بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

بینات

 
 

مکاتیب محدثِ کبیر مولانا حبیب الرحمٰن اعظمی   رحمۃ اللہ علیہ  بنام حضرت بنوری  رحمۃ اللہ علیہ 

سلسلۂ مکاتیب حضرت بنوریؒ


مکاتیب محدثِ کبیر مولانا حبیب الرحمٰن اعظمی   رحمۃ اللہ علیہ 

بنام حضرت بنوری  رحمۃ اللہ علیہ 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
۲۰؍ ربیع الآخر سنہ ۱۳۸۱ھ
عمدۃ الأفاضل ونخبۃ الأماثل، صدیقي الوفي الکریم مولانا محمد یوسف البنوري، متّعنا اللہ بحیاتہٖ في عافیۃ‎!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‎!

الحمدللہ بخیر ہوں، اور آپ کی خیر وعافیت کے لیے دست بدعاء، اثنائے سفرِ حجاز میں خط لکھنے کا جو تقاضا آپ نے کیا تھا، بار بار یاد آیا، لیکن علالت اور کچھ دوسری اُلجھنوں میں امتثالِ امر سے اب تک قاصر رہا، یہ بھی دریافت نہ کرسکا کہ آپ نے میرے بعد ’’دمشق‘‘ کا سفر کیا یا نہیں؟ اور وہاں سے کیا ’’طُرَف‘‘ ساتھ لائے؟ اس سفر میں آپ کی طرف سے جس ’’مروّت وکرم‘‘ کا ظہور اس ناچیز کے حق میں ہوا، اس کے لیے میں بہ دل وجان ممنون ہوں، حق تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
الحاج مولانا محمد بن موسیٰ میاں بہت دنوں سے ’’مصنف عبد الرزاق‘‘ پر کام کرنے کے لیے مجھ کو لکھ رہے ہیں، پہلے تو میں کمزوریِ صحت کی بنا پر بالکل آمادہ نہیں تھا، لیکن اب مختلف احباب کی خواہش کی وجہ سے کچھ آمادہ ہو رہا ہوں، بشرطیکہ کوئی معاون ساتھ ہو، معاون کے لیے ۵۰- ۶۰ روپے ماہ وار تجویز ہو رہے ہیں، مگر اس تنخواہ پر کوئی کام کا معاون دست یاب ہونا متعذّر ہے، اس سلسلے میں موصوف کو آپ بھی کچھ رہنمائی کریں تو شاید کام شروع ہوجائے، ابھی تو موصوف شش وپنج میں ہیں۔
دیوبند سے ’’انوار الباری‘‘ کا مقدمہ پہنچا ہوگا، اس کی نسبت جناب کے کیا تأثرات ہیں؟ ’’الجامعۃ الإسلامیۃ‘‘ (مدینہ منورہ) کے قیام کا فرمان تو شاہ سعود نے جاری کردیا، اس فرمان پر عمل کب سے شروع ہو رہا ہے؟ اور طلبہ کے داخلہ کی کیا صورت تجویز ہو رہی ہے؟ کچھ معلوم ہو تو لکھیے۔
شرح یا تعلیقاتِ ترمذی (معارف السنن) کے باب میں کیا کام ہو رہا ہے؟ اس کی طباعت تو بےتوقُّف شروع ہوجانی چاہیے۔ والسلام
                                                                                                     حبیب الرحمٰن الاعظمی (۲۱‎ ‎؍جمادی الاخریٰ سنہ ۱۳۸۱ھ)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جلیل المآثر، وارث العلوم والمعارف کابرًا عن کابرٍ، زادہ اللہ عزًّا وکرامۃً‎!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‎!

والانامہ شرفِ صدور لایا، بڑی مسرّت ہوئی، حق تعالیٰ آپ کو سلامت رکھے۔
‎’’مصنّف عبد الرزاق‘‘ کے باب میں ’’ناپ تول‘‘ کا سلسلہ جاری ہے، مجھے لکھا تھا کہ: ’’اگر بصورتِ وظیفہ ڈیڑھ دو سو پہنچتے رہیں، جس میں آپ کے لیے سو ڈیڑھ سو کا گزارہ ہو، اور پچاس ساٹھ کا کوئی صاف نویس معاون ساتھ رہے الخ۔‘‘ میں نے لکھا: ’’اچھا تو یہ ہے کہ میرا کام بلا معاوضہ رہنے دیجیے، باقی رہا معاون تو ایسا معاون جو میرے کام میں مدد دے سکے (یعنی صرف مسوّدہ نقل کرنے والا نہ ہو) پچاس ساٹھ میں یہاں نہ ملے گا۔ ’’مشکاۃ’’، ’’جلالین‘‘ و ’’ہدایہ‘‘ پڑھانے والے یہاں سوا سو پاتے ہیں، اس سے کم استعداد کا معاون ساتھ رکھ کر کیا کروں گا؟ اور اگر میرے باب میں بھی معاوضہ پر اصرار ہو تو میں نے آپ کا نام لیا کہ ان سے مشورہ کرلیجیے، وہ جو فرماویں گے میں قبول کرلوں گا۔‘‘ اس کا کوئی جواب نہیں آیا۔
‎’’‎انوار الباری‘‘ کے باب میں میرا تأثر بھی وہی ہے، جو آپ کا ہے، میں نے کچھ غلطیوں کی نشان دہی کردی ہے، کچھ مُخلصانہ مشورے دے دیئے ہیں، مگر صحیح بات وہی ہے جو آپ نے لکھی ہے کہ کام بہت اہم اور بڑی ذمہ داری کا ہے، ایسی ذمہ داری جس سے عہدہ برا ہونا آسان نہیں ہے۔
خدا کرے ’’معارف السنن‘‘ کی اشاعت کا جلد سامان ہوجائے۔ ’’تحفۃ الأحوذي‘‘ کی پہلی جلد کی نسبت سنا تھا کہ مصر سے چھپنے والی ہے، ناشر وطابع کا نام معلوم نہیں ہوا تھا، ’’محمد نمنکانی‘‘ (مشہور مصری ناشر وکتب فروش) سے میری خط وکتابت نہیں ہے۔ میری رائے میں سرِدست اور کچھ نہیں ہوسکتا تو تنقیدات کے جواب ضمیمہ ہی کے طور پر چھپ جائیں، اور اس کام کی ذمہ داری آپ قبول فرمائیں۔ 
مولانا عبدالرشید صاحب نعمانی کا پتہ مجھے معلوم نہیں ہے، اس مجبوری سے اس لفافہ میں ان کے نام بھی ایک خط بھیج رہا ہوں، اگر ان تک بھجوانے کی زحمت فرمائیں تو کرم ہوگا۔
                                                             حبیب الرحمٰن الاعظمی (مئو، اعظم گڑھ)
                                                                                             ۱۸؍جولائی سنہ ۱۹۶۷ء

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

إلی الأستاذ الخبیر الفاضل مولانا محمد یوسف البنوري، زادہ اللہ عزًّا وکرامۃً‎!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‎!

آپ کی یہ خوش قسمتی قابلِ رشک ہے کہ بلا ناغہ سال بہ سال زیارتِ حرمین کی سعادت حاصل کرلیتے ہیں، میں تو بے خبر تھا، جب میں نے ’’کتاب الزھد‘‘ آپ کے نام بھجوائی اس وقت علم ہوا۔ حق تعالیٰ مبارک فرمائے، اور ہم کو بھی یہ دولت نصیب کرے۔ ’’کتاب الزھد‘‘ پر ہر تبصرہ نگار کے تبصرہ سے زیادہ آپ کے تبصرہ کا انتظار ہے، اس سے میری حوصلہ افزائی کے علاوہ اُمید ہے کہ اس کے اقتناء (حصول) کا شوق بھی اہلِ علم کے دلوں میں پیدا ہوگا، اور ’’مجلسِ إحیاء المعارف‘‘ کا بار کسی حد تک ہلکا ہوجائے گا، ارکانِ مجلس بھی آپ کے تبصرے کے لیے چشم براہ ہیں، دفتر سے مکرر نسخہ کا مطالبہ ’’مالیگاؤں‘‘ پہنچا تھا، ناظمِ مجلس بہت ادب کے ساتھ معذرت خواہ ہیں کہ کتاب کی تیاری پر بہت ۔۔۔۔ گراں آئی ہے، مکرر نسخہ مجلس پر بار ہوگا، محض از راہِ لطف وکرم ایک ہی نسخہ قبول فرماکر تبصرہ فرمادیں تو یہ مجلس کی اعانت ہوگی۔ مجھے اُمید ہے کہ دفتر کے کارکن حضرات اس معذرت کو قبول فرمائیں گے۔
عزیزم مولانا محمد طاسین سلّمہ نے ’’معارف السنن‘‘ جلد سوم کی خوش خبری لکھی تھی، یہ جلد کن ابواب تک پہنچی ہے؟ اب کے سفر میں آپ کو کونسا نادر علمی تحفہ حاصل ہوا؟ اشارہ فرمائیں گے۔ کویت والوں نے ’’فقہی انسائیکلوپیڈیا‘‘ کی تیاری میں قلمی حصہ لینے کے لیے مجھ کو بھی لکھا ہے۔ کبھی کبھی خیر وعافیت سے مطلع فرما دیا کریں تو بہت زیادہ موجبِ مسرّت ہوگا۔ اُمید ہے مزاج بخیر ہوگا۔ والسلام‎ ‎
                                                          حبیب الرحمٰن الاعظمی‎ ‎ (بقلمِ رشید احمد‎ ‎) 
پس نوشت: خادم رشید احمد مفتاحی (راقمِ سطور) بھی مؤدبانہ سلام پیش کرتے ہوئے دعائے خیر کا آرزو مند ہے۔
نوٹ: یہ مکتوب، کارڈ پر لکھا گیا ہے، پتہ یوں درج ہے‎:
’’بگرامیِ خدمت حضرت مولانا محمد یوسف صاحب بنوری، مدرسہ اسلامیہ عربیہ، نیوٹاؤن، کراچی نمبر :۵
(Karachi 5 , W.Pakistan)
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین