بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

بینات

 
 

کسٹم کا ضبط کردہ امپورٹڈ مال نیلام کرنا اور اُسے خریدنا

کسٹم کا ضبط کردہ امپورٹڈ مال نیلام کرنا اور اُسے خریدنا


کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
ایک بندہ باہر ممالک سے کنٹینر وغیرہ کے ذریعہ مالِ تجارت (سامان) منگواتا ہے، پاکستان آکر اس پر حکومت کی طرف سے ٹیکس لگتا ہے اور بسااوقات وہ ٹیکس بہت بھاری ہوتا ہے، جس کو تاجر ادا نہیں کرسکتے یا ادا نہیں کرتے۔ تو حکومت وہ مال اپنے پاس ٹیکس کی عدمِ ادائیگی کی وجہ سے روک لیتی ہے اور پھر حکومت کچھ عرصہ کے بعد وہ مالِ تجارت نیلام کردیتی ہے (یعنی پانچ یا چھ برس کے بعد)۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ : اس نیلام مال سے کسی دوسرے آدمی کے لیے مال خریدنا کیسا ہے؟ جواز اور عدمِ جواز کی صورت میں جواب عنایت فرماکر مشکور فرمائیں۔     المستفتی: صدیق الرحمٰن

الجواب حامداً ومصلیاً

حکومت نے اشیاء کی در آمد اور برآمد پر جو ٹیکس مقرر کر رکھا ہے، اس کو ’’کسٹم‘‘ کہتے ہیں، اور حکومت کسٹم نہ دینے کی صورت میں یا کسی اور وجہ سے جو امپورٹڈ مال ضبط کرکے نیلامی کرتی ہے، اس کو عرف میں ’’کسٹم کا مال‘‘ کہاجاتا ہے، اس کی تقریباً پانچ صورتیں ہیں:
1‎-جرمانہ کی صورت میں ضبط کیا ہوا مال
2‎-ڈیوٹی کا مال
3‎-ڈیمرج‎ ( Demurrage) ‎زیادہ لاگو ہونے کی وجہ سے چھوڑا گیا مال
4‎-رضامندی سے چھوڑا ہوا مال
5‎-لاوارث مال
ان پانچوں صورتوں کے مال کی خرید وفروخت کا حکم درج ذیل ہے‎:

1-جرمانہ کی صورت میں ضبط کیا ہوا مال‎

حکومت بعض اموال امپورٹر سے جرمانہ کے طور پر ضبط کرلیتی ہے، مثلًا‎:

۱- قانون کے خلاف مال آئے تو حکومت ضبط کرلیتی ہے۔

۲- بعض اوقات مخصوص مقدار تک سامان بیرون ممالک سے امپورٹ کرنے کی اجازت ہوتی ہے، اس سے زیادہ امپورٹ کرنے کی اجازت نہیں ہوتی، اگر کوئی امپورٹر اس مخصوص مقدار سے زائد مال لایا تو حکومت ایسا مال وسامان ضبط کرلیتی ہے۔
۳- بعض چیزیں امپورٹ کرنا قانونی اعتبار سے منع ہے، اگر کوئی امپورٹر ایسی ممنوع چیز لے کر آتا ہےتو حکومت ضبط کرلیتی ہے، ان صورتوں کے علاوہ مال ضبط کرنے کی اور بھی صورتیں ہوں گی۔
بہر حال امپورٹر کا مال ضبط کرنا اور اسے جرمانہ کے طور پر اپنی تحویل میں لینا جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ مالی جرمانہ لاگو کرنا شرعاً صحیح نہیں ہے، البتہ حکومت جائز قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کو سزا دے سکتی ہے، لہٰذا حکومت ایسا مال نیلام کرے تو معلوم ہونے کی صورت میں ایسا مال خریدنا اور بولی میں حصہ لینا جائز نہیں ہے۔

2‎-ڈیوٹی کا مال

ڈیوٹی سے مراد وہ مال ہے جو امپورٹر کو باہر ممالک سے قانونی طور پر منگوانے کی اجازت ہوتی ہے اور حکومت اس پر ڈیوٹی (ٹیکس) عائد کرتی ہے،اس میں سیلز ٹیکس اور دوسرے ٹیکسز شامل ہوتے ہیں ، بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ امپورٹر ٹیکس اور ڈیوٹی ادا نہیں کرتے، حکومت ان کو نوٹس دیتی ہے کہ اتنے دنوں تک اپنی ڈیوٹی ادا کرکے اپنا مال اُٹھالیں، ورنہ سارا مال ضبط کرلیا جائے گا، اس نوٹس کے بعد بعض لوگ ٹیکس اور ڈیوٹی ادا کرکے اپنا سامان اُٹھالیتے ہیں، بعض لوگ ڈیوٹی ادا نہیں کرتے اور مال وہیں چھوڑدیتے ہیں اور حکومت اس کو ضبط کرلیتی ہے، پھر اس کو فروخت کرکے اپنا ٹیکس وصول کرتی ہے، جان بوجھ کر ایسے مال کو خریدنے سے بھی بچنا چاہیے، اس لیے کہ اس کو بیچنے پر اصل مالک راضی نہیں ہے اور اصل مالک کی اجازت کے بغیر مال بیچنا جائز نہیں ہوتا۔

3-ڈیمرج‎ ( Demurrage) زیادہ لاگو ہونے کی وجہ سے چھوڑا گیا مال‎

امپورٹر جب باہر ممالک سے مال منگواتا ہے تو بعض اوقات ائیرپورٹ اور بندرگاہ وغیرہ سے بروقت مال کو کلیئر نہیں کیا جاتا اور اس کا ڈیمرج‎ ( Demurrage) ‎بڑھ جاتا ہے ، ڈیمرج کبھی مال کے برابر بلکہ اس سے بھی زیادہ بن جاتا ہے، ایسی صورت میں نوٹس دینے کے باجود امپورٹر مال کلیئر کرکے مال وصول نہیں کرتا، اور وہ گودام میں پڑا رہتا ہے، بعد میں کسٹم حکام ڈیمرج حاصل کرنے کے لیے اسے نیلام کردیتے ہیں۔ کسٹم حکام کے لیے ڈیمرج حاصل کرنا جائز ہے، کیوں کہ یہ اصل میں اس گودام یا جگہ کا کرایہ ہے جہاں مال رکھا گیا ہے، لہٰذا کسٹم والے ایسا مال نیلام کرکے ڈیمرج کی حد تک اپنا حقِ اُجرت وصول کرسکتے ہیں، اور کسٹم والوں سے ایسا مال خریدنا بھی جائز ہے، اگر ڈیمرج کی رقم سے زیادہ پر فروخت ہو تو کسٹم والوں پر بقیہ رقم اصل مالک یا اس کے ورثاء تک پہنچانا لازم ہوگا۔

4‎-رضامندی سے چھوڑا ہوا مال‎

بعض اوقات امپورٹر کسی خاص وجہ کی بنا پر اپنا درآمد کیا ہوا مال وصول نہیں کرتا، مثلاً: بعض اموال کو برآمد کرنے پر پابندی ہے اور بعض اموال کے برآمد کی اجازت ہے، مگر حکومت کی جانب سے ایک حد متعین ہے، لیکن کچھ امپورٹر اس طرح کا مال چھپا کر زیادہ لے آتے ہیں، اور ان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ اگر پکڑا گیا تو چھوڑدیں گے یا کچھ رقم دے کر چھڑالیں گے، لیکن ایسا آسان نہیں ہوتا۔ اور بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے سستا اور کم قیمت سامان منگوایا جاتا ہے، لیکن اس پر ڈیوٹی زیادہ لگتی ہے ، ڈیوٹی دے کر چھڑانے میں کوئی فائدہ نہیں ہوتا، لہٰذا ایسے مال کو پورٹ میں چھوڑدیا جاتا ہے ، کسٹم والوں کی طرف سے نوٹس بھی ملتا ہے، لیکن امپورٹر ایسے مال کو وصول نہیں کرتا تو ایسے مال کا حکم ’’لقطہ‘‘ کا ہے، کسٹم والوں کے لیے ایسے مال کو نیلام کرنا اور لوگوں کے لیے ایسے مال کو خریدنا جائز ہے، تاہم کسٹم والوں پر جگہ کی اُجرت وغیرہ نکال کر باقی رقم مالک کو واپس کردینا ضروری ہے۔

5‎-لاوارث مال‎

کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ کسٹم میں کسی نے مال بھیجا، لیکن بعد میں اس نے کسی وجہ سے مال وصول کرنے کے لیے رابطہ نہیں کیا اور کسٹم حکام بھی بعض دفعہ کسی وجہ سے رابطہ کرنے سے قاصر رہتے ہیں، ایسے مال کا حکم بھی ’’لقطہ‘‘ والا ہوگا، ایسی صورت میں کسٹم حکام جب تک ممکن ہو مالک کے آنے کا انتظار کریں اور اگر انہوں نے اتنی مدت تک انتظار کیا کہ مالک آنا چاہتا تو آسکتا، لیکن خود بھی نہیں آیا ، رابطہ بھی نہیں کیا، کسی وکیل اور نمائندہ کو بھی نہیں بھیجا تواس صورت میں مجبوراً کسٹم حکام اس مال کو فروخت کرسکتے ہیں اور لوگوں کے لیے ایسے مال کو خریدنا بھی جائز ہے، البتہ مال فروخت کرنے کے بعد جو رقم ملے گی وہ کسٹم حکام کے لیے حلال نہیں ہوگی، بلکہ مالک کے لیے محفوظ رکھنی ہوگی، اور فروخت کرنے کے بعد اگر مالک آجائے تو رقم اس کو دے دیں، ورنہ اس کی رقم لاوارث، ضرورت مند، غرباء اور فقراء پر صدقہ کردی جائے،یا ان کی ضروریات میں صرف کردی جائے۔
اور مذکورہ صورتوں میں اگر خریدار کو حکومت کی طرف سے نیلام کردہ سامان کے بارے میں اصل صورت حال کا یقینی علم نہ ہو تو چوں کہ اس میں یہ احتمال موجود ہے کہ ’’لقطہ‘‘ ہونے کی صورت میں متعلقہ ادارے نے اس کی تشہیر کرائی ہوگی اور مالک کو تلاش کیا ہوگا، اور مالک کے ملنے سے مایوسی کے بعد اس کو فروخت کیا جارہا ہے، یا یہ سامان کسی واجبی حق کی وصول یابی کے لیے نیلام کیا جارہا ہے، مثلاً حکومت یا اس کے متعلقہ ادارے کے پاس گروی رکھا ہوا سامان وغیرہ، یا ڈیمرج کی وصولی کے لیے فروخت کیا جار ہا ہے یا رضامندی سے چھوڑا ہوا مال ہے، (اور خریدار کو یقینی طور پر اس کا علم بھی نہیں ہے ) اور وہ یہ سامان خریدلے تو اس کی آمدنی کو ناجائز نہیں کہا جائے گا، البتہ ایسی صورت میں اس کے خریدنے سے اجتناب کرنا بہتر ہے۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں ٹیکس ادا نہ کرسکنے کی وجہ سے چھوڑے گئے مال کا حکم ’’لقطہ‘‘ کا ہے، لوگوں کے لیے ایسا مال خریدنا جائز ہے، تاہم کسٹم والوں پر جگہ کی اُجرت وغیرہ نکال کر باقی رقم مالک کو واپس کرنا ضروری ہے۔‎ ‎
السنن الکبری للبيہقي (۵/۳۳۵‎):
’’عَنْ اَبِيْ ہُرَيْرَۃَ عَنِ النَّبِيِّ -صلی اللہ عليہ وسلم- اَنَّہٗ قَالَ : ’’مَنِ اشْتَرٰی سَرِقَۃً وَہُوَ يَعْلَمُ اَنَّہَا سَرِقَۃٌ فَقَدْ اَشْرَکَ فِي عَارِہَا وَإِثْمِہَا‎ ۔‘‘ (‎کتاب البيوع،باب مبايعۃ من أکثر مالہ من الربا أو ثمن المحرم، ط:مجلس دائرۃ المعارف، ہند‎)
البحر الرائق شرح کنز الدقائق (۵/۱۷۰‎):
’’قولہٗ (وينتفع بہا لو فقيرًا وإلا تصدق علی اجنبيٍ ولأبويہ وزوجتہ وولدہ لو فقيرًا) أي ينتفع الملتقط باللقطۃ بأن يتملکہا بشرط کونہٖ فقيرًا نظرًا من الجانبين کما جاز الدفع إلی فقيرٍ آخر، وأما الغني فلا يجوز لہ الانتفاع بہا، فإن کان غير الملتقط فظاہرٌ للحديث، فإن لم يجيء صاحبہا فليتصدق بہا، والصدقۃ إنما تکون علی الفقير کالصدقۃ المفروضۃ وإن کان الملتقط فکذٰلک ۔۔۔۔۔ وإنما فسرنا الانتفاع بالتملک لأنہٗ ليس المراد الانتفاع بدونہ کالإباحۃ ولذا ملک بيعہا وصرف الثمن إلی نفسہٖ کما في الخانيۃ أطلق في عدم الانتفاع للغني، فشمل القرض، ولذا قال في فتح القدير: وليس للملتقط إذا کان غنيًا أن يتملکہا بطريق القرض إلا بإذن الإمام وإن کان فقيرًا فلہٗ أن يصرفہا إلٰی نفسہٖ صدقۃً لا قرضًا۔‘‘  (‎کتاب اللقطۃ، ط:دارالمعرفۃ، بيروت‎)
الدر المختار و حاشيتہ لابن عابدين (۵/۳۹۰‎):
’’قلت وسيجيء في الحجر أنہ يباع مالہ لدينہ عندہما وبہ يفتی وحينئذ فلا يتأبد حبسہ فتنبہ۔ قولہ ( وحينئذ فلا يتأبد حبسہ ) أي علی قولہما وکذا علی قولہ إن کان مالہ غير عقار ولا عرض بل کان من الأثمان ولو خلاف جنس الدين کما قدمناہ۔‘‘  (‎کتاب القضاء، فصل في الحبس، ط:سعيد‎)
حاشيۃ رد المحتار علی الدر المختار (۵/۳۸۷‎):
’’لا يبيع القاضي عرضہ ولا عقارہ للدين خلافا لہما وبہ أي بقولہما يبيعہما للدين يفتی اختيار وصححہ في تصحيح القدوري ويبيع کل ما لا يحتاجہ للحال اہـ۔‘‘  (‎کتاب القضاء،فصل في الحبس،مطلب في ملازمۃ المديون،ط:سعيد‎)
الدر المختار و حاشيتہ لابن عابدين(۵/۹۸‎):
’’‎وفيہ الحرام ينتقل، فلو دخل بأمان وأخذ مال حربي بلا رضاہ وأخرجہ إلينا ملکہ وصح بيعہ لکن لا يطيب لہ ولا للمشتري منہ۔ قولہ ( الحرام ينتقل ) أي تنتقل حرمتہ وإن تداولتہ الأيدي وتبدلت الأملاک ويأتي تمامہ قريبا قولہ‎ ( ‎ولاللمشتري منہ ) فيکون بشرائہ منہ مسيئا لأنہ ملکہ بکسب خبيث وفي شرائہ تقرير للخبث ويؤمر بما کان يؤمر بہ البائع من ردہ علی الحربي لأن وجوب الرد علی البائع إنما کان لمراعاۃ ملک الحربي ولأجل غدر الأمان وہذا المعنی قائم في ملک المشتري۔‘‘ (‎کتاب البيوع،باب البيع الفاسد، مطلب الحرمۃ تتعدد، ط:سعيد‎)

 

  

فقط واللہ اعلم

الجواب صحیح

الجواب صحیح

کتبہ

ابوبکر سعید الرحمٰن

محمد انعام الحق

عزیز محمود دین پوری

 

الجواب صحیح

 

دارالافتاء

محمد شفیق عارف

 

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن، کراچی

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین