بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

بینات

 
 

کبار تابعین کی اصطلاح ۔۔۔  تعارف و تجزیہ اور مرتبہ ومقام

کبار تابعین کی اصطلاح
 

تعارف و تجزیہ اور مرتبہ ومقام


علومِ حدیث کا کوئی طالبِ علم ’’کبار تابعین‘‘ کی اصطلاح سے ناواقف نہیں ہوگا، متعدد حدیثی فروع اور مصطلحات میں ’’کبار تابعین‘‘ کا حکم صحابہ کرامؓ کی طرح دیگر رواۃ اور لوگوں سے مختلف ہوتا ہے، اور اس کا بعض فقہی مسائل پر بھی اثر پڑسکتا ہے۔ نیز فنِ رجال اور جرح وتعدیل کی کتب میں کئی حضرات کے تراجم میں ’’وکان من کبار التابعین‘‘ جیسے الفاظ موجود ہوتے ہیں، لیکن کبار تابعین کا مفہوم ذکر نہیں کیا جاتا، اسی طرح اصولِ حدیث کی کتب میں بھی کبار تابعین سے متعلق معلومات یکجا مذکور نہیں، لہٰذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ’’کبار تابعین‘‘ کی اصطلاح کا تعارف اور اس سے متعلقہ اصولی وحدیثی مباحث اختصار کے ساتھ جمع کردیئے جائیں؛ تاکہ ’’کبار تابعین‘‘ سے متعلق مباحث ذہن نشین اور مستحضر رکھنا آسان ہو۔

کبار تابعین کا معنی و مصداق

کبار تابعین کے لغوی معنی ’’بڑے تابعین‘‘ کے ہیں، اور یہ جمع ہے، واحد کے لیے ’’تابعی کبير‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے، لیکن اصطلاح میں’’تابعی کبیر‘‘ کا معنی ومفہوم کیا ہے؟ اور یہ لفظ کن حضرات کے لیے بولا جاتا ہے تو اس بارے میں اہلِ علم کا کچھ اختلاف ہے، جوکہ حسبِ ذیل ہے:
1- جس شخص نے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کے عہد مبارک میں اسلام لایا ہو، لیکن نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی زیارت نصیب نہ ہوئی ہو توایسے شخص کو ’’تابعی کبیر‘‘ کہیں گے۔ نیز اس کو ’’مخضرم‘‘ بھی کہتے ہیں، تو گویاکہ مخضرمین حضرات ہی کبار تابعین ہیں۔ (۱)
2-  جس شخص نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کی ایک بڑی جماعت سے ملاقات کی ہو، اس کو تابعی کبیر کہیں گے، بخلاف اس تابعی کے جس کو چند صحابہؓ سے ملاقات کا شرف حاصل رہا ہو۔ (۲)
3-  جو شخص کبار صحابہؓ یعنی بڑے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  سے شرفِ ملاقات حاصل کرچکا ہو، اس کو تابعی کبیر کہیں گے، بخلاف اس تابعی کے جس نے چھوٹے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  سے ملاقات کی ہو۔ (۳)
4- جس شخص کی اکثر روایات بلاواسطہ صحابہ کرامؓ سے ہوں، وہ تابعی کبیر ہے، نہ کہ وہ تابعی جس کی اکثر روایتیں حضرات تابعین سے ہوں۔ (۴)
5-  جس تابعی نے تمام ’’عشرہ مبشرہؓ‘‘ یا ان میں سے اکثر سے ملاقات کی ہو، وہ تابعی کبیر ہے، بخلاف اس تابعی کے جو ان میں سے کسی سے نہ ملا ہو، یا ایک دو سے ملاقات کی ہو۔ (۵)
ان تمام اقوال میں کوئی تضاد نہیں، لہٰذا ممکن ہے کہ کسی تابعی پر یہ تمام اقوال یا ان میں سے اکثر صادق آتے ہوں۔

کبار تابعین کی مراسیل کا مقبول ہونا

امام شافعیؒ، ان کے مقلدین اور متعدد حضراتِ محدثین مراسیلِ صحابہؓ اور چند شرائط کے ساتھ کبار تابعین کی مرسل روایات کے علاوہ کسی دوسرے تابعی وغیرہ کی مرسل روایت قبول نہیں کرتے، جبکہ احناف اور مالکیہ وغیرہ کے نزدیک تو مرسل روایت بعض شرطوں کے ساتھ مطلقاً قابلِ قبول ہے، اس اعتبار سے کبار تابعین کی مرسل روایت قبول کرنے پر اکثر اہلِ علم کا اتفاق ہوا، چنانچہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:
’’ومن نظر في العلم بخبرۃ وقلۃ غفلۃ، استوحش من مرسل کل من دون کبار التابعين‎۔‘‘ (۶)
ترجمہ: ’’جو شخص علم میں گہری نظر رکھتا ہوگا وہ کبار تابعین کے علاوہ تمام اشخاص کی مرسل روایت سے وحشت محسوس کرے گا۔‘‘
بلکہ کبار تابعین کے علاوہ دیگر حضرات کی مرسل روایت کے بارے میں امام شافعیؒ نے تو یہاں تک فرمایا ہے:
’’فأما من بعد کبار التابعين ۔ ۔ ۔ فلا أعلم منہم واحداً يقبل مرسلہٗ‎۔‘‘ (۷)
ترجمہ: ’’کبار تابعین کے بعد والے حضرات میں سے کسی ایک شخص کو بھی میں نہیں جانتا جس کی مرسل روایت قبول کی جائے۔‘‘
اس کی وجہ علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ  نے یہ بیان کی ہے کہ کبار تابعین جب مرسل روایت ذکر کرتے تو عام طور پر صحابیؓ کا واسطہ حذف ہوتا تھا، اور صحابیؓ کے علاوہ کسی دوسرے سے شاذ ونادر حدیث لیتے تو ثقہ سے ہی لیتے تھے، جبکہ یہ بات کبار تابعین کے علاوہ میں نہیں۔ علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ  کی عبارت ملاحظہ ہو:
’’وکبار التابعين قل أن يرسلوا عن رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم إلا عن صحابي، وإن اتفق غيرہٗ نادرا فعن ثقۃ‎۔‘‘ (۸)
’’کبار تابعین جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسل روایت ذکر کرتے تو عام طور پر صحابیؓ کا واسطہ حذف ہوتا تھا، اور صحابیؓ کے علاوہ کسی دوسرے سے شاذ ونادر حدیث لیتے تو ثقہ سے ہی لیتے تھے۔‘‘

مرسل روایت کی تعریف میں کبار تابعین کی شرط

کبار تابعین جب مرسل روایت ذکر کرتے تو عام طور پر صحابیؓ کا واسطہ حذف ہوتا تھا، اور صحابیؓ کے علاوہ کسی دوسرے سے شاذ ونادر حدیث لیتے تو ثقہ سے ہی لیتے تھے، جبکہ یہ بات کبار تابعین کے علاوہ میں نہیں۔ علامہ ابن ہمامؒ کی عبارت ملاحظہ ہو:
جمہور فقہاء ومحدثین کے نزدیک اگرچہ مرسل روایت کبار تابعین کے ساتھ خاص نہیں، لیکن اہلِ علم کی ایک جماعت ایسی بھی ہے جنہوں نے مرسل روایت کی تعریف میں کبار تابعین کی شرط لگائی ہے، یعنی اگر تابعی کبیر حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف حدیث منسوب کرکے بیان کرے گا تو اسے مرسل کہیں گے، کبار تابعین کے علاوہ اگر کسی دوسرے تابعی وغیرہ نے صحابیؓ کا واسطہ حذف کرکے روایت بیان کی تو اسے مرسل نہیں کہا جائے گا، چنانچہ علامہ ابنِ حجرؒ نے مرسل روایت کی ایک تعریف حسبِ ذیل ذکر کی ہے:
’’ہو ما أضافہ التابعي الکبير إلی النبي صلی اللہ عليہ وسلم فيخرج بذٰلک ما أضافہٗ صغار التابعين ومن بعدہم۔‘‘ (۹)
ترجمہ: ’’مرسل وہ روایت ہے جو تابعی کبیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کرکے بیان کرے، اس تعریف سے وہ روایت نکل جائے گی جو صغار تابعین یا ان کے بعد کے لوگ بیان کریں گے۔‘‘
اسی طرح حافظ ابنِ حجرؒ کے استاذ علامہ ابناسیؒ مرسل حدیث کی تعریف کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
’’وصورتہ التي لا خلاف فيہا حديث التابعي الکبير‎۔‘‘(۱۰)
یعنی ’’مرسل روایت کی متفقہ صورت تابعی کبیر کی حدیث ہے۔‘‘

کبار تابعین کی جہالت کا مضر نہ ہونا

حضراتِ محدثینؒ صحابیؓ کے علاوہ کسی دوسرے راوی کی جہالت کو اسبابِ طعن میں شمار کرتے ہیں، چنانچہ ان کے نزدیک حدیث کی صحت کے لیے راوی کا معلوم ومعروف ہونا ضروری ہے، البتہ کبار تابعین کو وہ اس سے مستثنیٰ کرتے ہیں کہ اگر کوئی راوی تابعی کبیر ہو تو اس کی جہالت صحتِ حدیث سے مانع نہیں ہوگی؛ کیونکہ ان پر صدق وعدالت جیسے اوصاف غالب تھے، جرح وطعن کے اسباب کم ہی پائے جاتے تھے، نیز اس حکم میں اوساطِ تابعین بھی ان کے ساتھ شریک ہیں۔ علامہ ذہبیؒ    تحریر فرماتے ہیں:
’’وأما المجہولون من الرواۃ، فإن کان الرجل من کبار التابعين أو أوساطہم احتمل حديثہ ‎۔‘‘ (۱۱)
یعنی ’’مجہول راوی اگر کبار تابعین یا اوساط میں سے ہو، اس کی حدیث (جہالت کے باوجود) قابلِ تحمل ہوگی، یعنی اسے لیا جائے گا۔‘‘

علمِ حدیث میں کبار تابعین کے تفردات مقبول ہونا

علمِ حدیث میں ’’تفرد‘‘ ایک خاص اصطلاح ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ کوئی روایت یا اس کا جزء صرف ایک فرد سے منقول ہو، تو چونکہ وہ روایت یا اس کا جزء صرف ایک ہی فرد نے بیان کیا ہے، دیگر ائمۂ فن نے ذکر نہیں کیا، لہٰذا اس میں ایک گونا شک واقع ہوگیا، اس لیے حضرات محدثین اس تفرد کے سلسلے میں یہ دیکھتے ہیں کہ وہ اس کا راوی کیسا ہے؟ اور وہ دوسرے حضرات کی روایت کے مخالف تو نہیں؟ لیکن اگر تفرد کبار تابعین سے صادر ہو تو اس صورت میں اسے قبول کیا جاتا ہے؛ کیونکہ اس زمانے میں اسناد زیادہ نہیں تھیں، اس لیے یہ عین ممکن تھا کہ کوئی روایت ایک راوی کو ملے، لیکن دوسرے حضرات کو نہ مل سکے۔ (۱۲)

کبار تابعین کے خصائص وامتیازات

اہلِ علم نے کبار تابعین کے بعض خصائص وامتیازات ذکر کیے ہیں جو دیگر حضرات تابعین اور بعد میں آنے والوں میں نہیں پائے گئے۔ ایک یہ کہ کبار تابعین میں وضع یعنی احادیث گھڑنے والے بہت کم، بلکہ نہ ہونے کے برابر تھے۔(۱۳) پھر بعد میں وضاع وکذاب لوگ ظاہر ہونے شروع ہوئے۔ دوسری یہ کہ کبار تابعین نے احادیث کی نشر واشاعت میں بالکل صحابہ کرامؓ کا سا منہج اپنایا، چنانچہ امام حاکم  ؒ فرماتے ہیں:
’’اتبع کبار التابعين الصحابۃ الکرامؓ في اہتمامہم بشأن الحديث ونشرہ بطريق الروايۃ‎۔‘‘ (۱۴)
ترجمہ: ’’کبار تابعین نے حدیث کے اہتمام اور روایت کے ذریعے اس کی نشر واشاعت میں صحابہ کرامؓ کی پیروی کی۔‘‘
اسی طرح اور بھی متعدد امور ہیں جن میں کبار تابعین دیگر لوگوں سے ممتاز ہیں۔

مشہور کبار تابعین

مدینہ منورہ کے فقہائے سبعہ کو کبار تابعین میں شمار کیا جاتا ہے، اور ان کے نام یہ ہیں: سعید بن المسیب، قاسم بن محمد، عروہ بن زبیر، خارجہ بن زید، ابوسلمہ بن عبد الرحمٰن، عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ، اور سلیمان بن یسار۔(۱۵) نیز حضرت قیس بن ابی حازمؒ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ حضرات تابعین میں ان کے علاوہ تمام عشرہ مبشرہ ؓسے روایت کرنے والا اور کوئی نہیں، چنانچہ علامہ زین الدین عراقی  ؒ تحریر فرماتے ہیں:
’’قيس بن أبي حازم سمع العشرۃ وروی عنہم، وليس في التابعين أحد روی عن العشرۃ سواہ‎۔‘‘ (۱۶)
ترجمہ: ’’قیس بن ابی حازم نے عشرہ مبشرہؓ سے سماع کیا ہے، اور تابعین میں ان کے علاوہ کوئی ایسا شخص نہیں جس نے ان تمام سے روایت کی ہو۔‘‘
خلاصہ یہ ہے کہ علومِ حدیث سے متعلق متعدد احکام ومصطلحات میں کبار تابعین کو خصوصی اہمیت اور حیثیت حاصل ہے، جس میں وہ دیگر تابعین اور رواۃِ حدیث سے ممتاز ہوتے ہیں، ان میں سے چند ایک مسائل اوپر ذکر کردیئے گئے ہیں۔ البتہ یہ بات ملحوظ رہے کہ بسااوقات اوساط، بلکہ صغار تابعین پر بھی کبار تابعین کا لفظ بولا جاتا ہے۔ (۱۷) اور اس صورت میں اصطلاحی ’’تابعی کبیر‘‘ مراد نہیں ہوتا، بلکہ لغت وغیرہ کے اعتبار سے کسی کا بلند مقام ومرتبہ ظاہر کرنے کی غرض سے اس کو کبار تابعین میں ذکر کیا جاتا ہے۔

حواشی وحوالہ جات

۱- نزہۃ النظر شرح نخبۃ الفکر لابن حجر، (ص:۱۳۶)، الناشر: قديمي کتب خانہ
۲- فتح المغيث بشرح ألفيۃ الحديث للسخاوي، (۱/۱۷۰)، الناشر: مکتبۃ السنۃ- مصر، ط:۱۴۲۴ھ- ۲۰۰۳م
۳- النکت علی کتاب ابن الصلاح لابن حجر، (۲/۵۶۳)، الناشر: عمادۃ البحث العلمي بالجامعۃ الإسلاميۃ- المدينۃ المنورۃ، ط:۱۴۰۴ھ- ۱۹۸۴م
۴- حاشيۃ العطار علی شرح الجلال المحلي علی جمع الجوامع للعطار، (۲/۲۰۳)، الناشر: دار الکتب العلميۃ، بيروت
۵- معرفۃ علوم الحديث للحاکم، النوع الرابع عشر، (ص:۸۸)، الناشر: دار إحياء التراث العربي، بيروت
۶- الرسالۃ للشافعي، (ص:۴۶۷)، الناشر: مکتبۃ الحلبي، مصر
۷- المصدر السابق، (ص:۴۶۵)
۸- فتح القدير لابن الہمام، (۴/۲۱۴)، الناشر: دار الفکر، بيروت
۹- النکت علی کتاب ابن الصلاح لابن حجر، (۲/۵۴۳)
۱۰-الشذا الفياح من علوم ابن الصلاح للأبناسي، (۱/۱۴۷)، الناشر: مکتبۃ الرشد- الرياض، ط:۱۴۱۸ھ- ۱۹۹۸م
۱۱- ديوان الضعفاء والمتروکين للذہبي، (ص: ۳۷۴)
۱۲- أثر اختلاف الأسانيد والمتون في اختلاف الفقہاء لماہر ياسين فحل، (ص:۹۳)، الناشر: دار الکتب العلميۃ- بيروت- والشاذ والمنکر وزيادۃ الثقۃ لأبي ذر عبد القادر المحمدي، (ص:۴۵)، الناشر: دار الکتب العلميۃ- بيروت، ط:۱۴۲۶ھ- ۲۰۰۵م
۱۳-السنۃ قبل التدوين، محمد عجاج الخطيب، (ص:۱۹۳)، الناشر: دار الفکر- بيروت، ط:۱۴۰۰ھ- ۱۹۸۰م
۱۴-معرفۃ علوم الحديث للحاکم، (ص:۱۴)
۱۵-معرفۃ أنواع علوم الحديث لابن الصلاح، (ص:۴۰۸)، الناشر: دار الکتب العلميۃ- بيروت، ط: ۱۴۲۳ھ- ۲۰۰۲م
۱۶-التقييد والإيضاح شرح مقدمۃ ابن الصلاح للعراقي، (ص:۳۲۰)، الناشر: المکتبۃ السلفيۃ، المدينۃ المنورۃ
۱۷- المفصل في علوم الحديث لعلي بن نايف الشحوذ، (۱/۲۸۷)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین