بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
۲۲/ ۶/ ۱۹۶۵ء
۲۳ ؍صفر سنہ ۱۳۸۵ھ
باسمہٖ تعالٰی
مکرم ومخلصم والا مناقب، جناب مستطاب مولانا محمد یوسف صاحب بنوری دامت فیوضُکم!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
بہت عرصہ کے بعد کرم نامہ سے نوازا، بڑی مسرت ہوئی، جزاکم اللہ تعالٰی وزادکم بسطۃ في العلم والجسم!
میں برابر مولانا طاسین صاحب کے ذریعہ آپ کی خدمت میں تحیاتِ مسنونہ وگزارشات پیش کرتا رہا، اس لیے آپ کا یہ کہنا کہ تم نے بھی یاد نہیں کیا، محتاجِ نظرِ ثانی ہے، اور میرا شکوہ بجا کہ آپ نے ایک سال سے زیادہ فراموش رکھا، البتہ یہ بات آپ کی مجھے پوری طرح تسلیم ہے کہ آپ کی قلبی یاد سے میں فراموش نہ ہوا ہوں گا، وکفٰی بہ سرورًا وبہجۃً، ولکم جزيلُ الشکر والمنّۃ!
’’انوار الباری‘‘ پر تبصرہ لکھنے کے ارادہ سے بھی خوشی ہوئی، اور بے تکلف عرض ہے کہ یہ میرا آپ پر حق ہے، حقِ صداقت ومودّتِ قدیم، اور میں بھی غافل نہیں ہوں، جگہ جگہ ’’انوار الباری‘‘ میں آپ کے معارف وحقائق کا ذکر کررہا ہوں، اور یہ مہم ترقی پذیر ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ!
بھائی! آپ اپنے گوناگوں مشاغل اور سقوطِ صحت کی باتیں لکھ کر مجھے اور زیادہ افسردہ وملول کرتے ہیں، میں تو آپ کی ’’معارف السنن‘‘، بینات اور جامعہ کے حالات، نیز آپ کے کثیر مشاغل وخدمات سے نہایت پراُمید ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مزید ہمت وقوت عطا کرے، اور میں آکر ان سب کو بچشمِ خود بھی دیکھوں۔ارادہ تھا کہ بین الاقوامی پاسپورٹ بنواؤں، لیکن اس کی وجہ سے وقت ضائع ہوا، اب اس میں مشکلات دیکھ کر پاک کا معمولی پاسپورٹ بنوانے کا ارادہ کیا ہے، تاکہ آپ حضرات سے مل سکوں، دعا کریں کہ احسن احوال میں جلد ملاقات ہو۔
ما شاء اللہ! آپ کی روحانی فتوحات بھی نہایت خوب وقابلِ رشک ہیں، آپ نے ۔۔۔ مقابلہ کرکے ایسی توجہ ڈالی تھی کہ اپنے میدان ہی سے دور کردیا کہ نہ یہ قریب ہوگا، نہ مقابلہ کرے گا، سب باتیں اور رفاقت کے واقعات اکثر یاد آتے ہیں، کیا خوب دن تھے کہ حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ کی وجہ سے ہم ایک محاذ پر جمع ہوگئے، اور خدا قلوب کو ہمیشہ جمع رکھے، اگرچہ آپ نے تو ما شاء اللہ بہت سی گراں قدر خدمات سنبھالی ہیں، اور یہ نابکار ایک چھوٹی سی خدمت پر لگا ہے۔
تنقیدی سلسلہ میں اور دوسرے مشورے پڑھے، نہایت ممنون ہوں کہ بے تکلف اپنی رائے لکھی، اور مستفید کیا، ۔۔۔ تحقیقِ مباحث کے ضمن میں دوسروں پر مستقل نقد کا باب کھلا ہوا ہے اور کھلا رکھنا ہے، اگر اپنوں کی اغلاط کو بالکل نظر انداز کردیا جائے تو وہ بات بالکل غیر موزوں اور بے اثر ہوگی، اس لیے کچھ نمونے اس کے بھی لکھ دیئے ہیں۔ آٹھویں قسط (چھٹی جلد) بھی مکمل ہو کر طباعت کے لیے جا رہی ہے، ان سب کا مطالعہ فرماکر پھر آپ مجموعی طور سے ایک رائے قائم کرکے مجھے لکھیے گا، تاکہ پھر میں اگلی جلدوں میں زیادہ رعایت کرسکوں۔ مجھے آپ کے مشوروں کی بڑی قدر ہے، اور ان کے لیے نہایت ممنون ہوں، مگر یہ چاہتا ہوں کہ آپ ان سب جلدوں کا مطالعہ کرکے پھر رائے قائم کریں۔ کیا حافظ ابن تیمیہؒ کی ’’منہاج السنۃ‘‘ مل جاتی ہے؟ کیا قیمت ہے؟ آپ اگر بھجواسکیں تو بڑا کرم ہو، قیمت میرے حساب سے وصول کرلیں۔ ’’فتاویٰ ابن تیمیہ‘‘ کا نسخہ بھی میرے پاس مستعار ہے، اگر اپنا ہو تو اچھا ہے۔ دعا اور کارِ لائق سے یاد کریں۔ اعزہ ومتعلقین واحباب کو سلامِ مسنون! احقر : احمد رضا عفا اللہ عنہ (از بجنور)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۴؍مارچ سنہ ۱۹۷۵ء
باسمہٖ تعالٰی جلّ ذکرُہٗ
مکرم ومحترم حضرت مولانا دام فضلُکم ومعالیکم!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اُمید (ہے) کہ مزاجِ گرامی بعافیت ہوگا، الحمدللہ بعافیت صبح ۶- ۱/۲ (ساڑھے چھ) بجے دہلی اور تیسرے روز بجنور پہنچا۔ کچھ احباب اور بچے دہلی ائیرپورٹ پر منتظر تھے، اس لیے حسبِپرو گرام واپسی ٹھیک ہی رہی، اگرچہ آپ کا یہ خیال بھی صحیح ہوا کہ سامان تیسرے روز پہنچے گا، چنانچہ دو روز دہلی میں قیام کرنا پڑا، تب سامان آیا اور وصول ہوا۔
آپ کی دل داری، حوصلہ افزائی اور نہایت ہی محبت واخلاص کا ممنون ہوں، اللہ تعالیٰ آپ کو تادیر سلامت باکرامت رکھے، ملاقات سے دل سیر نہیں ہوا، اور بہت سی باتیں بھی رہ گئیں، خدا کرے پھر جلد موقع ہو۔
اُمید ہے آپ نے الحاج موسیٰ بن ڈھانیہ وغیرہ کو خطوط میں ’’انوار الباری‘‘ کے لیے توجہ دلا دی ہوگی، اور سیما صاحب نے بھی بہت سعی ورفاقت کی ہے، ان کو اور مولانا گارڈی کو بھی مناسب طور سے کچھ لکھ دیجیے گا۔
محترم مولانا عزیز احمد صاحب، مولانا محمد ادریس صاحب، اور خاص طور سے حضرت والد صاحب قبلہ دام ظلّہُم العالی کی خدمت میں سلامِ مسنون! اور درخواستِ دعا پہنچا دیں۔ عزیز عالی قدر مولوی سید محمد بنوری سلمہم اللہ تعالیٰ کو سلامِ مسنون اور بہت بہت دعائیں! ان سے مل کر بہت طبیعت خوش ہوئی، ما شاء اللہ ’’الولد سرٌّ لأبيہ‘‘ کی جھلکیاں دیکھیں۔
’’مدرسہ عربیہ‘‘ (حال جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی) دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا، واقعی! یہ آپ کا عظیم کارنامہ اور مثالی یادگار ہے، جو ظاہری وباطنی خوبیوں کا گہوارہ ہے، اللہ تعالیٰ مزید ترقیات سے نوازے، اور آپ کی اس خدمتِ عظیمہ کو حسنِ قبول بخشے۔
’’انوار الباری‘‘ کی باقی تالیف کا سلسلہ یکم اپریل سے شروع کروں گا، ان شاء اللہ تعالیٰ! دو رفیق بھی میسر ہوگئے ہیں، آپ کے علمی افادات، مفید مشوروں اور اور کامیابی کی دعا کا محتاج ہوں، ’’اُمید آں کہ گوشۂ چشمے بما کنند‘‘ (اُمید ہے کہ کنارۂ آبرو سے مجھ پر نگاہ رکھیں گے) گھر سے سب بڑے چھوٹے آپ کو سلام لکھواتے ہیں۔
والسلام ختام: احقر احمد رضا عفا اللہ عنہ
پس نوشت: عزیز ظاہر حسن سلّمہ آئیں اور یاد رہے تو سلام کہہ دیں۔