بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

بینات

 
 

مکاتیب حضرت مولانا احمد رضا بجنوری رحمۃ اللہ علیہ  بنام حضرت بنوری  رحمۃ اللہ علیہ 

سلسلۂ مکاتیب حضرت بنوریؒ


مکاتیب حضرت مولانا احمد رضا بجنوری رحمۃ اللہ علیہ  بنام حضرت بنوری  رحمۃ اللہ علیہ 

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
مکرم ومحترم،  دام مجدُکم وعمّت فیوضُکم‎! ‎
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‎!

عرصہ سے گرامی نامہ نہیں ملا، شاید مصروفیت مانع رہی ہو، اکثر آپ سے دوری کا شدید احساس وقلق رہتا ہے، اس وقت آپ کے مشوروں کی بہت ضرورت تھی۔ خیر! خدا آپ کو علم ودین کی خدمت کے لیے عمرِ نوح عطا کرے، ہر وقت دعا ہے کہ آپ کی حدیثی خدمات منظرِ عام پر جلد آجائیں۔ شرحِ ترمذی (معارف السنن) کا کیا ہوا؟ تھوڑا تھوڑا اشاعت کا کام شروع ہوجانا چاہیے۔ حالات سے مطلع کریں۔ کسی وقت خیال ہوتا ہے کہ آپ اب صرف تصنیف میں لگ جاتے تو بڑا کام ہوجاتا، مگر آپ نے درس کے ساتھ انتظامی معاملات کا بھی دردِسر لیا ہے، جو ایک علمی آدمی کے لیے کسی طرح موزوں نہیں۔ میں تو آپ جیسے حضرات کے لیے درس کو بھی ثانوی درجہ میں سمجھتا ہوں۔ اگر حضرت شاہ صاحب (مولانا محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ) نے آخر کے صرف چار پانچ سال میں بھی تصنیف کا کام کیا ہوتا تو کتنا بڑا کام ہوجاتا۔ خیر! چھوڑیے اس تلخ بحث کو۔‎ ‎
نمنکانی (مصری ناشر وکتب فروش)، ’’تحفۃ الأحوذي‘‘ کو مصر میں چھپوا رہے ہیں، (مصنف کے) ورثہ سے بھی اجازت لے لی ہے، میں نے مولانا بدرِ عالم صاحب کو لکھا تھا کہ ان کو سمجھائیں کہ کوئی اور حدیثی کتاب چھاپیں، ’’تحفۃ الأحوذي‘‘ تو چھپ چکی ہے، ملتی بھی ہے،اور بہت خطرناک ہے، تلبیس سے بھی بہت کام لیا ہے، وغیرہ۔ تو انہوں نے کہا کہ یہ کام یہاں کے لوگوں کی تحریک وامداد سے وہ کر رہے ہیں، تم جانتے ہو جیسے خیال کے یہ لوگ ہیں، اس لیے یہ کام تو وہ ضرور کریں گے، ، البتہ اگر تعلیقات اس پر ہوجائیں تو وہ بھی ساتھ میں چھاپ سکتے ہیں۔ تو میرا خیال ہوا کہ آپ کو فرصت ہو یا مولانا عبد الرشید صاحب (نعمانی) یا مولانا ظفر احمد صاحب (عثمانی) وغیرہ، اگر قلم برداشتہ بھی (علامہ محمد زاہد) کوثری صاحب کی طرح کی تعلیقات (تحریر) کردیں گے تو بڑا کام ہوجائے گا۔ یہاں مولانا حبیب الرحمٰن صاحب اعظمی سے بھی تحریک کروں گا، جنہوں نے مسند احمد (جدید طبع، مصر) کی تعلیقات پر مواخذات کیے ہیں، اور پندرہویں جلد میں چھپ گئے ہیں۔ غرض جیسے رائے ہو لکھیے‎! ‎
’’محلی‘‘ (ابن حزم رحمہ اللہ) دیکھتا ہوں تو بڑی تکلیف ہوتی ہے، اپنے حضرات نے اس کے لیے بھی کچھ نہ کیا، مفتی (مہدی حسن شاہ جہانپوری) صاحب، ’’کتاب الحجج‘‘ (کتاب الحجۃ علٰی أھل المدینۃ) پر تعلیقات (تحریر) کر رہے ہیں، اس میں ان سے زور دے کر اس پر کچھ لکھواتا ہوں، خود بھی انہیں احساس ہے۔ غالباً آپ نے ’’شرح ترمذی‘‘ میں اس کو سامنے رکھا ہے۔ لیکن مفتی صاحب کی صحت بہت گر چکی ہے، بہت کام نہیں کرسکتے۔ ان کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے، افتاء کے کام میں لگے ہیں۔۔۔۔‎ ‎
مولانا ابوالوفاء (افغانی) نہایت متمنی ہیں کہ ’’کتاب الحجج‘‘ کی تعلیقات جلدی (تحریر) کردیں تو وہ چھپوادیں، مگر وہ پورا نہ کرسکے، میں نے کئی بار کہا کہ باقی ربع حصہ کو مختصر مختصر کرکے پورا کردیں تو یہ بھی نہیں ہوتا۔
حصہ دوم مقدمہ انوار الباری زیرِ طبع ہے، حضرت شاہ صاحب کے حالات مع ایک سو تلامذہ کے آگئے ہیں، علمی زندگی کو زیادہ نمایاں کرنے کی سعی کی ہے۔ آپ نے ابھی ممالکِ اسلامیہ کا دورہ کیا، اس کا مختصر حال مطبوعہ سفرنامہ شائع کردیتے، ذرا نئے طریقے پر بھی آپ کا تعارف ہونا چاہیے۔‎ ‎
مدینہ یونی ورسٹی کے سلسلہ میں مودودی صاحب گئے، آپ جاتے تو کتنا بڑا علمی نفع ہوتا۔ یہ ایک بہت بڑا محاذ بن رہا ہے، اس کے نصاب پر ہی کچھ لکھ کر شائع کردیجیے، یا یہاں بھیج دیں، رسالہ دار العلوم (دیوبند) وغیرہ میں شائع کرادوں۔ ان سب باتوں پر ضرور آپ کی نظر ہوگی۔ کہنا یہ ہے کہ اپنی غیر ضروری انتظامی مصروفیتوں کو دوسروں سے کام لے کر ادھر کے خالص علمی، تصنیفی وغیرہ کاموں کی طرف زیادہ توجہ کیجیے، بلکہ جس طرح بھی ہوسکے، اپنے حالات، نظریات اور صحت وعافیت وغیرہ سے مہینہ میں ایک دو بار ضرور مطلع کرتے رہیں، ممنون ہوں گا۔                                                        والسلام‎ : احقر احمد رضا (دیوبند‎) (۲۳؍ دسمبر سنہ ۱۹۶۱ء)
پس نوشت: اور بہت کچھ لکھنا ہے، مگر میں بھی بہت سے کاموں میں گھر گیا ہوں، چاہتا ہوں کہ مدرسہ سے سبکدوش ہوکر صرف ’’انوار الباری‘‘ کا کام کروں، مگر ابھی تک حالات سازگار نہیں ہیں۔’’انوار الباری‘‘ کے سلسلہ میں چند معاونین ومحسنین مہیا ہوجائیں تو کام آگے بڑھے۔ بہرحال خدا کے بھروسہ پر ایک کام کیا ہے، آپ کی خاص دعاؤں، مفید مشوروں اور خصوصی توجہات کی ہر وقت ضرورت ہے، امید (ہے) کہ خط لکھتے رہیں گے۔‎ ‎

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مکرم ومحترم،  دام مجدُکم وعمّت فیوضُکم‎!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‎! 

اُمید (ہے) کہ مع متعلقین بعافیت ہوں گے، عرصہ سے کوئی خط نہیں ملا، فکر ہے۔ غالباً مولانا طاسین صاحب بھی سفرِ مبارک حج پر روانہ ہوگئے، ورنہ وہ آپ کی عافیت بھی لکھتے رہتے تھے۔ جلد دوم مقدمہ (انوار الباری) ارسال کرچکا ہوں، ملاحظہ کیا ہوگا، خصوصی ملاحظہ کے لیے ٹائٹل کے صفحے پر نشان دہی کی ہے۔ براہِ کرم وقت نکال کر ایک تنقیدی نظر ڈال لیں، اور جلد مجھے اپنے تأثرات اور مفید اصلاحی مشوروں سے نوازیں۔ حضرت شاہ صاحبؒ کے حالات بھی پڑھ لیں، (حضرت شاہ صاحبؒ کے) نسب کا مسئلہ بھی میں نے حاجی محمد صاحب کے مشورہ کے بعد صاف کردیا ہے، گول مول چل رہا تھا، جو اتنی بڑی شخصیت کے بارے میں موزوں نہ تھا۔ امام بخاریؒ کے بارے میں (مقدمہ کے) پہلے حصہ میں اور اس حصہ میں جو کچھ آچکا ہے، اس کے بارے میں آپ کے خصوصی تأثرات کا علم میرے لیے ضروری ہے۔‎ ‎
مولانا مفتی محمد شفیع صاحب کا خط آیا تھا کہ اس سے منکرینِ حدیث کو تقویت ملے گی، وغیرہ۔ اس کا جواب میں نے رجسٹری سے ہوائی ڈاک سے بھیج دیا تھا، جو یہاں مفتی (مہدی حسن شاہ جہان پوری) صاحب اور علامہ مولانا محمد ابراہیم (بلیاوی) صاحب کو بھی دکھلادیا تھا، دونوں نے پسند کیا، اور اس کو تسلیم کیا کہ جب سب کے تذکرے بے کم وکاست مقدمہ میں لکھنے تھے تو ضروری چیزوں کا آنا اور ایک دفعہ پوری صفائی سے لکھ دینا مناسب تھا۔ دوسرے یہ کہ بحیثیت محدث کے میں نے خود بھی امام بخاریؒ کو تنقید سے بالاتر تسلیم کیا ہے، لیکن نقدِ رجال میں تسامحات یا بقول حضرت شاہ صاحبؒ کے بے انصافی ہوئی ہے، اس کو لکھنا ضروری تھا۔ اب تاریخ بخاری کبیر اور کتاب الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم اورکتاب خطأ البخاري في التاریخ (بيان خطأ البخاري في تاريخہٖ لابن أبي حاتم)بھی چھپ کر آگئی ہیں، اس کو بھی سامنے رکھ کر کچھ کام کرنا ہے۔ اس تمام سفر میں آپ کی رہنمائی ومشورہ قدم قدم پر ضروری تھا، مگر افسوس کہ آپ دور ہیں اور بہت مشغول‎! ‎
نواب صدیق حسن خان اور مولانا نذیر حسین صاحب ومبارک پوری صاحب (مولانا عبد الرحمٰن مبارک پوری صاحبِ تحفۃ الأحوذي) پر جو کچھ نقد ہوا ہے، وہ بھی دوسروں پر شاق ہے۔ مولانا ابوالحسن علی صاحب (ندوی) نے بھی خط لکھا ہے، اور ان حضرات مؤخر الذکر پر تنقید کی شکایت کی ہے۔ بہرحال یہ سب تو ہوتا رہے گا۔ میں نے مدرسہ سے ۶ ماہ کی رخصت لے کر ’’بجنور‘‘ رہ کر صرف ’’انوار الباری‘‘ کا کام کرنے کا ارادہ کرلیا ہے، بلکہ رخصت میں اور اضافہ کا ارادہ ہے۔ جون میں کشمیر بھی جانے کا ارادہ ہے، آپ فرمائیں گے تو پاک سرزمین کا بھی ارادہ کروں گا۔ بچوں کو دعائیں۔ جواب جلد دیجیے۔‎ ‎                             احقر‎ ‎: احمد رضا    (‎ ‎ ۵؍ مئی سنہ ۱۹۶۲ء)
نوٹ: یہ مکتوب، کارڈ پر لکھا گیا ہے، پتہ یوں درج ہے‎: ’’بملاحظۂ گرامی حضرت مولانا سید محمد یوسف صاحب بنوری دام مجدُہم، مدرسہ عربیہ جامع مسجد نیوٹاؤن، کراچی۔‘‘
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین