بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

بینات

 
 

کمپنی سے کمیشن لینے کے لیے عمل اور عقد کی صورتیں

کمپنی سے کمیشن لینے کے لیے عمل اور عقد کی صورتیں


کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
کراچی میں چائنہ کی کمپنی ہے، وہ معدنیات وغیرہ خریدتی ہے، اس کے ایک ملازم سے میرا رابطہ ہے، وہ کہتا ہے کہ ہماری کمپنی کو فلاں چیز کی ہر مہینہ اتنے ہزار ٹن کی ضرورت ہے۔
1- میں بیچنے والی پارٹی سے بات کرتا ہوں کہ اس کمپنی کو ہر مہینے اتنے یا کم و بیش ٹن کی ضرورت رہتی ہے، اگر آپ ہر مہینے دے سکتے ہیں تو میں بات کروا دیتا ہوں۔ کمپنی کا ملازم مجھے کہتا ہے کہ بس آپ ہمارا رابطہ کروادیں، آپ کا کمیشن جو بنے گا آپ کو ملتا رہے گا۔ اب پو چھنا یہ ہے کہ مجھے ہر مہینہ نیا عقد کروانا پڑے گا یا شروع میں بات کی ہوئی کافی رہے گی؟ کمپنی سے اس صورت میں کمیشن لینے کی جائز صورت کیاہوگی؟ 
2- بائع کے پاس معدنیات کا پہاڑ ہے، میں ان سے کہتا ہوں کہ اس کمپنی کو اتنے ہزار ٹن کی ہر ہفتے یا ہر مہینے ضرورت ہے، آپ نکال کے دیتے آئیں، کیا اس صورت میں بھی ہر دفعہ نیا عقد کرواناپڑے گا ؟ اس صورت میں کمیشن لینے کی جائز صورت کیا ہو گی ؟
3- بائع سے رابطہ کروادینے کی صورت میں کمپنی ملازم سے کچھ طے نہ کروں، وہ اپنی خوشی سے جتنا بھی کمیشن دیتا ہے میں اس پر خوش رہوں، کیا اس صورت میں میرا کمیشن لینا درست ہے ؟
4- میں بائع اور مشتری کے درمیان ایک تیسرے آدمی سے بات کرتا ہوں کہ اس کمپنی کو فلاں چیز ہر مہینے اتنی ضرورت ہے، آپ فلاں بائع سے لیں اور اس کمپنی تک پہنچائیں، جو کمیشن بنے اس کا ایک حصہ مجھے دیں، کیا اس صورت میں بھی مجھے ہر دفعہ عقد کروانا پڑے گا یا ایک دفعہ عقد کروانا کافی ہوگا؟
 مہربانی فرما کر میرے ان سوالوں کا جواب شریعت کی روشنی میں عنایت فرمائیں۔ جو جواز کی صورت ہو وہ مجھے بتادیں، تاکہ میں حرام مال سے بیچ جاؤں۔ شکریہ                            مستفتی: شفیق، جہلم 

الجواب حامدًا ومصلیًا

1 ، 2 -  صورتِ مسئولہ میں سائل کا بائع (بیچنے والے) یا مشتری (خریدنے والے) یا دونوں کی طرف سے دلال (ایجنٹ) بننا جائز ہے، اور بائع اور مشتری کے درمیان رابطہ اور خرید و فروخت کرانے کی وجہ سے متعین اُجرت لینا بھی جائز ہے، البتہ سوالنامے کے مطابق رابطہ کرانے کا عمل صرف پہلی خرید و فروخت میں پایا جا رہا ہے، لہٰذا دلال (ایجنٹ) پہلی مرتبہ کمیشن لینے کا حقدار ہو گا، بعد والے مہینے کی خرید و فروخت پر کمیشن اور اُجرت لینے کا حق نہیں ہو گا، کیونکہ اُجرت منفعت یا پھر عمل کے بدلے میں ہوسکتی ہے ، جبکہ پہلی مرتبہ کے علاوہ خرید و فروخت میں دلال (ایجنٹ) کی کوئی محنت (رہنمائی) یا عمل نہیں پایا جا رہا ہے، البتہ ایسی صورت میں کمیشن لینے کی جائز صورت یہ ہے کہ ہر مہینے میں دلالی کا نیا عقد کیا جائے، اس کے بعد دلالی کرنے پر ہر مہینے کا گمیشن اور اجرت لینا جائز ہو گا یا یہ کہ سائل مستقل طور پر کمپنی یا خریدار پارٹی کی طرف سے اس طرح کی خدمات کے لیے مستقل ملازمت اختیار کرلے۔
’’فتاویٰ شامی‘‘ میں ہے:
’’قال فی البزازیۃ: إجارۃ السمسار والمنادی والحمامي والصکاک وما لا يقدر فیہ الوقت ولا العمل تجوز بما کان للناس بہ حاجۃ ویطيب الأجر لو قدر أجر المثل۔‘‘ (باب الإجارۃ الفاسدۃ ، کتاب الإجارۃ، ص: ۴۷ ۱، المجلد السادس، ایچ ایم سعید )
’’فتاویٰ شامی‘‘ میں ہے:
’’وفي الحاوي: سئل محمد بن مسلمۃ عن أجرۃ السمسار فقال: إنہ لا بأس بہ وإن کان في الأصل فاسداً لکثرۃ  التعامل۔‘‘ (مطلب في أجرۃ الدلال، کتاب الإجارۃ، ص: ۶۳، المجلد السادس، ایچ ایم سعید )
’’الدر المختار‘‘ میں ہے:
’’وأما الدلال فإن باع العين بنفسہٖ بإذن ربہا فأجرتہٗ علی البائع وإن سعی بينہما وباع المالک بنفسہ یعتبر۔‘‘ (فصل فیماید خل في البيع تبعاً و مالا يدخل، کتاب البيوع، ص: ۵۴۷، المجلد الرابع، ایچ ایم سعید )
’’ہدایہ‘‘ میں ہے:
’’قال: الأجرۃ لا تجب بالعقد وتستحق بإحدی معان ثلاثۃ، إما بشرط التعجيل أو بالتعجيل من غير شرط أو باستيفاء المعقود عليہ۔‘‘ ( باب الأجر متی يستحق، کتاب الإجارات، ص: ۲۹۷، المجلد الثالث، مکتبہ رحمانیہ )
3- اوپر لکھا گیا ہے کہ صرف پہلی مرتبہ بروکری لینا جائز ہو گا، اس بروکری کا متعین کرنا بھی ضروری ہے۔
’’تنویر الأبصار مع الدر المختار‘‘ میں ہے: 
’’(تفسد الإجارۃ بالشروط المخالفۃ لمقتضی العقد فکل ما أفسد البيع) مما مر (يفسدہا) کجہالۃ مأجور أو أجرۃ أو مدۃ أو عمل۔‘‘ ( باب الإجارۃ الفاسدۃ، ص: ۴۶، المجلد السادس، ایچ ایم سعید )
’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ میں ہے:
’’دفع ثوبا إلیہ وقال: بع بعشرۃ، فما زاد، فہو بيني وبينک وقال أبو یوسف رحمہ اللہ: إن باعہ بعشرۃ أو لم يبع فلا أجر لہ وإن تعب لہ فی ذلک، ولو باعہ باثني عشر أو أکثر فلہ أجر مثل عملہ وعلیہ الفتوی۔‘‘ (الفصل الرابع في فساد الإجارۃ إذا کان المستأجر مشغولا بغيرہ، کتاب الإجارۃ، ص: ۴۵۱، المجلد الرابع، مکتبہ رشیدیہ)
4- بائع اور مشتری کے درمیان تیسرے آدمی کی رہنمائی اور دلالی کرنے کی اُجرت لینا جائز ہے، جب کہ اس کی رہنمائی کے نتیجے میں خرید و فروخت پائی گئی ہو، اس کے بعد اگر دونوں پارٹیاں اپنے طور پر خرید و فروخت کا معاملہ کریں تو پہلی مرتبہ دلالی کرنے والے کو بعد کے معاملات کی اُجرت نہیں ملے گی، اس لیے کہ اس خرید و فروخت میں اس کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔
’’ہدایہ‘‘ میں ہے:
’’قال: الأجرۃ لا تجب بالعقد وتستحق بإحدی معان ثلاثۃ: إما بشرط التعجيل أو بالتعجيل من غير شرط أو باستيفاء المعقود عليہ۔‘‘ ( باب الأجر متی يستحق، کتاب الإجارات، ص:۲۹۷، المجلد الثالث، مکتبہ رحمانیہ)
 

ــــ فقط واللہ اعلم ـــــ
فتویٰ نمبر :  18126-1442ھ                                     دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین