قبلۂ جان ودل دامت برکاتُکم!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
چار روز مسلسل بخار کی وجہ سے طبیعت پریشان ہوئی، ٹیکسی منگوا کر سیدھا کھوکھرا پار رشتہ دار کے یہاں چلا آیا، الحمدللہ بخار میں اب تخفیف ہے، گھبراہٹ پریشانی یہاں آکر ختم ہوگئی، بخار چونکہ اب بھی ہے، ایسی حالت میں شہر کے تصور سے وحشت محسوس ہوتی ہے۔ آپ کو اطلاع ایک تو اس بنا پر پیش کر رہا ہوں کہ ایک تو آپ کو صورتِ حال کا علم ہوجائے، اور عدمِ موجودگی سے تشویش نہ ہوجائے۔ اور دوسرا مقصد یہ ہے کہ تا صحت یابی رخصت عنایت ہو۔ تیسرا عظیم مامول (امید) درخواستِ دعا ہے۔ اُمید ہے کہ ناچیز کی درخواست کو قبولیت کی نظروں سے نوازا جائے گا۔ والسلام مسک الختام :
فضل محمد عفي عنہ
۱۰؍ جمادی الاولیٰ سنہ ۱۳۸۴ھ
ایف نارتھ ۱ /۴۶ ، راشن شاپ نمبر ۱۴۰۴، ملیر کھوکھرا پار کالونی، کراچی نمبر ۲۷
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درش خیلہ
فضل محمد عفي عنہ
مولانا المکرّم ومخدومنا المعظّم دامت برکاتُکم!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
سیدی! آپ کو میری غفلت پر حیرت ضرور ہوگی، مگر کیا کیا جائے؟! روحانی کمزوریوں کے علاوہ جسمانی کمزوریاں میرے لیے رفیقِ زندگی بنی ہوئی ہیں، راستے میں جو کیفیت تھی وہ تو آپ کے سامنے تھی، آگے جاکر طبیعت اور بھی خراب ہوگئی۔ بس میں تو بے بس ہی ہوگیا تھا، گھر پہنچ کر لاش کی طرح ایک دن رات پڑا رہا، افاقہ ہوا تو ایک نہر کو دعوت کی غرض سے عبور کرنا پڑا، اس کی وجہ سے گھٹنوں کے درد میں مبتلا ہوا، جس سے بمشکل نجات ملی، کیونکہ سردی عروج پر تھی، کوئی گرم سے گرم دوا بھی کارگر ثابت نہ ہوئی۔ اس وقت دھوپ میں بیٹھا ہوا ہوں، گرم کمبل، جراب، غرض دودُ القزّ (ریشم کے کیڑے) کی طرح اُون میں لپٹا ہوا ہوں، مگر گھٹنے ایسے لگتے ہیں جیسے کہ پانی میں ان کا مربّہ ڈالا گیا ہے، مگر معدہ کی کمزوری بالکل لاپتہ ہے، وارنٹ نکالا جائے تب بھی ہاتھ نہ آئے گی۔ ظہر سے پہلے پہلے پیٹ میں بھوک کی موجیں اُٹھنے لگتی ہیں، نہ دماغی گرانی ہوتی ہے نہ ذائقہ میں تبدیلی، افطاری کے وقت اَناپ شناپ کھانا تھوڑی دیر کے بعد غائب، بعد التراویح چائے پینی پڑ جاتی ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کچھ کھایا ہی نہ تھا، ایک گلاس پانی ایسا ٹھنڈا میٹھا ہوتا ہے کہ تمام ظاہری نعمتیں اس پر قربان، لیکن وہی آپ کا فرمان :’’وہ کیا زندگی جس میں مقصدِ زندگی نہ ہو!‘‘
ربا، رشوت، زنا، شراب خوری عام ہیں، عیاشی کا زور ہے، قحطُ الرجال ہے؟ عمارتی ترقی اور دینی انحطاط ہے، اللہ کے لیے کہنے والے بالکل خاموش ہیں، خود غرض مولویوں کا عام طور سے مذاق اُڑنے لگتا ہے، اس کے نتیجے میں اہل اللہ کو بھی بری نگاہوں سے دیکھا جا رہا ہے، غرض ایک طرف جسمانی صحت ہے تو دوسری جانب روحانی موت کا سیلاب! اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی مرضیات عطا فرمائے، اور مُہلکات سے بچائے، اور مُنجِیات سے نوازے۔ بشرطِ حیات وعدمِ موانع دس بارہ شوال کو پہنچنے کی کوشش کروں گا، ان شاء اللہ تعالی!
فقط والسلام مسک الختام
۱۵؍رمضان المبارک، یوم الاحد
پس نوشت: برادرِ محترم محمد صاحب کو پیار۔
مولانا ولی حسن صاحب (ٹونکی)، مولانا عبد الرشید صاحب(نعمانی)، مولانا حامد (عالم) صاحب (میرٹھی)، مولانا محمد ادریس صاحب (میرٹھی)، مولانا بدیع الزمان صاحب، مولوی عبد القیوم صاحب (چترالی)، ودیگر حاضرینِ مجلس کو ہدیۂ سلام قبول ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باسمہ الکریم
منازلُ الحبّ في قلبي معظّمۃ
وإن خلا من نعیم الوصلِ منزلُہا
ملاذي المفخّم، وسیدي المعظّم دامت برکاتُکم!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
والا نامہ عنبر شمامہ مل کر واللہ العظیم قلب کو وہ سرور واطمینان حاصل ہوا کہ بیان سے باہر ہے، جتنی تکلیف سیریِ کلی میں محرومیِ ملاقات سے پہنچی تھی، اس کا نعم البدل صرف اس شفقت بھرے جملے میں (آپ بہت یاد آتے ہیں، کاش فرصت ملے تو جون میں اُڑ کر پہنچ جاؤں) مل گیا: فداک روحي وجسمي وکلُّ مالي!
یا إلٰہَ العالمین!اس جملے کو عملی جامہ پہنا دے، تیرے خزانوں میں کوئی کمی نہیں۔ قلب کے تأثرات کی ترجمانی تو واللہ آپ نے خود ہی کردی، اب میں کیا لکھوں کہ قلبی سکون وہیں تھا؟! البتہ آب وہوا کی قوت کی بنا پر جسمانی اثرات قوی ہیں، خویش واقارب بوقتِ حوادث پہنچ جاتے ہیں، تکلیف ہلکی معلوم ہونے لگتی ہے، دو ہفتے ہوئے میرے یہاں ایک لڑکا پیدا ہوا، جس کا نام نصیر احمد رکھا گیا، وضع کے وقت دس گھنٹے وہ کیفیت اس کی والدہ پر طاری رہی کہ کوئی اُمید بچنے کی نہ تھی، پھر لڑکے کو وہ تکلیف رہی کہ تین روز تک ہم اس انتظار میں شب وروز رہے کہ اب جان نکلی اور اب نکلی۔ پھر اللہ پاک کا رحم مُنعطف (متوجہ) ہوا اور دونوں بچ گئے، میری حالت تو ایسی ہوگئی تھی کہ جیسے کوئی آگ کی بھٹی میں سے نکل آئے، نہ دوسری شادی کرسکوں، نہ کوئی لڑکی دے، نہ طاقتِ جسمانی نہ مالی، بچے سب چھوٹے، ان کو کون سنبھالے؟! مگر رشتہ دار عورتوں کی اعانت سے یہ تکلیف اجتماعی طریقے سے برداشت ہوگئی۔ کراچی میں ایسے حوادث بہت صبر آزما تھے، گھر کے اندر کوئی جھانکنے والا بھی نہ ہوتا۔ یہ بھی آپ کے اس جملہ مبارکہ (دنیا کی نعمتیں مُنقسم ہیں) کی تفصیل ہے، اور جس فکر کا تذکرہ آپ نے مفصل طریقے سے فرمایا ہے، واللہ! وہ بھی ایسا ہے جیسے آپ اوپر سے ہمیں دیکھ دیکھ کر تحریر فرما رہے ہیں۔
ہمارے پاس جواہرات ’’معارف السنن‘‘ کے ضرور ہیں، دورہ حدیث میں طلبہ کی اکثریت ایسی ہے جو اہل ہیں، اور قدر داں بھی ہیں، بہت حظّ اُٹھاتے ہیں، بعض بہت ہی نایاب قسم کے طلبہ ہیں، دورہ پڑھ چکے ہیں، رجال میں بھی واقفیت رکھتے ہیں، مگر تحریر میں پہاڑی ہیں، جسمِ تعلیمی سے تعبیر بالنقطہ کرتے ہیں، اور ان میں قساوت اور جفا ہے، میرے لیے یہ چیز بہت ہی تکلیف دہ اور صبر آزما ہے۔ ایسے بے لگاموں کے منہ میں لگام‘ قیام وطعام کا انتظام ہے، وہ میرے بس سے باہر ہے۔ حاجی صاحب صرف تنخواہ کا بوجھ ذاتی طور پر باقاعدگی سے کر رہے ہیں، یہ بھی غنیمت ہے، جبکہ طالب علم کا نہ قیام ہو مدرسہ میں نہ طعام، مدرسہ کے درس کے اوقات سے باہر اُن کی زندگی آزادانہ اور خود اپنے حالات کی متکفّل ہو، صابن تک کے پیسے ان کو نہ ملتے ہوں، تو ہم اُن کی بے لگامی اور جہالت کس طرح سے دور کر سکتے ہیں، جبکہ ان کی اکثر زندگی ہم سے غائب ہے؟! مساجد میں ان پر طرح طرح کی تکلیفیں گزرتی ہیں، اور ہم اُن کی کوئی اعانت نہیں کر سکتے، تو پھر بے لگام نہ ہوں تو کیسے نہ ہوں؟! پھر ہر طرف حوالی (ارد گرد) میں مدارس ہیں، نہ تو ان میں کوئی امتحان ہے، نہ کوئی تاریخِ داخلہ، نہ کوئی ان پر پابندی، تو یہاں ہماری پابندی اور قوانین وضوابطِ تعلیم کو وہ کیسے قبول کرسکتے ہیں، جبکہ کوئی اور اعانت نہ یہاں نہ وہاں؟! صرف وہ طلبہ جو سمجھ دار ہیں، اور ہمارے پاس جو اکابر کے ملفوظات ومخطوطات ہیں، ان سے وہ متاثر ہیں، وہ لوگ امتحان اور حاضری اور بعض تہدیدی امور کو برداشت کرتے ہیں، بہرحال تعلیمی ظلمات میں عادی طلبہ اس قید وبند کو ظلم سمجھ رہے ہیں، اور عدمِ اعانت چونکہ ایک عام چیز ہے، اس کو خوشی سے برداشت کرلیتے ہیں۔
اس زیر وبم، نشیب وفراز میں یہ زندگی گزر رہی ہے، اکابر کی جدائی سے اور ان حالات سے قلب کی جو کیفیت ہے وہ ناگفتہ بہ ہے، یہ بھی آپ کے اس جملہ (فکر صرف اتنی ہے) کی تفصیل ہے۔ یہ تصویر تو اپنے مدرسہ شروع ہونے سے قبل ہی کھینچی تھی، اب یہ تمام چیزیں خود بخود اس اجمال کی تفصیل اور تفسیر بنتی جا رہی ہیں۔
سیدی وملاذی! کیا عرض کروں؟! یہ جدائی ہم نے یونہی نہیں برداشت کی، مگر اس بڑھاپے میں دس افراد کا کنبہ تقریباً ڈیڑھ ہزار میل سے ایک کونہ سے لے کر دوسری طرف منتقل کرنا میرے جیسے نادار کمزور بےآبرو کے لیے خصوصاً جبکہ پردہ کا لحاظ شرعاً بھی ہو، اور بر بناء غیرت بھی ہو، اور ایک سفر پر ۱۳ ؍سو روپیہ کے مصارف بھی آتے ہوں، یہ منظر ایسا ہے جو ناقابلِ برداشت ہوتا ہے۔ ایک طرف بچوں کی ماں بیمار ہو، دوسری طرف گاڑی میں بھیڑ بکریوں کی طرح سے ازدحام ہو، سیٹ نہ مل سکے، ہوائی جہاز کے مصارف قابلِ برداشت نہ ہوں، قرض لے کر جانا ایسا معلوم ہوتا ہو جیسے بھیک، تو واللہ! یہ ایک ایسا امتحانی منظر تھا کہ اس میں صرف اللہ تعالیٰ ہی کی خاص عنایت ہی سے انسان کامیاب ہوسکتا ہے۔ اس آخری سفر میں جو تکلیفیں راستے میں مجھ پر گزری ہیں، جبکہ میں اواخرِ شعبان میں بچوں کو لے کر آرہا تھا، تو آپ بھی تلملا اُٹھے، اگرچہ ہر موقع پر آپ حضرات کا سایہ ساتھ رہا، اور ہر مشکل کے بعد اس کا حل بھی ہوتا رہا، لیکن میرا تو کچومر بنتا رہا۔
یا اللہ! بات بہت لمبی ہوگئی، واللہ! میں سمجھ رہا ہوں کہ آپ بالکل میرے سامنے ہیں، اور میں فریادِ فراق اور اسبابِ فرقت بیان کر رہا ہوں، خیال آیا تو تین صفحے بھر چکے تھے، مجھے معذور سمجھ کر معاف فرمائیں۔ اب انتظارِ ملاقات ہے، اگرچہ
وصل میں ہجر کام، غمِ ہجر میں ملنے کی اُمید
کون کہتا ہے کہ فرقت سے وصال اچھا ہے
اس حالت کو ترجیح دے رہا ہے کہ طمع، نقد سے بہتر ہے۔
ایک بات رہ گئی، میں نے مختصر الفاظ قصیدہ میں لکھے تھے، تو واللہ! وہ میں نے سخت بخار میں لکھے تھے، قصیدہ لکھنے سے چکر کی سی کیفیت پیدا ہوگئی تھی، اس لیے میں نے یہ طرز اختیار کیا تھا، یہ جبری وقسری تھا، اختیاری نہ تھا، اس لیے مجھے معاف فرمائیں۔ اب کہاں تک لکھتا رہوں گا؟! آپ کا قیمتی وقت اور خراب نہیں کرسکتا، مگر لکھنے میں ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ آپ سے مخاطب ہوں، آپ کان لگا کر سن رہے ہیں، تو بے ساختہ قلم چل رہا ہے، اور پرانا زمانہ یاد آرہا ہے، جبکہ ہم کسی کی آغوش اور ظل (سایہ) میں چین کی زندگی بسر کر رہے تھے، دنیا کی خبر نہ تھی:
تستّرتُ من دہري بظلّ جناحہٖ
فصرتُ أری دہري وليس يراني
’’میں ان کے پہلو کے سائے میں آکر زمانے سے چھپ گیا، اب میں تو زمانے کو دیکھ رہا ہوں، لیکن زمانہ مجھے نہیں دیکھ پا رہا۔‘‘
فلو تسأل الأيام ما اسمي؟ ما درتْ
وأين مکاني؟ ما عرفنَ مکاني
’’اگر زمانہ میرا نام پوچھے گا تو اسے معلوم نہ ہوسکے گا، اور میری جائے سکونت کے بارے میں جاننا چاہے گا تو اسے بھی نہ جان پائے گا۔‘‘
اللہ تعالیٰ برادرِ محترم محمد (بنوری) صاحب کو تقویٰ، اخلاقِ حسنہ، علمِ نافع، عملِ صالح، اور اپنے ذکر ومعرفت اور اتباعِ سنت سے نوازے، اور آپ کا سایۂ عطوفت ہمارے سروں پر قائم رکھے۔ فقط والسلام
آقائی ومولائی آغا جی مدّظلّہم (مولانا محمد زکریا بنوری والد ماجد حضرت بنوری رحمہما اللہ) کی خدمتِ عالیہ میں سلام عرض ہے۔
مدرسہ مظہر العلوم، مینگورہ، سوات
فضل محمد عفي عنہ