بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

بینات

 
 

کائنات کا تنہا مالک اللہ ہے!

کائنات کا تنہا مالک اللہ ہے!


’’مؤرخہ ۲۹؍ رمضان المبارک ۱۴۴۵ھ مطابق ۹؍اپریل ۲۰۲۴ء بروز منگل، اُنتیسویں شب میں جامعہ بنوری ٹاؤن کی مسجد میں تراویح میں ختمِ قرآن ہوا، اس موقع پر نائب رئیسِ جامعہ حضرت مولانا ڈاکٹر سید احمد یوسف بنوری مدظلہ نے اصلاحی خطاب فرمایا، جسے جامعہ کے رفیقِ شعبہ لائبریری مولانا احمد الطاف نے ریکارڈنگ کی مدد سے تحریری شکل دی ہے، افادۂ عام کے لیے قارئینِ بینات کی نذر ہے۔‘‘         (ادارہ)


السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
الحمد للہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علٰی سید المرسلین، وعلٰی آلہٖ وأصحابہٖ أجمعین، أما بعد: فأعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم: ’’کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ ۔‘‘ (سورۂ ص: ۲۹) وقال رسول اللہﷺ: ’’القرآن حجۃٌ لک أو علیک، کل الناس یغدو فبائع نفسہ، فمعتقہا أو موبقہا۔ ‘‘  (صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ، ص:۱۵، رقم الحدیث: ۵۳۴، مطبع: رحمانیہ، لاہور) 
عزیزانِ گرامی قدر! محترم برادرانِ دین!
بنانے والے نے اس کائنات کو بڑے اہتمام کے ساتھ ایک خاص غرض کے لیے پیدا کیا ہے، جس نے بنایاہے وہی پورے اہتمام کے ساتھ اس کائنات کے نظام کا نگہبان بن کر اس کائنات کے نظام کو چلارہا ہے، ایسا نہیں ہے کہ یہ کائنات اتفاق کی کارسازی ہے، مختلف عناصر میں کسی وقت کوئی حادثہ پیدا ہوا اور کائنات نے کوئی رُخ اختیار کرلیا، ہوتے ہوتے یہاں مخلوقات کا تنوُّع ہوا، نہیں! یہ حادثہ کی پیداوار نہیں ہے، اسے بنانے والے نے بڑے اہتمام اور شان کے ساتھ بنایا ہے۔ بنانے والے کے سوا یہاں کوئی معبود نہیں، بنانے والے کا سا یہاں کوئی حکمراں نہیں، بنانے والے کے سوا یہاں پر کوئی مالک نہیں، بنانے والے کے سوا یہاں کسی کی نہیں چلتی، اس نے بنایا ہے جس کے پاس قدرت کے خزانے ہیں، جس کا علم کامل ہے، جس کی خلقت میں نقص نہیں نکالا جاسکتا: 
’’فَارْجِعِ الْبَصَرَ ۝۰ۙ ہَلْ تَرٰى مِنْ فُطُوْرٍ، ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ اِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِـئًا وَّہُوَ حَسِیْرٌ  ‘‘  (الملک:۳، ۴)
’’ پھر نگاہ ڈال کر دیکھ لے، کہیں تجھ کو کوئی خلل نظر آتا ہے؟ (یعنی بلاتامل تو نے بہت بار دیکھا ہوگا، اب کی بار تأمل سے نگاہ کر) ۔ پھر باربار نگاہ ڈال کر دیکھ! (آخر کار) نگاہ ذلیل اور درماندہ ہو کر تیری طرف لوٹ آئے گی۔‘‘  (ترجمہ بیان القرآن)
جاؤ دیکھو! اس کائنات میں تلاش کرو، میں نے اس کائنات کو اس شان سے بنایا ہے، تمہارے علم میں کمی ہوگی، تمہارا علم بہت بڑھے گا، مگر میری اس کائنات میں نقص نہیں نکل سکے گا، ہزاروں سال پہلے میں نے اُسے ترتیب دیا ہے، یہاں وقت پر سورج نکلتا ہے، وقت پر چاند طلوع ہوتا ہے، رات کا ایک وقت ہے، دن کا ایک وقت ہے، تم اب بہت اِتراتے ہو کہ ہم نے جان لیا ہے، اس کا حساب ہمیں معلوم ہوگیا ہے، تم اس کائنات میں چند ٹکوں کی چیزوں کا نظم بناتے ہو، روز خلل پیدا ہوتا ہے، روز نقص کا مظاہرہ ہوتا ہے، جو میں نے بنایا ہے اس کے اندر کمی نظر نہیں آتی اور پھر اللہ فرماتے ہیں: میں نے صرف بنایا نہیں ہے، چلا بھی میں ہی رہا ہوں۔ ’’اَلْـحَیُّ الْقَیُّوْمُ‘‘ ایسا نہیں ہے کہ کسی گھڑی ساز نے گھڑی بنادی اور اب نظام کے تحت آٹومیٹک چل رہی ہے، نہیں! نہیں! اس کائنات میں ’’اِنَّ رَبَّکَ لَبِالْمِرْصَادِ‘‘ گھات لگاکر بیٹھا ہوا ہوں، دیکھ رہا ہوں، مخلوقات کا جائزہ لے رہا ہوں۔ 
عزیزانِ گرامی! بس حجاب یہ چیزیں بن گئی ہیں کہ اس نے اپنا کچھ اختیار اپنی دو مخلوقات کو دے دیا: ایک کا نام انسان ہے اور دوسرے کا نام جن، جنوں کو اللہ نے پردے میں رکھا ہے، نظر نہیں آتے، بہ طور مخلوق کے قرآن کریم کی روشنی میں ہمارا اس پر اعتقاد ہے کہ جنات اس کائنات میں موجود ہیں۔ یہ انسان ہے جس کی رزم گاہ اور تماشا ہم دیکھتے رہتے ہیں، اس انسان کو اللہ نے تھوڑا سا اختیار دیا ہے۔ اختیار کو سمجھنا ہو تو نبوت اور مشکاۃِ نبوت سے مستفید جلیل القدر صحابیِ رسول شیرِ خدا حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کی اس سے زیادہ واضح بات سمجھانے کے لیے کوئی اور مل نہیں سکتی، ان سے کسی نے پوچھا: انسان بااختیار ہے یا مجبور ہے؟ انہوں نے فرمایا: کھڑے ہو جاؤ، کھڑا ہوگیا، کہا: اب اپنی ایک ٹانگ اُٹھاؤ، اس نے آرام سے اُٹھالی، کہا: اب اس کو نیچے رکھے بغیر دوسری بھی اُٹھاؤ، اس نے کہا: نہیں اُٹھا سکتا، کہا: یہ اختیار ہے اور یہ پابندی۔ اس کو اتنا اختیار دے دیا ہے، یہ اس کی تخلیق میں حصہ بن گیا ہے، شادی کرلیتاہے، اسباب کے نظام کا جب حصہ بن جاتاہے، وہ چاہتا ہے: 
’’یَہَبُ لِمَنْ یَّشَاۗءُ اِنَاثًا وَّیَہَبُ لِمَنْ یَّشَاۗءُ الذُّکُوْرَ  اَوْ یُزَوِّجُہُمْ ذُکْرَانًا وَّاِنَاثًا ۝۰ۚ وَیَجْعَلُ مَنْ یَّشَاۗءُ عَــقِـیْمًا ۝۰ۭ‘‘   (الشوریٰ: ۴۹، ۵۰) 
’’جس کو چاہتا ہے بیٹیاں عطا فرماتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بیٹا عطا فرماتا ہے، یا ان کو جمع کردیتا ہے بیٹے بھی اور بیٹیاں بھی، اور جس کو چاہے بےاولاد رکھتا ہے۔‘‘ (ترجمہ بیان القرآن)
یعنی کچھ کو اولاد دے دیا کرتا ہے اور کچھ کو نہیں دیتا، کچھ کو نرینہ اولاد دیتا ہے، ذکور میں سے حصہ دیتاہے، کچھ کو اللہ تعالیٰ بیٹیاں عطا کردیتا ہے، تو انسان کو زعم ہونے لگتاہے کہ میں بھی تخلیق کے اندر حصہ دار ہوں، یہ بچہ گویا میری تخلیق کا کارنامہ ہے۔ تھوڑا سا اختیار دے دیا ہے، اس تھوڑے سے اختیار سے پہلے زمین میں کاشت کرتاتھا، پھر تجارت کا ذوق پیدا ہوگیا، اب تھوڑا سا اِترانے لگا ہے تو ہواؤں میں اُڑتا ہوا نظر آرہا ہے، تو خیال یہ ہے کہ اب یہاں پر میری حکمرانی ہوگی، کچھ گروہ منظم ہو گئے ہیں، کچھ ریاستیں بن گئیں ہیں، کچھ کو اللہ نے حکمرانی دے دی ہے، تو ہمیں نظر آتا ہے کہ کہیں ہٹلر پیدا ہوتاہے، کہیں فرعون پیدا ہوتاہے، کہیں نمرود پیدا ہوتاہے، یہ معمولی اختیار کے نتیجہ میں انسان کا دماغ خراب ہوجاتاہے، مگر اللہ فرماتے ہیں: اس کائنات کو میں نے تمہارے سپرد نہیں کردیا، میں جب چاہتا ہوں، حکمرانوں کی حکمرانی کو نیست ونابود کرکے رکھ دیتا ہوں۔ میں جب چاہتا ہوں طاقت کا توازن تبدیل کرکے رکھ دیتا ہوں۔ میں جب چاہتاہوں لوگوں کے ہاتھوں سے حکومت لیتا ہوں اور دوسروں کو دے دیتاہوں۔ وہ اپنے جلال پر آتاہے تو قرآن کہتا ہے:
’’فَکُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْبِہٖ‘‘  (العنکبوت:۴۰) 
’’ تو ہم نے ہر ایک کو اس کے گناہ کی سزا میں پکڑ لیا۔‘‘   (ترجمہ بیان القرآن)
یعنی میں پکڑنے پر آیا تو ہرایک کو اس کے گناہوں کے بدلہ میں پکڑ لیا۔
’’فَمِنْہُمْ مَّنْ اَرْسَلْنَا عَلَیْہِ حَاصِبًا۔‘‘  (العنکبوت:۴۰) 
’’ سو ان میں بعضوں پر ہم نے تند ہوا بھیجی۔‘‘  (ترجمہ بیان القرآن)
یہ جو ہوا ہےجس کے نتیجے میں تم سانس لیتے ہو، میرے حکم کی پابند ہے، میں اس کو اشارہ کرتاہوں، یہ طوفان میں بدل جاتی ہے اور لوگوں کو ان کے مسکنوں میں پناہ نہیں ملتی، ثمود جیسی مضبوط قوم تھی، پہاڑ تراش کر وہاں پر مسکن بناتے تھے، جب اللہ کا حکم آیا، آواز آئی تو وہ وہیں اندر کے اندر مرگئے۔ کبھی قرآن کو پڑھیں نا، ابھی حضرت قاری صاحب نے پورے اہتمام سے پڑھایا، یہ قرآن کی شان ہے کہ بغیر پڑھے بھی روحوں کو سکون دیتا رہے اور چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کے سینوں میں اُترجاتا ہے، لیکن یہ آپ حضرات جو دنیا کے اعتبار سے اتنے تعلیم یافتہ ہیں، ذرا قرآن کو کھول کر تو دیکھئے! کیسے کیسے قوموں کا تذکرہ کرتا ہے اور دیکھیں! بتائیں! یہ کوئی انسانی کلام ہوسکتاہے؟ یہ ایک ایسا شان دار کلام تھا کہ جب یہ اپنے عروج پر جنہیں سمجھ میں آرہا تھا، اُن سے ان کی شاعری چھن گئی، عربوں کو اپنی زبان پر فخر اور ناز تھا، وہ ہر سال اپنی زبان کے لیے قصیدوں کا مقابلہ کیا کرتے تھے کہ کون بہتر قصیدہ کہے گا؟ اس کو ہماری علمی تاریخ میں معلقات کی روایت کہا جاتا ہے، جو قصیدہ اعلیٰ ترین بن جایا کرتا تھا، اس کو سونے کے پانی سے لکھ کر خانہ کعبہ میں لٹکا دیا جاتا تھا، ایسے سات قصیدے ہیں۔ The Seven Hanging Odes کے نام سے انگریزی میں ترجمہ ملتاہے (ان اشعار کا انگریزی میں ترجمہ بھی ہوچکا ہے) یہ شاعری صدیوں سے پڑھی اور پڑھائی جارہی ہے، ماقبل اسلام کی شاعری ہے، کل ملا کر سات شاعر ہیں، ان میں سے ایک شاعر ’’لبید‘‘ تھا، چوتھے نمبر پر اس کا قصیدہ ہے:
 

عفت الدیار محلہا فمقامہا 

بمنی تأبَّد غولُہا فرِجامہا
 

(المعلقات السبع، المعلقۃ الرابعۃ، ص:۸۹، سنۃ الطباعۃ ۲۰۱۹ء، مطبع: البشری)
یہ وہ شاعر ہے جس کو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا زمانہ ملا اور اس نے قرآن اُترتا دیکھ لیا، لبید کا قصیدہ بھی ان قصیدوں میں سے ہے جس کا انتخاب کرکے سونے کے پانی سے لکھ کر لٹکایا گیا تھا۔ قرآن نازل ہوا، الطاف حسین حالی مرحوم (۱۸۳۷ء-۱۹۱۴ء) نے شعر کہا ہے نا کہ:

وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ہادی
عرب کی زمین جس نے ساری ہلادی

(مسدس حالی، ص:۱۷، مطبع: تاج کمپنی، لاہور)

ایسا قادر الکلام شاعر جس نے چیلنج کرکے کلام کہا ہو، مقابلہ جیتا ہو، خانہ کعبہ (جو ا س زمانے میں بھی ان کے ہاں مسلم اور محترم جگہ تھی) پراس کا کلام لٹکا دیا ہو، ایسے شاعر کی زبان گنگ ہوگئی، کسی نے پوچھا کہ لبید! اب شاعری نہیں کرتے؟ اب شعر کہنا چھوڑ دیئے؟ جواب دیا کہ: ’’ أ بعد زَہراوَین؟‘‘ یعنی سورۂ بقرہ اور سورۂ آلِ عمران کے بعد بھی شاعری کی جاسکتی ہے؟! 
ایک اور قصہ اس کے بارے میں لکھا ہے، دلچسپ ہے، تاریخی قصے ہیں، تاریخی قصے جس طرح ثابت ہوتے ہیں اسی طرح یہ ثابت ہے، کسی آدمی نے اس کا امتحان لیا اور کہا کہ بڑے قادر الکلام شاعر ہو، میں نے تین مصرعوں کا ایک شعر کہا ہے، چوتھا بن نہیں رہا، (ہماری اردو میں بھی صنفِ رباعی ہے) چوتھا مصرعہ کہہ دو تو (رباعی) مکمل ہوجائے گی، لبید نے کہا کہ کونسے مصرعے ہیں؟ تو اس نے لبید کو سورۃ الکوثر سنا دی: 
’’اِنَّآ اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ ۝  فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ ۝ اِنَّ شَانِئَکَ ہُوَالْاَبْتَرُ۝‘   (الکوثر:۱-۳)
ترجمہ: ’’ بیشک ہم نے آپ کو کوثر عطا فرمائی ہے۔ سو (ان نعمتوں کے شکریہ میں) آپ اپنے پروردگار کی نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے۔ بالیقین آپ کا دشمن ہی بےنام و نشان ہے۔ ‘‘  (بیان القرآن)
آپ حضرات کو معلوم ہوگا کہ شاعری میں آخر کے اندر ایک آہنگ پیدا ہوتاہے، جیسے : ’’الْکَوْثَرْ، وَانْحَرْ، اَبْتَرْ‘‘ ۔ کہنے والے نے کہا کہ : یہ تین شعر کہے ہیں اور چوتھا ہو نہیںرہا، کوشش کرو چوتھا بنادو۔ لبید نے یہ تین مصرعے سنے اور غور وفکر میں پڑگیا، بعض روایات میں ہے کہ کسی غار میں چلا گیا، غور وفکر کے لیے وقت مانگ لیا، غور کرتا رہا، کیا کرے، کچھ سمجھ میں نہیں آتا، چوتھا مصرعہ کیا کہوں؟! اس سے صرف یہی کہا جاسکا کہ: ’’مَا ہٰذَآ اِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ‘‘ یعنی یہ انسان کا کلام نہیں ہوسکتا، یہ شاعری نہیں ہے، تم نے مجھے غلط بات کہی۔
عزیزانِ گرامی! قرآن کریم کو کبھی کھول کر پڑھئے، وہ بتاتاہے کہ قوموں کو نشہ چڑھ جاتا ہے، دماغ میں تکبر آجاتا ہے، ایسے بدبخت ہوتے ہیں جن کو مال اللہ دیتا ہے، وہ اس زعم کا شکار ہوجاتے ہیں کہ یہ مال ہم نے خود کمایا ہے۔ قرآن قصہ سناتاہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں بھی اس طرح کا ایک دیوانہ تھا، مال کا زعم تھا، قرآن کہتا ہے کہ: مال اتنا تھا کہ اس کے خزانوں کی صرف چابیاں اونٹوں پر لادی چلی جاتی تھیں: 
’’لَتَنُوْۗاُ بِالْعُصْبَۃِ اُولِی الْقُوَّۃِ‘‘   (القصص:۷۶) 
’’ کہ اُن کی کنجیاں کئی کئی زور آور شخصوں کو گرانبار کردیتی تھیں۔‘‘(ترجمہ بیان القرآن)
پیغمبروں نے کہا: اس مال پر اتنا نہ اِتراؤ، دینے والے نے دیا ہے، دینے والا آزمائش کی بنا پر دیتا ہے: 
’’وَلَوْ بَسَطَ اللہُ الرِّزْقَ لِعِبَادِہٖ لَبَغَوْا فِی الْاَرْضِ وَلٰکِنْ یُّنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا یَشَاۗءُ ۝۰ۭ اِنَّہٗ بِعِبَادِہٖ خَبِیْرٌ م  بَصِیْرٌ‘‘    (الشوری:۲۷)
’’ اور اگر اللہ تعالیٰ اپنے سب بندوں کے لیے روزی فراخ کردیتاتو وہ دنیا میں شرارت کرنے لگتے، لیکن جتنا رزق چاہتا ہے انداز (مناسب) سے (ہر ایک کے لیے) اُتارتا ہے۔ وہ اپنے بندوں (کے مصالح) کو جاننے والا (اور اُن کا حال) دیکھنے والا ہے۔‘‘        (ترجمہ بیان القرآن)
یہ دھوکے میں نہ پڑو کہ تم نے دکان کھولی اور تم اپنے زور پر کما رہے ہو، تم نے فیکٹری بنائی ہے، تم اپنے زور پر بنا رہے ہو، تمہیں کوئی اللہ نے خاص دماغی صلاحیت دی ہے، اس پر اِتراؤ مت: 
’’لَا تَفْرَحْ اِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ الْفَرِحِیْنَ‘‘  (القصص:۷۶) 
’’(اس مال و حشمت پر) اِترا مت، واقعی اللہ تعالیٰ اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
یعنی اللہ اِترانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اس نے کہا: نہیں: 
’’قَالَ اِنَّمَآ اُوْتِیْتُہٗ عَلٰی عِلْمٍ عِنْدِیْ‘‘   (القصص:۷۸) 
’’قارون یہ سن کر کہنے لگا: مجھ کو تو یہ سب کچھ میری ذاتی ہنر مندی سے ملا ہے ۔‘‘ 
یعنی یہ مجھے کسی نے دیا نہیں، یہ مجھے میرے علم سے ملا ہے، یہ میری دانش سے ملا ہے، یہ زعم ہے جو انسان کو اس کائنات میںمار رہا ہے، یہ خیال ہے لوگوں کو جو دیوانہ کیے جارہا ہے، مایوس بھی اس وجہ سے ہو رہے ہیں، تکبر میں اس وجہ سے مبتلا ہو رہے ہیں۔ جن سے دنیا کی کچھ چیزیں چھن جاتی ہیں، دیوانے ہوئے پھر رہے ہیں، خودکشیوں کی نوبت آرہی ہے، بھائی بھائی کے گریبان پر ہاتھ ڈال رہا ہے، وہ باپ جس نے ساری زندگی کھلایا، جائیداد کے لیے اس باپ کی داڑھی پر ہاتھ ڈالا جارہا ہے، خیال یہ ہے کہ یہ مال نہیں ملے گا تو کیا ہوگا؟! گویا یہ دنیا تو بے راعی کا گلہ ہے، چلانے والا تو چلا نہیں رہا، کوئی ہمیں دیکھ نہیں رہا، مرضی ہے، یہ نہیں ملا توکیا ہوگا؟! بوڑھے والد کی داڑھی پر ہاتھ ڈالا جارہا ہے، ماؤں کو دھکے دیے جارہے ہیں، خون سفید ہو رہا ہے، بھائی بھائی کا نہیں ہورہا، زعم ہے، خیال ہے، یہ ٹکا نہیں ملے گا تو کیسے گزارا کروں گا؟! یہ زمین کا ٹکڑا میرے ہاتھ میں نہیں تو میں کیسے جی پاؤںگا؟! اور جن کے پاس دنیا ہے وہ طاقت کے فرعون بنے ہوئے ہیں، جس کو دیکھ کر اُن کے دماغ پر یہ بھوت سوار ہے کہ میرے پاس طاقت ہے، طاقت کے نشہ میں ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتاہے: 
’’فَخَسَفْنَا بِہٖ وَبِدَارِہِ الْاَرْضَ‘‘   (القصص:۸۱) 
’’  پھر ہم نے اس قارون کو اور اس کے محل سرا کو زمین میں دھنسا دیا۔‘‘      (ترجمہ بیان القرآن)
یعنی ہم نے اس کو دھنسا دیا، زمین کے اندر دھنسادیا۔ اور بعض روایات میں ہے کہ وہ قیامت تک دھنستا رہے گا۔ 
قرآن کا پیغام یہ ہے: ’’تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘ (الواقعۃ:۸۰) یعنی ’’ یہ رب العالمین کی طرف سے بھیجا ہوا ہے۔‘‘ وہ اپنے بارے میں کہتا ہے: وہ (قرآن) مفکر کی فکر کی کارستانی نہیں، شاعر کی شاعری نہیں، سوچ بچار کا حاصل نہیں، یہ آں سوئے افلاک سے اُتر کر انسانوں کو اللہ کا پیغام دے رہا ہے: انسانو! میں نے تمہیں اس کائنات میں ایک خاص غرض کے لیے پیدا کیا ہے، میں اپنی غرض کا حساب لوں گا: 
’’اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ‘‘  (المومنون:۱۱۵) 
’’ ہاں! تو کیا تم نے یہ خیال کیا تھا کہ ہم نے تم کو یونہی مہمل (خالی از حکمت) پیدا کردیا ہے اور یہ خیال کیا تھا) کہ تم ہمارے پاس نہیں لائے جاؤ گے؟!۔‘‘     (ترجمہ بیان القرآن)
اتنے سادے ہو گئے، دنیا کی رنگینی اتنی دیوانہ کرگئی، کھانے میں تھوڑی سی دیر ہوجائے، وقت پر چیز نہ ملے تو ساری زندگی کی رفاقت کا خیال ختم ہوجاتا ہے۔ کمائی ہوئی گاڑی پر اسکریچ پڑجائے آدمی گاڑی سے نہیں اُترتا، لگتا ہے کوئی جانور گاڑی سے اُترگیا ہے۔ حکمرانوں کو خیال ہے کہ ہمیں حکمرانی ملی ہے، یہ کوئی خدائی استحقاق ہے، خاندانی حکمران ہیں، باپ بھی حکمران تھے، دادا بھی حکمران تھے۔ نہیں، نہیں! جس کو یہاں جو ملا ہے، آزمائش کے لیے ملا ہے: 
’’اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَۃً لَّہَا لِنَبْلُوَہُمْ اَیُّہُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا‘‘          (الکہف:۷۱)
’’ ہم نے زمین پر کی چیزوں کو اس کے لیے باعثِ رونق بنایا، تاکہ ہم لوگوں کی آزمائش کریں کہ ان میں زیادہ اچھا عمل کون کرتا ہے۔‘‘  (ترجمہ بیان القرآن)
ہم انہیں آزما رہے ہیں، ہم انہیں دیکھ رہے ہیں، انسان کے اندر یہ احساس پیدا نہیں ہورہا۔ عزیزانِ گرامی! ہماری کوئی چیز حل نہیں ہوپائے گی، ہماری ڈگریاں ہمیں نجات نہیں دے پائیں گی، ہمارا مال ہمیں نجات نہیں دے پائے گا، ہمارے تعلقات ہمیں نجات نہیں دے پائیں گے، یہ اولاد کام نہیں آئے گی، اولاد اُن کے پاس بھی تھی جو حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کے مقابلے میں کھڑے ہوئے تھے: ’’وَبَنِیْنَ شُہُوْدًا‘‘ (المدثر:۷۴) حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعض مخالفین کے بارے میں آتاہے کہ ان کے بارہ بیٹے تھے، آپ لوگ اندازہ لگائیں عربوں کے معاشرے میں باپ بیٹھا ہوا ہے اور ان کے سامنے یوں بارہ جوان بیٹے چار پایوں پر بیٹھے ہوئے ہیں، کوئی آدمی جرأت کرکے بات نہیں کرسکتا تھا، اور مقابلے میں آمنہ کا لعل ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تھا جس کے نام سے لوگوں کو آج اولادیں ملتی ہیں:’’ ہو الحبیب الذي ترجٰی شفاعتُہ‘‘ خیال یہ تھا یہ قصہ ختم ہوجائے گا، حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کا کوئی تذکرہ بھی نہیں ہوگا، ان کی تو اولاد نہیں ہے، اللہ نے فرمایا: نہیں، نہیں، تمہارے دشمن ہار جائیں گے، ان اولاد وں والوں کی اولادوں کے نام لینے والا کوئی نہیں ہوگا۔یہی عرب کی بستی ہے، یہ عرب کے لوگ ہیں، قریش سے سلسلۂ نسب بھی ثابت ہے، کوئی آدمی نہیں ملتا جو یہ کہے: میرے خاندان میں ابو جہل گزرا تھا، کوئی نہیں ملتا جو یہ کہے کہ: ولید گزرا تھا، عرب ہیں اور عربوں کو فخر ہے، وہ خاندان نہیں رہے۔
عزیزانِ گرامی! یہ دنیا بے راعی کا گلہ نہیں ہے، وہ اپنے فیصلے کس شان سے کرتا ہے، کس کو کیا چیز دے کر آزماتا ہے، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ فرعونوں کی فرعونیت، نمرودوں کی نمرودیت کا ظہور ہوتا رہتا ہے۔ یہ آزمائش ہوتی ہے اہلِ علم کے لیے، اہلِ ایمان کے لیے کہ وہ کھڑے کس طرح ہوتے ہیں، یہ بھی کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کا اپنا نواسہ جس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم  مسجد نبوی میں ساتھ لاتے تھے، خطبہ میں ایک بار دیکھا حضرت حسین رضی اللہ عنہ  آئے، خطبہ چھوڑ کر حضرت حسین رضی اللہ عنہ  کو لے کر کھڑے ہوگئے، اُس حضرت حسین رضی اللہ عنہ  کا لاشہ کٹا، یہ وقت بھی آیا۔ آج کچھ لوگوں کا زعم ہے، وہ طاقت کے نشہ میں سرشار ہیں، غزہ کے مسلمانوں پر لوہے اور بارود کی بارش برسارہے ہیں، یہ تھوڑی دیر کا زعم ہے، اہلِ نظر اس موقع پر بھی دیکھ رہے ہیں کہ طاقتیں برہنہ ہوگئیں، حقوقِ انسانی کے علمبردار رُسوا ہوگئے، حقوق کی بات کرنے والے بات کرنے کے قابل نہیں رہے، قرآن سچا ہوگیا، لوگ منہ چڑاتے تھے کہ قرآن کہتا ہے: 
’’ضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّـۃُ اَیْنَ مَا ثُـقِفُوْٓا اِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللہِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَبَاۗءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللہِ  ۔ ‘‘  (آل عمران:۱۱۲) 
’’ جمادی گئی اُن پر بےقدری جہاں کہیں بھی پائے جاویں گے، مگر ہاں ایک تو ایسے ذریعہ کے سبب جو اللہ کی طرف سے ہے اور ایک ایسے ذریعہ سے جو آدمیوں کی طرف سے ہے اور مستحق ہوگئے غضبِ الہٰی کے ۔‘‘  (ترجمہ بیان القرآن)
یعنی کہ یہودیوں پر اللہ کی مار ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ مولوی صاحب! آپ کہتے ہیں کہ: اللہ فرماتا ہے: ’’یہودیوں پر اللہ کی مارہے۔‘‘ نوبل پرائز کی لسٹ اُٹھاؤ تو اس صدی کے اندریہودیوں کے نوبل پرائز سب سے زیادہ ہیں، انہوں نے ہمیں یہ چیز بناکر دی ہے، یہ چیز ایجاد کرکے دی ہے۔ بتایا: یہ دنیا ہے: 
’’یَعْلَمُوْنَ ظَاہِرًا مِّنَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا‘‘   (الروم:۷)
’’ یہ لوگ صرف دنیوی زندگی کے ظاہر کو جانتے ہیں اور یہ لوگ آخرت سے بےخبر ہیں۔‘‘ (بیان القرآن)
یہ دنیا کی چند چیزوں کے بارے میں جانتے ہیں، یہ غلیظ قوم ہے، یہ بدبخت قوم ہے، اس پر اللہ کی مار ہے۔ قرآن نے سچائی بتائی، اُن کو عزت نہیں مل سکتی اور اہلِ غزہ نے بتایا جو حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا تھا کہ: جو ایک مرتبہ کہتاہے: 
’’رَضِیْتُ بِاللہِ رَبًّا وَّبِالْإِسْلَامِ دِیْنًا وَّبِمُحَمَّدٍ (صلی اللہ علیہ وسلم) نَبِیًّا۔‘‘  (ابوداؤد، ترمذی) 
’’اے اللہ! میں راضی ہوں کہ آپ ہمارے رب ہیں، میں راضی ہوں کہ محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  میرے نبی ہیں، اسلام میرا دین ہے، وہ ایمان کا ذائقہ چکھ لیتاہے۔‘‘
 کیسا ایمان کا ذائقہ چکھتے ہیں؟ وہ آزاد ہیں اورپوری دنیا قیدی بنی ہوئی ہے، وہ بے گھر ہوکر بھی بےخوف جی رہے ہیں اور لوگ گھروں کے اندر بیٹھ کر بھی ڈر رہے ہیں، کسی حکمران نے کچھ کہہ دیا تو کہیں ہمارا ناطقہ بند نہ ہوجائے، پٹرول اور دولت لے کر بھی چہرے نحوست میں مبتلا ہیں، غیرت اور شرم ختم ہوگئی اور اُن لوگوں نے اللہ اور رسول کا نام لیا‘ ثابت قدمی سے جمے ہوئے ہیں۔
عزیزانِ گرامی! قرآن اور اسلام کا پیغام یہ ہے، رمضان نے آپ کو اس کی مشق کروائی، اس تربیت سے گزارا کہ بھوک، پیاس کے ساتھ اللہ کی یاد کے ساتھ کیسے جیا جاسکتا ہے؟! کیسے نیند قربان کرکے بھی نیند کا مزہ لیا جاسکتا ہے؟! اللہ کی یاد میں بے خوابی کا سکون نیند کی راحت سے بڑھ کر ہے، اگر وہ بے خوابی اللہ کی یاد کے ساتھ اور بھوک پیاس کے ساتھ ہو۔
یہ پیغام ہے جو اللہ دیتے ہیں، یہ پیغام ہے جو اہل اللہ نے دیا، اور اب یہ مسجدیں اور مدارس یہ کام کررہے ہیں، یہ اپنی پوری تاریخ رکھے ہوئے ہیں۔ تفصیلات کے بتانے کا موقع نہیں ہے۔ ہم تو اپنے ظاہری لوگوں سے بھی واقف نہیں ہیں۔ آپ کو ان امام صاحب کی گفتگو اور حرارتِ ایمانی کے پیچھے ان کے آباء کی تاریخ نہیں معلوم، یہ سید احمد شہیدؒ کے خاندان کے لوگ ہیں، جنہوں نے آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے جہاد پر بیعت کی اور لوگوں کو تیار کیا، ہم تو ان محسنین کو نہیں جانتے، آپ کو آج بھی نہیں اندازہ ہوسکتا اور بہت سی تفصیلات بتانے کا موقع نہیں ہے کہ اس وقت ساؤتھ افریقہ نے جو غزہ اور اہلِ غزہ کا مقدمہ لڑا ہے، چاہے وہ کسی بھی درجے میں ہے، اسرائیل کی ذلت کا سبب بنا ہے اور عالمی عدالتوں میں کیس درج کیا ہے، اس کے پیچھے بھی اس جامعہ کے فاضلین موجود ہیں۔ تفصیلات بتائی نہیں جاسکتیں، لوگوں کے علاج معالجہ سے لے کر اور ہمارے حضرت قاری صاحب جیسے قاریوں کی تیاری تک یہ مدارس کام کررہے ہیں، یہ آپ کے ایمان کے مرکز اور حفاظت کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں اور یہ لوگوں کو لے لے کر آتے ہیں اور تربیت کرتے ہیں اور ہمارا معاملہ یہ ہے چند قدم یہاں سے وہاں جانا پڑ جائے تو گھبراہٹ شروع ہوجاتی ہے، تکلیفیں شروع ہوجاتی ہیں۔ 
یہ مدارس کیا کررہے ہیں! یہ ہمیں معلوم ہے۔ آپ کیا کررہے ہیں؟! آپ غور کیجئے۔ آپ نے اپنی جوانی اس دین کے لیے وقف کی ہے؟! آپ نے اپنے مال میں سے حصہ نکالا ہے اس کے لیے؟! آپ نے اپنے بچوں اور اولاد کی تربیت کا سوچ لیا ہے؟! آپ نے ان لوگوں کے ہاتھ میں ہاتھ دینے کا فیصلہ کرلیا ہے؟! اب بات ختم کرتاہوں۔یہ پیغام اللہ کی دعوت ہے، وہ مستغنی ذات ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے کسی نے پوچھا تھا کہ ماں اپنے بچے کو جہنم میں ڈال سکتی ہے؟ اور اللہ کے بارے میں آپ کہتے ہیں: وہ رحیم ہے، وہ کریم ہے، وہ جہنم میں کیسے ڈالے گا؟ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کی آنکھوں میں آنسو آگئے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: میری مثال تو ایسی ہے کہ کسی آدمی نے صحراء میں آگ جلائی ہو اور پرندے پتنگے اس آگ پر گر رہے ہوں اور وہ آگ سے دور بھگا رہا ہو، میں تو تمہیں پکڑ پکڑ کر اس جہنم کی آگ سے بچانا چاہتاہوں، تم جا رہے ہو، یہ تمہارا نصیب ہے۔ 
یہ رمضان کا مہینہ گزر جائے گا۔ عزیزانِ گرامی! ہم نے اپنی زندگی کا فیصلہ نہیں کیا تو یہ زندگی واپس نہیں آئے گی، آج فیصلہ کر لیجئے، آج فیصلہ کرکے اُٹھیے، آج امام صاحب کی دعا میں اپنا دل اللہ کو دے کر اُٹھیے۔ گزر جاتی ہے زندگی، بھوک کے ساتھ بھی گزر جاتی ہے، تھوڑے کے ساتھ بھی گزر جاتی ہے، ہمت پیدا کیجئے، آج فیصلہ کرکے اُٹھیں یا اللہ! بہت ہوگئی، اب تیری مانیں گے اور تجھ سے ہی مانگیں گے۔ 

و آخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین!
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین