بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
حضرت مولانا محمد یوسف کامل پوری رحمۃ اللہ علیہ بنام حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ
۱۰؍ ربیع الآخر سنہ ۱۳۵۱ھ
بر مکانِ حاجی عبد الجلیل خان صاحب، رئیس دربھنگہ، محلہ قلعہ گھاٹ
باسمہٖ تعالٰی
سَمِيِّي المحترم، صَفِيِّي المکرّم، حِبّي المُعظّم، أخي المُحتشم، ذي المَجد والمعالي!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
خیریتِ طرفین از درگاہِ ربّ الکونین مطلوب ومرغوب!
والا نامہ جنابِ سامی بجوابِ عریضۂ احقر الانام موصول ہوکر باعثِ تمکین وتسکینِ قلبِ حزین ہوا۔ ارادہ مُصمّم عزم بالجَزم تھا کہ بجوابِ عنایت نامہ، عریضہ فورًا لکھوں، لیکن جناب جیسی عظیم المرتبۃ، رفیع المنزلۃ ہستی سے نامہ وپیام بھی کارے دارد! اپنے دماغ میں وہ الفاظ نہیں پاتا، اپنے حافظہ میں وہ کلمات نہیں ملتے، جن کے ذریعہ سے ما فی الضمیر، سمعِ ہمایوں تک پہنچا سکوں، علاوہ بریں جناب نے والا نامہ میں چند استفسارات مختصر الفاظ میں، لیکن نہایت اہم فرمائے تھے، جسے حیطۂ تحریر میں (لانے کی خاطر) مجھ جیسے بےمایہ کے لیے ایک طویل وقت اور عمدہ موقع درکار تھا۔ نیز زمانہ کے انقلابات، لیل ونہار کی رفتار، گردشِ فلک کی نیرنگیوں کا بہیئتِ مجموعی شکار ہو رہا ہوں، بوجوہِ بالا تحریرِ جواب میں تاخیر ہوئی:
والعذرُ عند کِرام الناس مقبول! (شرفاء کے ہاں عذر قبول کیا جاتا ہے۔)
جنابِ سامی کا یہ ارشاد کہ: ’’اپنے خیالات وحالات وعزائم سے مطلع فرمائیے‘‘ بجوابِ استفسار عرض ہے کہ حالات مختصراً عریضۂ سابقہ میں گوش گزار کرچکا ہوں، جس کا اعادہ گو بصورتِ تفصیل ہی کیوں نہ ہو، تحصیلِ حاصل سے زیادہ وقیع نہیں۔
خیالات وعزائم کا اظہار نہ معلوم کس طریق پر صفحۂ قرطاس پر لاؤں؟ اس مختصر سے عرصہ میں مختلف عزائم اور خیالات کو عقلِ نا رسا وفکرِ پراگندہ نے عمل کا نشانہ بنانا چاہا، لیکن جب کبھی عمل کے ہاتھوں نے آغازِ تکمیل کیا تو یا بسم اللہ کرتے ہی اہلِ زمانہ کا شکار ہوا، یا وسط میں جاکر تخریب کی بنیاد پڑی۔ بعد فراغتِ تعلیم دل میں ایک جوش خروش، اک مذاق وجنون تھا کہ اتنا درس دیا جائے، اور اتنی تعلیم میں کوشش کی جائے کہ کم سے کم شیخُ العالَم نہ سہی تو شیخُ الہند ضرور ہوجائیں، چنانچہ اسی کو دستورُ العمل قرار دے کر بسلسلۂ درس بنارس میں مقیم رہا، لیکن علمی کساد بازاری، اہلِ علم کی ناپیداواری نے قلبی ولولہ، دلی تڑپ پر کاری ضرب لگائی۔
بنابریں مختلف خیالات وافکار کی بحث وتمحیص کے بعد اشاعتِ اسلام، تبلیغِ دینِ حق کا ولولہ جاگزیں ہوا، چنانچہ بنارس کی ملازمت کو پائے استحقار سے ٹھکرا کر خلیل داس کی خدمت گزاری، سنسکرت دانی کے لیے (کی)، محض اس وجہ سے کہ اغیار واعداء اسلام کے مذہبی رخ وتصویر کا صحیح صحیح جائزہ لے سکوں، لیکن اس میں بھی ناکام رہا۔
بالآخر سرگزشت کو ترتیب دے کر اس نتیجہ پر پہنچا کہ بعد ازیں تاجرانہ زندگی بسر کروں، ہاتھ پیر مارے، اپنے قرابت دار واحباب کے جیب ٹٹولے، اپنے گریبان میں دیکھا، تو اتنا سرمایہ نہ پایا کہ ایک ادنیٰ تاجر کی زندگی بھی بسر کرسکوں۔ مجبوراً ۔۔۔درس وتدریس کے خیال میں ڈابھیل پہنچا، وہاں پہنچنے کے بعد مدرسہ کی سربفلک عمارات، طالبانِ علم کی فراوانی، کثیر العلم اساتذہ کی صحبت نے دوبارہ جوشِ درس کو اُبھارا، کمرِ ہمت باندھی، لیکن مدرّسینِ مدرسہ ۔۔۔ کی آنکھوں میں خار کی طرح چُبھتا تھا، بنا بریں وہاں سے برداشتۂ خاطر ہوا، پھر کتب بینی کا بھوت سوار ہوا، چنانچہ ہندوستان کے مشہور ترین دار الکتب سندھ پہنچا، لیکن یہ زاویہ نشینی اور قرطاسِ ابیض مُخَطّط سے گفتنی وشنیدنی میں زیادہ حلاوت محسوس نہ ہوئی تو اس کا ترک کرنا بھی ارجح وانسب سمجھا۔ یہ وہ واقعات ہیں، جس کی ابتدائے تولید (سے) تاریخِ انتہا تک جنابِ والا سامی کو حرف بحرف لفظ بلفظ معلوم ہے، جس کا تذکرہ کسی مُحب سے اطالتِ کلام کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
مُحبّا ! جس کے خیالات وعزائمِ قلبی یہ ما فی السطور ہوں، اور اس اس طریقہ سے ٹھکرا دیے گئے ہوں، اس کے خیالات وعزائم کی ترجمانی صرف ذیل کے شعر سے ہوسکتی ہے:
خبرم نیست کہ منزل گہِ مقصود کُجا ست
ایں قدر ہست کہ بانگِ جرسے می آید(1)
جس طریقہ سے جنابِ والا سامی کو میری ہمراہی اپنے ہمراہ منظور ہے، اسی طریق سے ازیدیّت کے ساتھ میرے قلب میں بھی ایک ولولہ، ایک اُمنگ ہے کہ اپنی حیاتِ مستعار اپنے شریکِ وطن، وشریکِ زبان، وشریکِ نسب، وشریکِ علم، وشریکِ نام کے ہمراہ بسر کروں۔ مجھے اپنی علمی حیثیت (مُعطِی برحق نے جتنی بھی عطا فرمائی ہے)، علمی حیثیت کے فرائض، وطنِ مالوف کے حقوق، ملکی برادرانِ اسلام کی جہالت وضلالت وکم علمی کا احساس ہے اور علی وجہ الأتم ہے، لیکن وہ عالمگیر مجبوری ومعذوری، وہ جہانگیر مصیبت وآفت باستثنائے چند معدودہ افراد واشخاص صاحبانِ علومِ عربیہ پر ہے، ایک فردِ اکمل یہ غلام بھی ہے کہ کیسۂ ملکیت میں علاوہ افلاس ومسکینیت اور فقر وغربت کے کچھ نہیں، ربِ کعبہ کے جاہ وجلال کی قسم! اگر اتنی بھی استعداد وحیثیت ہوتی کہ ایک دو وقت یعنی صَبُوح وغَبُوق بھی بقدرِ کفاف میسر ہوتا اور اس میں کسی فردِ بشر کا محتاج نہ ہوتا تو آپ کا دست وبازو ہوتا، یا للأسف!
اے زر! تو خدا نۂ ولیکن بخدا
ستّارِ عیوبے وقاضی الحاجاتے(۲)
میں مُستجاب الدعوات کی بارگاہ میں دست بدعا ہوں کہ اے رب العالمین! اے گنبدِ خضرا میں آرام کرنے والے کے خالق! تو میرے ہم نام کے لگائے ہوئے پودے کو سرسبز وشاداب اور تروتازہ تا بقیامِ نظامِ عالَم اوجِ عروج کو پہنچا، میرے شریکِ درس کے عزائم وخیالات اور ارادات کو اقصائے مدارج ومنتہائے مراحل تک بحسن وخوبی سر انجام فرما، آمین !
حافظ! وظیفۂ تُو دعا گفتن است و بس!
در بندِ آن مباش کہ نشنید یا شنید (۳)
میں جناب کی ذاتِ ستودہ صفات سے امیدِ واثق رکھتا ہوں کہ بارگاہِ مستجاب الدعوات میں في الخلوات والجلوات‘ دعواتِ خیر سے کمترین کو یاد وشاد فرمائیں گے، نیز یکجا کام کرنے کا موقع بارگاہِ ایزدی سے طلب فرمائیں گے، کمترین بھی اس خیال ودُھن میں رہے گا کہ کوئی ایسا موقع دستیاب ہو جس سے یُوسُفَیْن شریکِ عمل رہیں۔ لعلّ اللہ یُحدث بعد ذلک أمرا ! (شاید اللہ تعالیٰ آتے وقت میں کوئی صورت پیدا فرمادے!)
میرے محسن جن کے یہاں میں فی الحال مقیم ہوں، ان کی خواہش پر مبلغ چودہ روپیہ، میوہ جات کی ترسیل کے لیے ارسالِ خدمت کرچکا ہوں، جس کی رسید جناب کے دستخط سے مزیّن سات ربیع الثانی کو موصول ہوئی۔ تفصیلِ اشیاء مطلوبہ مفصّلًا منی آرڈر فارم پر تحریر کرچکا ہوں، غالباً جناب اشیاء مطلوبہ کو روانہ فرما چکے ہوں گے، لیکن بنظرِ احتیاط دوبارہ عرض ہے کہ مبلغ چار روپیہ کا پستہ، چار روپیہ بادام کاغذی، دو روپیہ انار اصلی، ایک روپیہ چلغوزہ، دو روپیہ اخروٹ، ایک روپیہ خرچۂ مزدور، بھیج چکا ہوں۔ اُمید (ہے) کہ جلد بذریعہ برک روانہ فرمائیں گے، محصول بھی یہاں ادا کیا جائے گا۔ اُمید (ہے) کہ بملاحظۂ عریضۂ ہذا اپنے خیالات سے آگاہ فرمائیں گے، دعا کا محتاج ہوں۔ والسلام خیر الختام
جناب عموی صاحب کی خدمت میں بعد طلب دعا کے سلامِ مسنون قبول ہو۔ یوسف
(1) میں نہیں جانتا کہ منزلِ مقصود کہاں ہے؟ بس اتنا علم ہے کہ گھنٹے کی آواز آرہی ہے۔
(2) اے مال! تو خدا تو نہیں، لیکن بخدا تو عیوب پر پردہ ڈالنے والا اور ضرورتوں کو پورا کرنے والا ہے۔
(3) حافظ! تیرا کام تو بس دعا کرنا ہے، اس فکر میں نہ پڑ کہ وہ سنیں گے یا نہیں۔