بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1446ھ 17 اپریل 2025 ء

بینات

 
 

۲۶ ویں آئینی ترمیم  ۔۔۔ ایک اہم پیش رفت

۲۶ ویں آئینی ترمیم  ۔۔۔ ایک اہم پیش رفت

 

۲۱؍ اکتوبر ۲۰۲۴ءکو پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ۲۶ ویں آئینی ترمیم پیش کی گئی، جو عدلیہ میں اصلاحات سے متعلق تھی، لیکن اسی کے ضمن میں جمعیت علمائے اسلام نے اپنی چند ترمیمیں بھی شامل کیں جو بحمداللہ !دو تہائی اکثریت سے منظور ہو گئی ہیں ۔ دینی مدارس کو اپنی رجسٹریشن کے حوالے سے کافی مشکلات کا سامنا رہا ہے، حکومت اور متعلقہ ادارے اس حوالے سے مدارسِ دینیہ کو ہمیشہ دباؤ میں رکھنے کی کوشش کرتے رہے ہیں ۔ اتحاد تنظیمات مدارسِ دینیہ اس مشکل کو حل کرنے کی کوشش میں مستقل لگا رہا۔ پی ڈی ایم دورِ حکومت میں بھی اس حوالے سے مذاکرات ہوئے، ان مذاکرات میں اس وقت کے وزیر تعلیم، وزیر داخلہ اور دیگر متعلقہ وزارتوں اور محکموں کے نمائندے موجود تھے، وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک مسودے کی منظوری دی اور حکم جاری کیا تھا کہ اس کے مطابق مدارس کو رجسٹریشن کا اختیار دے دیا جائے ۔ اس میں دونوں باتوں کا اختیار تھا، ایک یہ کہ مدارس چاہیں تو اپنے آپ کو ۱۸۶۰ ء کے سیکشن ۲۱کے تحت رجسٹرڈ کرالیں، اور اگرچاہیں تو وزارت تعلیم میں خود کو رجسٹرڈ کرالیں ۔ اس سے پہلے بھی مدارس کو اختیار رہا کہ چاہیں تو سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہوں، چاہیں تو ٹرسٹ کے قانون کے تحت رجسٹرڈ ہوں ۔ لیکن وزیر اعظم کی ہدایات کے باوجود اس پر عمل در آمد نہیں ہوا۔پھر پی ڈی ایم حکومت کے آخری دورمیں صدر اتحادِ تنظیماتِ مدارسِ دینیہ حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ اور مولاناقاری محمد حنیف جالندھری مدظلہ کی اس وقت کے حکومتی ذمہ داران کے علاوہ موجودہ آرمی چیف صاحب سےبھی ملاقاتیں ہو ئیں۔ وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف سے قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن دامت برکاتہم مسلسل رابطے میں رہے، ان مذاکرات اور رابطوں کے نتیجے میں ایک مسودے پر اتفاق بھی ہو گیا، اسے خواندگی کے لیے قومی اسمبلی میں بھی پیش کردیا گیا، تاکہ یہ با قاعدہ قانون بن جائے، لیکن اچانک اس پر عمل درآمد روک دیا گیا۔آج بحمداللہ!قائدِ جمعیت دامت برکاتہم کی کوششوںاور اکابرینِ وفاق کی دعاؤں سے دینی مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے قانونی ترمیم کو ۲۶ویں آئینی ترمیم کا حصہ بنا دیا گیا ہے،جو سینٹ اور قومی اسمبلی سے پاس ہوکر اب آئین ِ پاکستان کا حصہ بن گیا ہے ۔
اس کے علاوہ وفاقی شرعی عدالت سے متعلق یہ قانون سازی ہوئی ہے کہ اب وفاقی شرعی عدالت کا اپنا جج بھی، جب کہ وہ سپریم کورٹ کا جج بننے کی اہلیت رکھتا ہو، وفاقی شرعی عدالت کا چیف جسٹس بن سکتا ہے، جب کہ اس سے پہلے سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کا ریٹائرڈ جج ہی وفاقی شرعی عدالت کا جج بن سکتا تھا ۔نیز وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اگر اپیل کی جائے گی تو بارہ ماہ گزرنے کے بعد وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ از خود نافذالعمل ہو جائے گا، بشرطیکہ اس مدت میں سپریم کورٹ اُسے باقاعدہ معطل نہ کرچکی ہو، یعنی پہلے کی طرح محض اپیل سے حکمِ امتناعی نہیں مل سکے گا، جب تک کہ باقاعدہ سماعت کے بعد سپریم کورٹ حکمِ امتناعی جاری نہ کردے۔ نیز اسلامی نظریاتی کونسل ؛ جس کا بنیادی کام قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنا ہے، اس کی رپورٹیں تقریباً تمام قوانین کے حوالہ سے آچکی ہیں، لیکن وہ تمام رپورٹیں اب تک نظر انداز کی جاتی رہیں، اب آئین میں یہ ترمیم شامل کر دی گئی ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارش ایوان میں آ جانے کے بارہ ماہ بعد از خود حتمی تصور ہوگی، جب تک کہ بحث کر کے ایوان اُسے مسترد نہ کر دے۔ نیز قانون ساز ایوان کے ارکان اگر کوئی مجوزہ قانون اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجنا چاہیں تو اس کےلیے چالیس فیصد کی بجائے اب پچیس فی صد ارکان کی تائید درکار ہو گی۔ اسی طرح سود کہ جس کا معاملہ ۳۸  سال تک عدالتوں میں لٹکا ہوا تھا، اب سود کے خاتمے کی آخری تاریخ جو وفاقی شرعی عدالت نے مقرر کی تھی، اسے آئین میں شامل کر دیا گیا ہےکہ یکم جنوری ۲۰۲۸ء کے بعد ملک میں سودی نظام خلافِ قانون ہوگا۔ اس کی اہمیت یہ ہے کہ جب دستور میں کوئی چیز لکھی ہو تو دستور کےخلاف کوئی حکومت نہیں جاسکتی، لہٰذا ہر حکومت اس پر عمل کرنے کی پابند ہے ۔
بلاشبہ ! یہ بہت اہم پیش رفت ہے اور یقیناً اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت کے بغیر یہ ممکن نہیں تھا ! خود قائدِ جمعیت نے بھی فرمایا کہ پچھلے دور میں جب ہم عددی اکثریت رکھتے تھے اور حکومت کا بھی حصہ تھے، تب تو یہ ترمیمیں منظور نہیں کروا سکے تھے، لیکن اب جب کہ حزبِ اختلاف میں ہونے کے باوجود اور کم تعداد کے ساتھ یہ کامیابی نصیب ہوئی ہے، تو یہ محض اللہ تعالیٰ کا کرم و احسان، ہمارے اکابر کی دعاؤں اور توجہات کا اثر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری کوششوں اور جدوجہد کو ثَمروَر بنایا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اکابر خصوصاً حضرت مولانا فضل الرحمٰن دامت برکاتہم کی اس محنت، جدوجہد اور کوشش کو قبول فرمائے، ان کو صحت و عافیت کے ساتھ نوازے، ان کی سیادت و قیادت سے اہالیانِ پاکستان کے ساتھ ساتھ پوری اُمتِ مسلمہ کو فیض یاب و کامران فرمائے، آمین !
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین