بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

بینات

 
 

مکاتیب حضرت مولانا فضل محمد سواتی   رحمۃ اللہ علیہ  بنام حضرت بنوری  رحمۃ اللہ علیہ 

سلسلۂ مکاتیب حضرت بنوریؒ


مکاتیب حضرت مولانا فضل محمد سواتی   رحمۃ اللہ علیہ  بنام حضرت بنوری  رحمۃ اللہ علیہ 


حضرت مولانا فضل محمد سواتی   رحمۃ اللہ علیہ   بنام حضرت بنوری  رحمۃ اللہ علیہ 
 

باسمہ الکريم
مَلاذي إن بعدتُّ فإن قلبي
علٰی مرّ الزمانِ إليک داني
‎وإن بعدتْ ديارُک عن دياري
فشخصُک ليس يَبْرَحُ عن عياني(1)
مخدومنا المعظّم دامت برکاتکم علینا‎!

بعد سلامِ مسنون عرض ہے کہ نامۂ مبارک ملے مدت گزرگئی، جواب میں الیوم وغدًا   کرتا رہا، غالباً یہ چھٹا خط ہے جو لکھ رہا ہوں۔ خط لکھ کر پڑھنے لگتا تو پسند نہ آتا، پھاڑ کر پھینک دیتا۔ کل ایک طویل وعریض خط لکھ کر اسی لفافہ میں بند کردیا، ایک دن رات پڑا رہا، آخر میں اس کا مضمون قابلِ اعتراض معلوم ہوا، اس کو نکال کر منسوخ کردیا۔ اب بعد الفجر یہ چند سطریں پیشِ خدمت کر رہا ہوں، خدا کرے کوئی ٹھکانے کی بات لکھنے میں آجائے۔ دماغ وسواسی جیسا کام کرنے لگا ہے، ہر طرف فتنے اور شدائد ومصائب گھیرے ہوئے ہیں، مکائدِ نفس اتنے ہیں کہ ان کی تو کوئی انتہا نہیں۔ تمام ملک میں کوئی ایسا شخص نہیں کہ ان کی زیارت سے تشفی ہوسکے۔ حضرت مولانا عزیر گل مدظلہم اس کام کے نہیں ہیں، اس لیے پریشانی بڑھتی جارہی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کی ملاقات گرمیوں میں نصیب فرمائی، یا سفرِ حجازِ رمضان میں رفاقت کی نعمت سے نوازا تو مکافات ہوجائے گی، لیکن ہيہات ہيہات ! (ان حالات میں‎!)
مولانا عبدالقدوس صاحب کا کیا ہوا؟ کام کے آدمی ہیں، کہیں معطّل زندگی میں مبتلا نہ ہوجائیں۔ زلزلہ سے متاثرین کی اِعانتی رقم کا کیا ہوا؟ تین علماء ہیں ’’پٹن‘‘ کے، وہ خصوصی امداد کے قابل ہیں۔
قبلہ آغا جی (مولانا محمد زکریا بنوری) بھی ٹمٹماتے چراغ ہیں، ایسے معلوم ہوتے ہیں جیسے جیتے جی دنیا وما فیہا سے کٹ چکے ہیں، آپ کا وجود اُن کے لیے موجبِ اطمینان وسکون وراحت، اُن کا وجود آپ کے لیے باعثِ برکت وموجبِ درجاتِ عالیہ! خدا جانے یہ نقشہ کب تک چلتا رہے گا؟! ہر وقت یہ تصویر سامنے رہتی ہے، اللہ تعالیٰ یہ سایہ ہمارے سروں پر قائم رکھے کہ صرف دنیا میں یہ حضرات میرے جیسے کتے کی بھی قدر کرتے ہیں (کہ میں ان کے دَر کا ایک کتا ہوں، بلکہ اس سے بھی بدتر)۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے، داڑھی تو سفید ہوگئی، مگر دل اب تک کالا ہی ہے، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ رُو سیاہی سے بچائے، وَلَنِعْمَ مَنْ قَالَ‎:

یا رب! درِ خلق تکیہ گاہم نہ کُنی
محتاجِ گدا و بادشاہم نہ کُنی
ایں موئے سیاہ سفید کردم ز کرم
با موئے سفید رو سیاہم نہ کُنی(2)

آپ نے اندازہ فرمالیا ہوگا کہ بے ربط بے جوڑ باتیں ہیں، وقت آپ کا ضائع ہو رہا ہے، یا اللہ! تو رحم فرما۔

فقط فضل محمد عفي عنہ
یوم الخمیس، ۱۲ ؍ربیع الثانی

پس نوشت: برادرِ محترم محمد (بنوری) صاحب اور نور محمد حاجی صاحب سلام قبول فرمائیں۔‎ ‎

ہو الزمانُ مَنَنتَ بالذي جمَعا
في کل يومٍ تری من صرفہٖ عجبًا
(3)
زندگی در جمعِ سامان رفت حیف
صبح در خوابِ پریشان رفت حیف
دانۂ اشکی نیفشاندیم ما
عمر چون سیلِ بہاران رفت حیف
نورِ جان در ظلمت آبادِ بدن
چون چراغ زیرِ دامان رفت حیف(4)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

باسمہ الکریم‎ ‎
فضل محمد عفي عنہ
۱۹‎ ‎؍شعبان، یوم الخمیس
بحضور جناب قبلہ مولانا صاحب  دامت برکاتکم‎! ‎
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‎! ‎

دو مرتبہ مرضِ اسہال میں ابتلاء پیش آیا، ہر مرتبہ قوت ختم ہوجاتی، دوسری مرتبہ کے بعد تھوڑی سی قوت آنے پر اس حکیم صاحب کے پاس گیا، جس کا پتہ آنحضرت سے معلوم کیا تھا، حکیم صاحب سے واپسی پر بعض احباب کے مشورہ سے تبدیلِ آب وہوا کی غرض سے پہاڑ پر چلا گیا، تقریباً ایک ہفتہ وہاں گزارا، جاتے ہوئے جڑی بوٹی کا اثر پڑ گیا، وہاں متلی اور چکر میں ایسا مبتلا ہوا کہ ٹھہر نہ سکا، کل بمشکل گھر آگیا ہوں۔ اب تک بدن ایسا مخمور ہے کہ چل پھر نہیں سکتا۔ میری غیر موجودگی میں بھام جی صاحب کا تار بھی آیا تھا۔ اس وقت پونے نو بجے ہیں، ۱۹ ؍شعبان ہے، یوم الخمیس ہے۔ یہ چند سطور بھی مشکل سے لکھ رہا ہوں، جیسے نیند کی غنودگی کی کیفیت غالب ہو ایسی حالت ہے۔ بہرحال عرض یہ کرنا ہے کہ واللہ! اس حالت میں کراچی آنے کے قابل نہیں ہوں، ہفتہ عشرہ بعد پھر رمضان آرہا ہے، پھر آپ طویل سفر پر تشریف لے جانے والے ہیں، اس لیے میرے آنے کی آرزو خاک میں مل گئی، اللہ پاک کو یہی منظور ہوگا، جبکہ ہفتہ عشرہ کے لیے حاضری سے عجز کا یہ حال ہے تو مستقل طور پر آنا تو بالکل تصور سے بالاتر ہے، باقی تفصیل طبیعت بحال ہونے پر عرض کروں گا۔ فقط
برادرم محمد (بنوری) صاحب، اور بھام جی صاحب اور دیگر مدرّسین حضرات، حاجی شفیع اللہ صاحب، حاجی جمال الدین صاحب کو سلام کا ہدیہ قبول ہو۔
پس نوشت: یہاں کے تار سے خط جلدی پہنچتا ہے، اس لیے خط پر اکتفاء کرلیا گیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

باسمہ الکریم
علٰی أنّني طُوِّقتُ منک بنعمۃٍ
شہيدٍ بہا بعضي لغيري علٰی بعض(5)
‎مخدومنا المعظّم
، جناب حضرت مولانا صاحب  دامت برکاتُہم علينا إلٰی يوم الثناء‎!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‎!

والا نامہ ملا تھا، مگر خیال تھا کہ پنڈی تشریف آوری پر حاضرِ خدمت ہوکر مشافہۃً کچھ عرض کروں گا، چنانچہ ۱۷ ؍تاریخ بروزِ پیر صبح ویگن نہ مل سکا تو بعد الظہر سوار ہو کر عین مغرب کے وقت پشاور پہنچا، سیدھا ’’بالا ماڑی‘‘ گیا، وہاں حالات کچھ اور سامنے آئے، إنا للہ وإنا إلیہ راجعونپڑھا۔ اللہ تعالیٰ کی شان کہ آپ کی زندگی کا لُحمہ وسُدی (تانا بانا) ہی اَحزان ہیں۔ پتہ نہیں بہن فاطمہ سلّمہا اللہ تعالیٰ کا کیا ہوا؟! ایسے حالات میں مزید کچھ لکھنے کی ہمت نہیں ہوتی، اللہ پاک درجات بلند فرمائے۔ دوسری طرف آغا جی مدّظلہم العالی (مولانا محمد زکریا بنوری) کی علالت، بہر حال ’’من أراد اللہُ بہٖ خيرًا يُصِب منہ‘‘ (اللہ تعالیٰ جس سے بھلائی کا ارادہ فرمالیں تو اُسے کسی آزمائش میں مبتلا کردیتے ہیں) کی حدیث سامنے آجاتی ہے تو خاموش رہنا پڑتا ہے۔‎ ‎۔۔۔
باقی آغا جی مدظلہم اور بہن(فاطمہ بنوریہ) کے حالات، میں کسی سے معلوم کرکے اپنی تسلی کروں گا، فقط۔ ۔۔۔میں ہر طرف مصائب میں گھرا ہوا ہوں، مگر آپ کے صدمہ سے خدا کی قسم! قلب کو جو تکلیف پہنچی ہے، دوسری تکلیفیں قلب کی ان گہرائیوں تک نہیں پہنچ سکتیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت فرمائے، اور درجاتِ عالیہ نصیب فرمائے۔ فقط والسلام‎  ‎

فضل محمد غفر لہٗ
مینگورہ، سوات
۱۹؍ ‎مارچ مطابق ۶؍ ربیع الاول،یوم الأربعاء

حواشی

(1)  اگر میں دور ہوجاؤں تو آپ میری پناہ گاہ ہیں؛ کیونکہ زمانے کے گزرتے ساتھ میرا دل آپ کے قریب ہوتا جارہا ہے۔‎‎آپ کا وطن میرے شہر سے دور سہی، لیکن آپ کی شخصیت میری نگاہوں سے کبھی بھی دور نہیں رہتی۔‎
(2)  ‎اے رب! تُو مخلوق کے دَر کو میرا سہارا نہ بنانا، کسی گدا اور کسی بادشاہ کا مجھے محتاج نہ کرنا۔‎‎تیرے کرم سے میں نے یہ سیاہ بال سفید کرلیے ہیں، اب ان سفید بالوں کے ساتھ مجھے رُو سیاہ نہ کرنا۔‎
(3) یہ زمانہ ہی ہے جس نے آپ کو آپ کی جمع کردہ اشیاء سے نوازا ہے، زمانے کے اُلٹ پھیر کی بدولت ہی آپ ہر روز عجائبات کا مشاہدہ کرتے ہیں۔‎
(4)  افسوس کہ زندگی دنیوی سازو سامان جمع کرنے میں بیت گئی، اور صبح خوابِ پریشان کی نذر ہوگئی افسوس‎!۔ افسوس کہ ہم نے ایک آنسو بھی نہ بہایا، اور زندگی بہار کے سیلاب کی طرح گزر گئی۔‎‎روح کی روشنی، جسم کے ظلمت کدہ میں ایسے رہتی ہے جیسے چراغ زیرِ دامن چلا گیا ہو افسوس‎!
(5)  میں آپ کے ان احسانات میں گھرا ہوا ہوں، جن کی گواہی میرے ہی جسم کے حصے ایک دوسرے کو دیتے ہیں۔‎

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین