بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

بینات

 
 

یہودیوں کے عرج وزوال کی مختصر تاریخ قرآنِ کریم کی روشنی میں

یہودیوں کے عرج وزوال کی مختصر تاریخ

قرآنِ کریم کی روشنی میں


سورۂ بنی اسرائیل کے پہلے رکوع میں اللہ تعالیٰ نے یہودیت کے زوال کی اَلم ناک تاریخ بیان کی ہے، اس سے قبل ’’سورۃ البقرۃ‘‘ میں ان کے جرائم اور اعمالِ بد کی بدولت انہیں قیامت تک کےلیے ذلت ومسکنت کا امتیازی تمغہ بھی دیا جا چکا ہے: ’’وَضُرِبَتْ عَلَيْہِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ‘‘ (البقرۃ: ۶۱)

قرآن کریم بحیثیت معتبر تاریخی دستاویز

ویسے تو قرآن کریم کا اصل موضوع حضرت اقدس حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کے بقول ’’تہذیبِ اخلاق ‘‘ہے، لیکن حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے ’’الفوز الکبیر‘‘ میں مضامینِ قرآن کریم کی جو تقسیم فرمائی ہے، وہ بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے، ان مضامین میں سے ایک اہم مضمون ’’تذکیر بأیام اللہ‘‘ ہے، جس کے تحت گزشتہ انبیاء  علیہم الصلوٰۃ والسلام کے قصص اور مختلف قوموں کے عروج و زوال اوررفعت و پستی کو زیرِ بحث لایا گیا ہے۔ اس ’’تذکیر بأیام اللہ‘‘ کو آسان لفظوں میں قوموں کے عروج وزوال کی داستان اور تاریخ سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے، اس لیے یہ کہنا بجا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم میں بنی اسرائیل کی مکمل تاریخ بیان فرمائی ہے، لیکن چوں کہ قرآن کریم کا مقصد صرف قصے اور کہانیاں نہیں کہ انہیں ایک ہی جگہ زمانے کی ترتیب کے ساتھ بیان کیا جائے، بلکہ جہاں تاریخ کے جس پہلو کو اُجاگر کرنا ضروری ہوا، وہاں اس پہلو کو ذکر فرمادیا گیا ہے، لیکن اگر کوئی قرآن کریم کو اس پہلو سے پڑھتا ہے کہ اس میں جو تاریخ بیان کی گئی ہے، اس میں غور وفکر کرے، تو وہ بلاخوف وتردید اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ قرآن کریم قوموں کے عروج وزوال کے حوالہ سے کائنات کا سب سے معتبرترین اور مؤثر ترین تاریخی ذخیرہ ہے، کیوں کہ اس میں نہ مؤرخ کے جذبات و افکار کا دخل ہے، نہ اس کے عقائد ونظریات کی جانب داری، اور نہ ہی روایت کے سقم و ضعف کا کوئی امکان، مزید یہ کہ اس میں صرف قوموں کی نری تاریخ نہیں، بلکہ ان کے عروج وزوال کے ظاہری اور باطنی اسباب بھی بیان کیے گئے ہیں، اور ان کی خطاؤں اور لغزشوں کی نشاندہی کر کے آئندہ کے لیے اصلاحی امور کی طرف راہنمائی بھی کی گئی ہے۔
 

یہودیوں کے عروج کی تاریخ، قرآن کریم کی روشنی میں 

سورۂ بنی اسرائیل میں یہودیوں کے زوال کی جو تاریخ بیان کی گئی ہے، اس سے اس بات کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے کہ ان پر عروج کا بھی ایک زمانہ گزرا ہے، قرآن کریم نے جس طرح ان کے زوال کی تاریخ بیان کی ہے، اسی طرح ان کے عروج کو بھی ذکر فرمایا ہے، چنانچہ قرآن کریم کی رو سے یہودیوں کے عروج کا زمانہ حضرت طالوت کے جہاد سے شروع ہوتا ہے، جس میں حضرت داود  اپنی کمسنی، اور کم عمری کے باجود جالوت کا کام تمام کر دیتے ہیں، سورۃ البقرۃ (آیت نمبر: ۲۴۶ تا ۲۵۲) میں اس کا تفصیلی تذکرہ موجود ہے۔ بعد ازاں حضرت داود  علیہ الصلوٰۃ والسلام  نے ملک شام میں اپنی سلطنت کا اعلان کیا۔ آپ  علیہ الصلوٰۃ والسلام ، انبیاء B کی تاریخ کے سب سے پہلے بادشاہ نبی تھے، اور بادشاہ کو نظامِ سلطنت چلانے کے لیے دو چیزیں بہت زیادہ درکار ہوتی ہیں: ایک علم وحکمت اورفہم و فراست، اور دوسری حفاظتی، اور دفاعی قوت۔ پہلی چیز تو نبوت کی وجہ سے مل گئی:
’’وَاٰتٰــہُ اللہُ الْمُلْکَ وَالْحِکْمَۃَ وَعَلَّمَہٗ مِمَّا يَشَاءُ‘‘   ( البقرۃ: ۲۵۱)
’’اور ان کو (یعنی داؤد کو) اللہ تعالیٰ نے سلطنت اور حکمت عطا فرمائی اور بھی جو جو منظور ہوا ان کو تعلیم فرمایا ۔‘‘
اور دوسری چیز کا انتظام اللہ تعالیٰ نے اس طرح فرمایا کہ لوہا ان کے لیے پگھلا دیا:
’’وَاَلَنَّا لَہُ الْحَدِيْدَ اَنِ اعْمَلْ سٰبِغٰتٍ وَّقَدِّرْ فِي السَّرْدِ‘‘    (سبا:۱۰، ۱۱)
’’ اور ہم نے ان کے واسطے لوہے کو (مثل موم) نرم کردیا، اور (یہ حکم دیا کہ) تم پوری زرہیں بناؤ اور (کڑیوں کے) جوڑنے کے انداز رکھو۔‘‘
اب وہ لوہے کے ذریعے جو دفاعی قوت بنانا چاہتے، بناسکتے تھے، چناں چہ زرہیں، تلواریں، اور اس وقت کے دیگر آلاتِ حرب بنانا ان کے لیے آسان ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے لوہے کی تخلیق کابنیادی مقصد ہی جنگی طاقت وقوت مضبوط کرنا بتایا ہے، تاکہ اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں کے دین کی حفاظت و نصرت کی جائے:
’’وَاَنْزَلْنَا الْحَدِيْدَ فِيْہِ بَاْسٌ شَدِيْدٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ لِيَعْلَمَ اللہُ مَنْ يَّنْصُرُہٗ وَرُسُلَہٗ بِالْغَيْبِ اِنَّ اللہَ قَوِيٌّ عَزِيْزٌ۔‘‘    (الحدید: ۲۵)
’’ اور ہم نے لوہے کو پیدا کیا، جس میں شدید ہیبت ہے اور (اس کے علاوہ) لوگوں کے اور بھی طرح طرح کے فائدے ہیں اور (اس لیے لوہا پیدا کیا) تاکہ اللہ جان لے کہ بےدیکھے اس کی اور اس کے رسولوں کی (یعنی دین کی) کون مدد کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قوی اور زبردست ہے۔ ‘‘
قصہ مختصر یہ کہ حضرت داود  علیہ الصلوٰۃ والسلام  کی وجہ سے بنی اسرائیل کو شان وشوکت اور حکومت ملی، لیکن انہوں نے اپنے اس محسن کے ساتھ کیا کیا؟ اس کا اندازہ سورۃ المائدۃ کی صرف اس آیت سے لگایا جا سکتا ہے:
’’لُعِنَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا مِنْۢ بَنِيْٓ اِسْرَاءِيْلَ عَلٰي لِسَانِ دَاوٗدَ‘‘   ( المائدۃ: ۷۸)
’’ بنی اسرائیل میں جو لوگ کافر تھے ان پر لعنت کی گئی تھی داؤد اور عیسیٰ ابن مریم کی زبان سے۔‘‘
حضرت داود  علیہ الصلوٰۃ والسلام  کے بعد حضرت سلیمان  علیہ الصلوٰۃ والسلام  نبوت وحکومت سے سرفراز فرمائے گئے، علم وحکمت، فہم وفراست، آلاتِ حرب وجنگ اورسلطنت کی وسعت میں یہ اپنے والد سے بھی بڑھ گئے، لوہے کی مصنوعات کی فراوانی کے بعد تانبہ کا چشمہ بھی ان کی دسترس میں آگیا، جس سے مزید جہادی اور جنگی قوت میں اضافہ ہوا:’’وَاَسَلْنَا لَہٗ عَيْنَ الْقِطْرِ‘‘(سبا:۱۲)’’ اور ہم نے ان (سلیمان علیہ السلام) کے لیے تانبے کا چشمہ بہا دیا ۔‘‘
جس کے نتیجہ میں ان کی حکومت زمین میں وسیع پیمانے پر پھیل گئی، انسانی افواج کے ساتھ ساتھ جنات اور چرند پرند بھی ان کے لشکر کا حصہ بن گئے، اس زمانے کے عظیم تخت کی مالکہ، ’’ ملکہ بلقیس‘‘ بھی ان کے ماتحت ہوگئی، جس کی روداد سورۃ النمل ( آیت نمبر:۲۲تا ۴۴) میں شاندار انداز میں بیان کی گئی ہے۔

یہودیت کے زوال کی الم ناک تاریخ

اس عروج کے بعد یہودی انبیاء  علیہم السلام کی وراثت پامال کرنے میں مصروف ہوگئے، پہلے آپس میں جھگڑ کر سلطنتِ سلیمانی کو تقسیم کیا، بعد ازاں اپنے مصلحین اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے انبیاء علیہم السلام  کا قتل شروع کیا۔ توراۃ کے احکامات کو پسِ پشت ڈال دیا، تب اللہ تعالیٰ نے ان کی بیخ کنی کا اعلان فرمایا، اور ان کے متعلق پہلے سے یہ فیصلہ سنادیا:
’’وَ قَضَيْنَآ اِلٰی بَنِيْٓ اِسْرَاءِيْلَ فِي الْکِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِي الْاَرْضِ مَرَّتَيْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا کَبِيْرًا‘‘   (الاسراء: ۴)
’’ اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں یہ بات بطور (پیشن گوئی) بتلا دی تھی کہ تم سر زمین (شام) میں دو بار خرابی کرو گے (ف ٨) اور بڑا زور چلانے لگو گے۔ ‘‘
اس آیتِ کریمہ میں اُن کے زوال کے دو دوروں کی طرف اشارہ ہے، چنانچہ ان کے اعمالِ بد، خواہشاتِ نفسانیہ، قتلِ انبیاء B کے نتیجہ میں پہلے دور میں اللہ تعالیٰ نے عراقی باد شاہ ’’بخت نصر‘‘ کو ان پر مسلط کیا، قرآن کریم نے اس کا نقشہ یوں کھینچا ہے:
’’فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ اُوْلٰىہُمَا بَعَثْنَا عَلَیْکُمْ عِبَادًا لَّنَآ اُولِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ فَجَاسُوْا خِلٰلَ الدِّیَارِ۝۰ۭ وَکَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلًا‘‘    (الاسراء: ۵)
’’ پھر جب ان دو بار میں سے پہلی بار کی میعاد آوے گی، ہم تم پر اپنے ایسے بندوں کو مسلط کریں گے جو بڑے جنگ جو ہوں گے، پھر وہ گھروں میں گھس پڑیں گے اور یہ ایک وعدہ ہے جو ضرور ہو کر رہے گا۔ ‘‘
اس تسلط سے ان کی نسلیں اُجڑ گئیں، گھر تباہ ہوگئے، بیت المقدس ویران ہوگیا، ہیکلِ سلیمانی کی عمارت کو منہدم کردیا گیا، باقی ماندہ لو گ ستر سال تک عراق میں غلامی کی زندگی گزارنے مجبور ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں پھر قوت وطاقت ملی، ایک بار پھر عراق سے شام کی طرف آئے، اپنی نسلیں آباد کرنے لگے، اور مال ومتاع میں بھی اضافہ ہوگیا۔اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ  علیہ الصلوٰۃ والسلام  کو ان کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا، لیکن یہ اپنی پرانی روش پر چل پڑے۔ حضرت عیسیٰ  علیہ الصلوٰۃ والسلام  کو قتل کرنے کی سازشیں کرنے لگے، بزعمِ خود یہ انہیں شہیدبھی کر چکے، جس کی پاداش میں دوسری بار پھر زوال کی تاریخ دُہرائی گئی، اس مرتبہ کا زوال پہلے سے بھی سخت تھا، روم کا باد شاہ طیطوس ان پر مسلط ہوا، جس کی روداد قرآن کریم میں عجیب انداز میں سنائی گئی ہے:
’’فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ لِيَسُوْۗءٗا وُجُوْہَکُمْ وَلِيَدْخُلُوْا الْمَسْجِدَ کَـمَا دَخَلُوْہُ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّلِــيُتَبِّرُوْا مَا عَلَوْا تَتْبِيْرًا‘‘   (الاسراء: ۷)
 ’’ اگر اچھے کام کرتے رہو گے تو اپنے ہی نفع کے لیے اچھے کام کرو گے اور اگر (پھر) تم برے کام کرو گے تو بھی اپنے ہی لیے، پھر جب پچھلی بار کی میعاد آوے گی، ہم پھر دوسروں کو مسلط کردیں گے، تاکہ (مار مار کر) تمہارے منہ بگاڑدیں اور جس طرح وہ لوگ مسجد (بیت المقدس) میں گھسے تھے، یہ لوگ بھی اس میں گھس پڑیں اور جس جس پر ان کا زور چلے سب کو برباد کر ڈالیں۔‘‘
اس عروج وزوال کی تاریخ اور اس کے اسباب و پسِ منظر اور یہودیوں کی فطرتی بدعادات واطوار کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان پر قیامت تک کے لیے ایک مہر ثبت کردی، اورتاقیامت ان کے لیے فیصلہ کن جملہ قرآن کریم کا حصہ بنادیا:
’’وَ اِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا‘‘  (بنی اسرائیل: ۸)
’’ اور اگر تم پھر وہی (شرارت) کرو گے تو ہم بھی پھر وہی کریں گے ۔‘‘
یہ فیصلہ کن جملہ ان کے ماضی کی سیاہ تاریخ، حال کی رسوائی اور مستقبل کی ترجمانی کررہا ہے، اور کرتا رہے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ، واللہ اعلم بالصواب!

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین