث عذابِ الٰہی کا شکار ہوئی۔ 
5- سدومیت انسانی رذالت کا انتہائی مقام ہے، اس لیے اس جرم کے عادی افراد میں رذالت پنپتی ہے، جس کے باعث وہ بدترین احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں اور اس شناخت کے ساتھ ایک اندرونی کرب و عذاب سے دوچار رہتے ہیں۔ اگر انہیں معاشرتی پذیرائی ملے تو گندگی کا احساس ان کے لاشعور میں موجود ہی رہتا ہے، جیسا کہ حضرت لوط علیہ السلام جب سدومیوں کو اس عملِ قبیح سے روکتے تھے تووہ برملا کہتے تھے کہ انہیں اس بستی سے نکال دو، یہ بڑے پاکباز بنے پھرتے ہیں۔ گو کہ یہ کلام وہ لوط علیہ السلام اور مؤمنین پر بطور عیب جوئی کستے تھے کہ انہیں اپنی گندگی پر فخر تھا اور ان کی پاکبازی انہیں قبول نہیں تھی، لیکن اس کے لیے جو تعبیر اُن کی زبانوں سے صادر ہوئی، وہ ان کے لاشعور میں پڑی حقیقت کو آشکارا کرتی ہے کہ بہرحال طہارت و پاکیزگی کا نمائندہ تو لوط علیہ السلام اور مؤمنین ہی کا عمل ہے۔ 
6-سدومی مزاج میں نامردی اور کمینگی پائی جاتی ہے، جس سے مردانہ خصائص و مزایا باقی نہیں رہ پاتے، نتیجۃً اس عمل کا عادی معاشرہ بے حوصلگی، مکاری، نامردی اور بزدلی کا شکار رہتا ہے۔ جب وہ طاقت سے عاری ہو تو اس کی رذالت انسانیت کے لیے ناسور ہوتی ہے اور جب ان کے پاس طاقت ہو تو ان میں تشدد کا مادہ پیدا ہو جاتا ہے۔ مغرب نے ہم جنس پرستی کو رواج دینے کی اعلانیہ بغاوت تو کر لی ہے، لیکن اس کے بدترین عواقب انہیں اسی صورت میں مل رہے ہیں۔ 
7- سدومیت زدہ افراد اضطراب اور بے چینی کے حل کے لیے منشیات اور شراب نوشی کی طرف بڑھتے ہیں، جس سے معاشرہ کی عملی سرگرمیوں بالخصوص تعلیم وتعلم ، انتظام و انصرام ، نسق حکومت وغیرہ جملہ شعبہ ہائے زندگی میں ایک تعطل پیدا ہو جاتا ہے، اس تعطل کو قانون کے جبر اور سرمایہ کے زور سے عارضی طور پر گو روک لیا جائے، تاہم ایسے افراد کو جہاں قانونی چور دروازہ ملتا ہے تو ان کے تعطل کا اثر ان کے کاموں اور معاشرے پر ضرور پڑتا ہے ، دنیا میں بڑھتے ہوئے نشے اور ان تباہ کاریوں کی پشت پر ایک حد تک سدومی جذبات کا بھی عمل دخل ہے۔ سدومیت زدہ افراد کی قوتِ ارادی بھی بری طرح مفلوج ہو جاتی ہے اور وہ عملاً کسی بلند ہدف تک رسائی نہیں پا سکتے ۔ 
8- سدومیت کا ایک بدترین اثر جسمانی امراض ہیں ، قرآنی تصریح کے مطابق یہ گندگی ہے اور ہر گندگی کا اثر جہاں روح پر پڑتا ہے، وہاں اس کے جسمانی نقصانات بھی واضح ہیں، مثلاً ایڈز وغیرہ کے امراض اسی طرح کی گندگیوں کی پیداوار ہیں ۔ ایسے افراد نفسیاتی اور دماغی بیماریوں کا بھی شکار ہو جاتے ہیں ۔ میرے ایک دوست ڈاکٹر نے ایک نفسیاتی مریضہ کا جو میڈیکل کی طالبہ تھیں اوربیماری کے باعث پڑھائی چھوٹنے کے قریب تھی، مجھ سے رابطہ کروایا کہ اس کے کچھ مذہبی اشکالات ہیں‘ انہیں سن کر رہنمائی کی جائے ، جب اس لڑکی سے اس کے حالات کی تفصیلی تاریخ لی گئی تو اس کے پس منظر میں یہ بات سامنے آئی کہ اس کی ایک دوسری رشتہ دار لڑکی کے ساتھ ہم جنس پرستی کی لت نے اسے اس مرحلے تک پہنچایا تھا۔ نفسیاتی ڈاکٹروں کے پاس ایسے درجنوں کیس ہوتے ہیں۔ مغربی ممالک میں جہاں یہ حیوانیت عام ہے، نفسیاتی امراض کی شرح ساری دنیا سے بڑھ کر ہے۔ 
9- ہم جنس پرستی کو فروغ دینے میں اس وقت جو ممالک سرگرم ہیں، ان میں امریکہ پیش پیش ہے۔ ہم جنس پرست تحریک ۱۹۲۰ء میں منظم ہوئی اور مختلف ممالک میں رفتہ رفتہ اپنے مقاصد مکمل کرتی رہی۔ ا ن کا جھنڈا بنا، انہیں قانونی حیثیت ملی ، پھر ان ننگِ انسانیت افراد کو ’’سٹارز‘‘ کہا جانے لگا اور ان کی اس بہمیت سے بدتر عمل کو کمائی کا ذریعہ قرار دے کر ایک انڈسٹری تسلیم کر لیا گیا، پھر اسے انڈسٹری سے بڑھا کر خاندان کا متبادل تسلیم کیا جانے لگا اور برملا یہ نعرے اُٹھے کہ ہم جنس پرست عمر بھر ایک دوسرے کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ چند سال قبل بھارتی سپریم کورٹ نے بھی ہم جنس پرستی کو جرائم کی فہرست سے خارج کر دیا ہے۔ اس وقت دنیا بھر کے ۱۱۳؍ممالک میں ہم جنس پرستی کو قانونی تحفظ حاصل ہے، جن میں مالی، اردن، قازقستان، ترکی، تاجکستان، کرغزستان، بوسنیا اور آذربائیجان جیسے ۹ مسلمان ممالک بھی شامل ہیں اور ۷۶ممالک میں یہ غیر قانونی ہے۔ پاکستانی معاشرے کو تباہ کرنے کے لیے اس کی شکل ٹرانس جینڈر ایکٹ کی شکل میں سامنے لائی گئی ، یعنی اندرونی احساس کے پیش نظر اگر ایک مرد خود کو بطور خاتون شناخت کروائے تو شناختی ادارے اس کے پابند ہیں کہ اسے عورت کی شناخت دیں، اس طرح یہی مرد عورت کی شناخت حاصل کرکے عورت کے حقوق کا بھی حامل ہو گا اور معاذاللہ! کسی اور مرد سے عورت کی شناخت پر جنسی تعلق بھی قائم کر سکے گا۔ اس ایکٹ کو خواجہ سراؤں کے حقوق کے تناظر میں سامنے لایا گیا ہے، حالانکہ ٹرانس جینڈر کی تعریف اور اصطلاح ہی جدا ہے، خواجہ سرا کے لیے اصطلاح انٹرسیکس استعمال ہوتی ہے ۔ اس ایکٹ کےمنفی استعمال کا عالم دیکھیے کہ نادرا کے ریکارڈ کے مطابق صرف تین سال کے قلیل عرصے میں تقریباً ۲۸۷۳۳ درخواستیں موصول ہوئیں، جن میں ۱۶۵۳۰ مردوں نے اپنی جنس عورت میں تبدیل کروائی، ۱۲۱۵۴ عورتوں نے اپنی جنس مرد میں تبدیل کروائی اور جن کےلیے قانون بنایا گیا تھا، یعنی جن کی آڑ لی گئی تھی، جن کے تحفظ کا پرچار کیا گیا تھا، ان کی کل ۳۰ درخواستیں موصول ہوئیں۔ ان میں ۲۱ خواجہ سراؤں نے مرد کے طور پر اور ۹ نے عورت کے طور پر حیثیت اختیار کی۔ اس سے اندازہ لگانا ممکن ہے کہ ہمارے معاشرے میں کس تیزی سے نقب لگانے کی کوشش جاری ہے ۔ 
10- جیسا کہ عرض کیا گیا کہ کچھ لوگ اسے فطری اور جینیاتی مسئلہ کہہ کر جواز دینے کی کوشش کر رہے ہیں، پہلے پہل تو ایسے لوگ مغرب میں تھے، لیکن اب اسلامی دنیا میں بھی ان کے ’’معصوم‘‘ نمائندے پیدا ہو چکے ہیں ۔ 
کچھ عرصہ قبل جرمنی کی فریڈرِش ناؤمان اشٹفٹُنگ کے تعاون سے جرمن شہر مائنز میں اس موضوع پر ایک سیمنارکا اہتمام ہوا، جس میں نام نہاد اسلامی اسکالر ڈاکر محمد سمیر مرتضیٰ کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر مرتضیٰ نے کہا کہ ’’قرآن میں ہم جنس پرستی سے متعلق کچھ بھی طے شدہ احکامات موجود نہیں ہیں۔ جب ہم ہم جنس پسندی کی بات کرتے ہیں، تو ہماری گفت گو زیادہ تر قومِ لوط کی کہانی سے جا ملتی ہے، مگر قومِ لوط کی کہانی اصل میں ہم جنس پسندی کی کہانی نہیں تھی، بلکہ بائی سیکسچوئل اور جنسی تشدد کی کہانی تھی۔ شاید مسلم برادری کو ہم جنس پسندوں سے متعلق اپنی روش کو ازسرِ نو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر کوئی ہم جنس پسند اللہ، ملائکہ، پیغمبروں، آسمانی کتب اور یومِ آخرت پر یقین رکھتا ہے، تو کیا وہ مسلمان نہیں؟ ہمیں اس موضوع پر ضرور بات کرنا چاہیے۔‘‘
ڈاکٹر سمیر نے جس چالاکی سے اسلام کے مسلمہ نقطۂ نظر میں تحریف کی کوشش کے لیے تشکیک کا ارتکاب کیا ہے، اسے ایک ادنیٰ مسلمان بھی بخوبی محسوس کر سکتا ہے۔ قرآن مجید نے صرف قوم لوط علیہ السلام کے تناظر میں ہی نہیں، اس کے علاوہ بھی ہم جنس پرستی پر سزا کا ذکر کیا ہے، نیز احادیث اور فقہ اسلامی کا مسلمہ ذخیرہ اس باب میں مکمل قانون سازی کے ساتھ موجود رہا ہے۔ اور یہ کہنا کہ قومِ لوط کی کہانی جنسی تشدد کی کہانی تھی، واقعہ کا ادھورا تعارف ہے، وہ اس مرتبہ تک جس پراسس سے ہوکر گزرے تھے، اس پورے پراسس پر قرآن مجید نے تنقید کی ہے۔ نیز ان کا باہمی اختلاط تشدد کے بغیر باہمی رضامندی کی بنیاد پر تھا، قرآن کریم نے جہاں ان کے عملِ قبیح کا تعارف کروایا ہے، وہاں کہیں تشدد کی کوئی قید نہیں۔ آخر میں انہوں نے جس سوال کو اٹھایا ہے، یہ جذباتی تلویث(ایموشنلی بلیک میلنگ) اور منطقی مغالطہ ہے جو خدا کے محرمات کو حلال قرار دے، وہ خدا کا مسلم کیسے رہ سکتا ہے؟ ہاں! اگر کوئی اس عملِ قبیح کا نادانستہ مرتکب ہو گیا اور اس کی حرمت کا قائل رہا تو ظاہر ہے اس کے لیے توبہ کا دروازہ کھلا ہے اور اسے کوئی بھی دائرہ اسلام سے خارج نہیں کہتا۔ 
 باقی سدومیت کے اثرات سے نکلنا ناممکن نہیں کہ اس کا علاج چھوڑ کر اس میں تلویث گوارا کر لی جائے، بلکہ اس کے اثرات ، محرکات اور دواعی سے نکلنا اسلامی نقطۂ نظر سے سو فیصد ممکن ہے، اس کے لیے صوفیاء کرام جو مسلم ماہرینِ نفسیات ہیں کے ہاں ایک مکمل تربیتی نظام موجود ہے۔ اس میں سب سے بنیادی نقطہ یہ ہے کہ سدومی مزاج و میلان کا اِمالہ کرکے اسے خلافِ جنس یعنی عورت کی طرف پھیرنا ہوتا ہے، اس کے لیے اولین ضرورت صحبتِ صالح اور ماحول کی تبدیلی ہوتی ہے، ایسے افراد کو ایک لمبا عرصہ اگر گندے ماحول سے دور ایک پاکیزہ ماحول میں رکھا جائے تو ان کی ذہنی و قلبی تحریک اور جرثوموں کا توازن بحال ہونے لگتا ہے ۔ 
ایسے افراد کو بھرپور جسمانی مشقت میں ڈالنا بھی مفید ہوتا ہے، یعنی دن بھر غیر معمولی مشقت کے کام کروانا، سخت ورزش اور کم گوئی و کم خوری کا التزام ،نیز تنہائی ختم کرکے صالح جلوت سدومی اثرات کو کم کرنے میں معاون ہوتی ہے۔ 
روزہ، صحت مند مطالعہ، رقتِ قلبی کے محرکات مثلاً موت اور آخرت کے تذکرے پر مبنی صالح لٹریچر ، اہل اللہ کے مواعظ و بیانات اور ذکر و مراقبہ کی مجالس سدومی اثرات کے زوال کے لیے اکسیر ہیں۔ ایسے افراد کی مسلسل نگرانی کرنا ضروری ہوتی ہے۔ بالخصوص ایسے افراد سے اختلاط جن کی طرف میلان ہو سکے ، ان سے مصافحہ کرنا، بغل گیر ہونا ، مجالست، ساتھ کھڑا ہونا، ان کی طرف دیکھنا اور گفتگو کرنا سدومی اثرات کے خاتمے کے لیے موانع ہیں ۔ ان موانع کو ختم کرنا انتہائی ضروری ہوتا ہے، ورنہ اس کے بغیر علاج ممکن نہیں ہوتا ۔ ایک عرصہ اس التزام سے غیر جنس کی طرف میلان صحیح ہو جاتا ہے، جس کے بعد نکاح اس کا دائمی حل ہوتا ہے۔ 
سدومی اثرات کے اضمحلال کے بغیر ازدواجی زندگی بڑی پیچیدگیوں کا شکار ہوتی ہے۔ بعض اوقات ایسا مرحلہ آجاتا ہے کہ میلانِ صحیح مکمل ختم ہو جاتا ہے اور عورت میں دلچسپی ہی باقی نہیں رہتی، جیسا کہ اہلِ سدوم نے اس کا اقرار کیا۔ اس کے نتیجے میں طلاقیں واقع ہوتی ہیں، گھر اُجڑتے ہیں اور خاندانی دشمنیوں کو وجود ملتا ہے۔ سدومیت زدہ افراد کو ان اثرات سے نکالنے کے لیے تربیتی دورانیے سے گزارنے کے بعد ہی ازدواجی عمل مفید ثابت ہوتا ہے، کیونکہ ان اثرات کے ساتھ کامیاب ازدواجی زندگی کے لیے جانبین میں جس توجہ و میلان کی ضرورت ہوتی ہے، وہ قائم نہیں ہوپاتا، بلکہ بسا اوقات مرد میں تشدد کی نفسیات پیدا کر دیتا ہے، جس کے سنگین نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کو جس ڈگر پر ڈالنے کی کوشش تسلسل کے ساتھ جاری ہے، اس کے خلاف تعلیمی اداروں ، تربیتی مراکز ، اصلاح و ارشاد کے مختلف فورمز پر ایک ایسی تحریک کی ضرورت ہے، جہاں نئی نسل کو اس کے عواقب و نتائج سے باخبر کیا جا سکے۔ اہلِ اقتدار سے بھی درخواست ہے کہ اس ایکٹ کو واپس لینے اور اس باب میں مغربی آقاؤں کے دباؤ کو مسترد کرنے کا حوصلہ و جرأت پیدا کریں، ورنہ یہ آگ کل آپ کی نسلوں تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ و ما علینا إلا البلاغ

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین