پڑوسی وہمسایہ کے حقوق کے بارے میں آج کل بہت کوتاہی دیکھنے میں آرہی ہے، حالاں کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے متعدد فرامین وارشادات میں نہ صرف تاکید فرمائی ہے، بلکہ کئی نوعیت کے حقوق کو الگ الگ عنوانات سے بھی بیان فرمایا ہے، ذیل میں ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں پڑوسی کے حقوق کا ایک سرسری جائزہ لیتے ہیں، تاکہ ان ارشادات کی روشنی میں مسلمان پڑوسی کے حقوق ادا کرنے والے بن جائیں۔
’’عن عبد اللہ بن عمر رضي اللہ عنہما قال : قال رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم : ’’ما زال جبريل يوصيني بالجار حتی ظننت أنہ سيورثہٗ۔‘‘ (۱)
’’ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: جبرائیل( علیہ السلام ) مجھے پڑوسی کے حق کے بارے میں اس قدر وصیت کرتے رہے کہ مجھے خیال ہونے لگا کہ وہ پڑوسی کو وارث بنادیں گے۔ ایسی ہی ایک روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہے۔‘‘ (۲)
اسی روایت کے ایک طریق میں آیا ہے کہ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر والوں کو حکم دیا کہ وہ غیر مسلم پڑوسی کو ہدیہ بھیجیں، ملاحظہ فرمائیں:
’’عن عمرو بن شعيب عن أبيہ رضي اللہ عنہ قال : ’’ذُبِحتْ شاۃ لابن عمرو في أہلہ، فقال : أہديتم لجارنا اليہوديّ؟ قالوا : لا، قال : ابعثوا إليہ منہا، فإني سمعتُ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم يقول : ’’ما زال جبريل يوصيني بالجار، حتی ظننت أنہ سيورثہ۔‘‘ (۳)
’’عمرو بن شعیب نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ حضرت عبدا للہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے گھر میں ایک بکری ذبح کی گئی (پھر جب آئے تو) انہوں نے کہا تم نے ہمارے یہودی ہمسایہ کو ہدیہ بھیجا؟ گھر والوں نے کہا کہ: نہیں، آپ نے فرمایا کہ اس بکری کے گوشت میں سے اسے کچھ بھیجو، اس لیے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فر ماتے سنا تھا کہ جبریل ہمیشہ مجھے ہمسایہ کے ساتھ احسان کرنے کی وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ میں نے گمان کیا کہ اس کو وارث کر دیں گے ۔‘‘
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ اور آخرت پہ ایمان رکھنے والوں کو پڑوسی کو نہ صرف تکلیف دینے سے منع فرمایا ہے، بلکہ اس کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے، ملاحظہ فرمائیں:
’’عن أبي ہريرۃ رضي اللہ عنہ اَنّ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم قال : ’’من کان يؤمن باللہ واليوم الآخر فلا يؤذ جارہٗ، ومن کان يؤمن باللہ واليوم الآخر فليکرم ضيفہ ، ومن کان يؤمن باللہ واليوم الآخر فليقل خيرا اَو ليسکت۔‘‘ (۴)
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کا کرام کرے اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ بھلائی کی بات کہے یا خاموش رہے۔ ‘‘
مسلم شریف کی ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا:
’’فليحسن إلٰی جارہ۔‘‘(۵)
’’ جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ حسنِ سلوک کا معاملہ کرے۔‘‘
ترمذی شریف کی ایک روایت میں اللہ کے نزدیک بہترین پڑوسی اس شخص کو قرار دیا گیا ہے جو اپنے پڑوسی کے لیے بہتر ہو، ملاحظہ فرمائیں:
’’عن عبد اللہ بن عمرو رضي اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ عليہ و سلم: ’’خير الأصحاب عند اللہ خيرہ لصاحبہ، وخير الجيران عند اللہ خيرہم لجارہٖ‘‘(۶)
’’ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کے نزدیک سب سے بہتر دوست وہ ہے جو اپنے دوست کے لیے بہتر ہو اور اللہ کے نزدیک سب سے بہتر پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے لیے بہتر ہو۔‘‘
طبرانی کی ایک روایت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اگر تم اس بات کو پسند کرتے ہو کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول تم سے محبت کریں تو اپنے پڑو سی کے ساتھ اچھا سلوک کیا کرو ، ملاحظہ کیجیے:
’’عن أبي قراد السلمي رضي اللہ عنہ قال: کنا عند رسول اللہ صلی اللہ عليہ و سلم فدعا بطہور فغمس يدہٗ فيہ، ثم توضأ فتتبعناہ فحسوناہ، فقال رسول اللہ صلی اللہ عليہ و سلم: ’’ما حملکم علی ما صنعتم‘‘؟ قلنا: حب اللہ ورسولہ، قال: ’’فإن أحببتم أن يحبکم اللہ ورسولہ فأدوا إذا ائتمنتم، وأصدقوا إذا حدثتم، وأحسنوا جوار من جاورکم۔‘‘(۷)
’’حضرت عبدالرحمٰن ابو قراد سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے، آپ نے وضو کا پانی طلب فرمایا اور وضو کے پانی والے برتن میں ہاتھ مبارک ڈالا، پھر وضو فرمایا، ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا پانی لے کر (اپنے چہرے اور جسموں پر ) ملنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا: کون سی چیز تمہیں اس کا م پر آمادہ کر رہی ہے؟ ہم نے عرض کیا :اللہ اور اس کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی محبت ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا: اگر تم اس بات کو پسند کرتے ہو کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول تم سے محبت کریں تو جب کوئی امانت تمہارے پاس رکھوائی جائے تو اس کو ادا کرو اور جب بات کرو تو سچ بو لو، اور اپنے پڑو سی کے ساتھ اچھا سلوک کیا کرو ۔‘‘
جانتے بوجھتے پڑوسی کو بھوکارکھ کر خود پیٹ بھر کر سونا کمالِ ایمان کے خلاف ہے:
’’ عن ابن عباس رضي اللہ عنہ عن النبي صلی اللہ عليہ وسلم قال: ’’ليس المؤمن بالذي يشبع وجارہ جائع إلی جنبہٖ۔‘‘(۸)
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’(کامل) مومن وہ نہیں ہوتا جو خود تو پیٹ بھر کے کھائے اور اُس کا پڑوسی اس کے پہلو میں بھوکا رہے۔ ‘‘
حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں اس کو علم کے ساتھ مقید کیا کہ اس کو معلوم ہو کہ اس کا پڑوسی بھوکا ہے، پھر بھی وہ اس کی فکر نہ کرے تو وہ کامل مؤمن نہیں ہوسکتا، ملاحظہ کیجیے:
’’عن أنس بن مالک رضي اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ عليہ و سلم: ’’ما آمن بي من بات شبعانًا وجارہٗ جائعٌ إلٰی جنبہٖ وہو يعلم بہ۔‘‘ (۹)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: وہ شخص مجھ پر ایمان لانے والا نہیں ہوسکتا، (یعنی کامل مؤمن نہیں ہوسکتا) جو خود تو پیٹ بھر کر سوئے اور اس کا پڑوسی اس کے پہلو میں بھوکا رہے اور وہ یہ بات جانتا بھی ہو۔‘‘
’’عن عائشۃ رضي اللہ عنہا أنہا سألت رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم فقالت: إن لي جارين، فإلٰی أيہما اُہْدِي؟ قال: ’’إلٰی أقربہما منک بابًا۔‘‘(۱۰)
’’حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے کہا: یا رسول اللہ! میرے دو پڑوسی ہیں، ان میں سے پہلے میں کس کو حصہ بھیجوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کا دروازہ تجھ سے زیادہ نزدیک ہو۔‘‘
’’عن أبي ذر رضي اللہ عنہ قال : إِن خليلي أوصاني ’’إذا طبخت مرقًا فأکثر ماءہٗ، ثم انظر أقربَ أہل بيت من جيرانک ، فأصبہم منہا بمعروف۔‘‘ (۱۱)
’’حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میرے خلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت کی کہ جب تم سالن پکاؤ تو اس میں شوربا زیادہ رکھو، پھر اپنے قریبی ہمسایہ کے گھر والوں کو دیکھ کر (جو ضرورت مند ہوں) اس میں کچھ اچھے طریقے سے انہیں بھیجو ۔‘‘
پڑوسی ایک دوسرے کو ہدیہ لینے اور دینے کا اہتمام کریں، خواہ کوئی معمولی چیز ہی کیوں نہ ہو، ہلکا اور معمولی سمجھ کر ہدیہ کو حقیر نہ سمجھیں، خاص طور پر خواتین کو اس کی ترغیب دی گئی ہے کہ ان کے جذبات بہت جلد متاثر ہوجاتے ہیں اور ان کا آبگینۂ محبت بہت جلد چورچور ہوجاتا ہے، ملاحظہ فرمائیں:
’’عن أبي ہريرۃ رضي اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم: ’’يا نساء المؤمنات! لا تحقرن جارۃ لجارتہا، ولو فِرسن شاۃ۔‘‘(۱۲)
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اے مسلمان عورتو! کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کے لیے معمولی اور حقیر خیال نہ کرے، اگرچہ بکری کی کھری کا ہدیہ ہو۔ ‘‘
ترمذی شریف کی روایت میں ہدیہ کو دل کی کدورت دور کرنے کا سبب فرمایا ہے:
’’تہادوا، فإن الہديۃ تذہب وحر الصدر، ولا تحقرن جارۃ لجارتہا ولو شق فرسن شاۃ۔‘‘(۱۳)
’’تم ایک دوسرے کو ہدیہ دیا کرو، اس لیے کہ ہدیہ دل کی کدورت دور کرتا ہے اور کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کے ہدیہ کو معمولی اور حقیر خیال نہ کرے، اگرچہ بکری کے کھر کا ایک ٹکڑا ہو۔‘‘
’’عن أبي ہريرۃ رضي اللہ عنہ أن رجلًا قال: يا رسول اللہ! إن فلانۃ ذکر من کثرۃ صلاتہا غير أنہا تؤذي بلسانہا، قال: ’’في النار‘‘ قال: يا رسول اللہ! إن فلانۃ ذکر من قلۃ صلاتہا وصيامہا وإنہا تصدقت بأثوار أقط، غير أنہا لاتؤذي جيرانہا، قال: ’’ہي في الجنۃ۔‘‘ (۱۴)
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا: یارسو ل اللہ! فلاں عورت کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ کثرت سے نماز، روزہ اور صدقہ خیرات کرنے والی ہے ( لیکن ) اپنے پڑوسیوں کو اپنی زبان سے تکلیف دیتی ہے( یعنی برا بھلا کہتی ہے)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : وہ دوزخ میں ہے ۔پھر اس شخص نے عرض کیا: یا رسو ل اللہ! فلاں عورت کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ نفلی روزہ ، صدقہ خیرات اور نماز تو کم کرتی ہے، بلکہ اس کا صدقہ وخیرات پنیر کے چند ٹکڑوں سے آگے نہیں بڑھتا، لیکن اپنے پڑوسیوں کو اپنی زبان سے کو ئی تکلیف نہیں دیتی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا: وہ جنت میں ہے ۔‘‘
’’عن أبي ہريرۃ رضي اللہ عنہ اَن رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم قال: ’’واللہ لايؤمن، واللہ لا يؤمن، واللہ لا يؤمن‘‘، قيل: مَن يا رسول اللہ؟ قال: ’’الذي لا يأمن جارُہ بَوائقَہ۔‘‘(۱۵)
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم وہ مؤمن نہیں ہوسکتا، اللہ کی قسم وہ مؤمن نہیں ہوسکتا، اللہ کی قسم وہ مؤمن نہیں ہوسکتا، پوچھا گیا کہ کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کی ایذا رسانی سے اس کے پڑوسی محفوظ نہ ہوں۔ ‘‘
مسلم شریف کی روایت میں ہے:
’’لا يدخل الجنۃ من لا يأمن جارہٗ بوائقہ۔‘‘(۱۶)
یعنی ’’وہ جنت نہیں جائے گاجس کی ایذا رسانی سے اس کے پڑوسی محفوظ نہ ہوں۔‘‘
۱:-أخرجہ البخاري في صحيحہ برقم :۶۰۱۵، ومسلم في صحيحہ برقم :۲۶۲۵
۲:-أخرجہ البخاري في صحيحہ برقم :۳۳۰۷
۳:-أخرجہ أبو داود في سننہ برقم :۵۱۵۲، والترمذي في سننہ برقم :۱۹۴۳
۴:-أخرجہ البخاري في صحيحہ برقم :۶۰۱۸
۵:- أخرجہ مسلم في صحيحہ برقم :۱۸۴، ۱۸۵
۶:- أخرجہ الترمذي في سننہ برقم :۱۹۴۴
۷:- أخرجہ الطبراني في الأوسط برقم :۶۵۱۷، قال الہيثمي في مجمع الزوائد (۴/ ۲۵۷: رواہ الطبراني في الأوسط، وفيہ عبيد بن واقد القيسي وہو ضعيف
۸:- أخرجہ البخاري في الأدب المفرد برقم :۱۱۲، وأبو يعلی برقم :۲۶۹۹، والطبراني برقم :۱۲۷۴۱، وقال الہيثمي في المجمع (۸/۱۶۷: رجالہ ثقات
۹:- أخرجہ الطبراني في الکبير برقم :۷۵۱
۱۰:- أخرجہ البخاري في صحيحہ برقم :۵۶۷۴، وأبو داود برقم :۵۱۵۵
۱۱:- أخرجہ مسلم في صحيحہ برقم :۲۶۲۵
۱۲:- أخرجہ البخاري في صحيحہ برقم :۲۵۶۶، ۶۰۱۷، ومسلم في صحيحہ برقم :۱۰۳۰
۱۳:- أخرجہ الترمذي في سننہ برقم :۲۱۳۰
۱۴:- أخرجہ ابن حبان في صحيحہ برقم :۵۷۶۴
۱۵:- أخرجہ البخاري في صحيحہ برقم :۵۶۷۰
۱۶:- أخرجہ مسلم في صحيحہ برقم :۴۶