اسلام میں نفع رکھنے کی کیا حد ہے؟
عمومی اشیاء اور عمومی حالات میں کسی چیز کو خریدنے کے بعد آگے فروخت پر نفع کی کوئی مقدار شرعاً متعین نہیں ہے۔
البتہ خوراک اور غذائی اجناس کی اگر قلت ہو تو بحرانی حالت میں ذخیرہ اندوزی کی طرح، اناج وغیرہ کو مارکیٹ ریٹ کے اوپر آدھے سے زیادہ نفع پر بیچنا جائز نہیں ہوگا، مثلاً: مارکیٹ میں جو چیز سو روپے کی ہو اسے ایک سو پچاس یا اس سے زیادہ کا بیچنا درست نہیں ہوگا، بلکہ اس حالت میں مارکیٹ ریٹ یا ہوسکے تو اس سے بھی کم نفع پر فروخت کرنے کو شریعت نے پسند کیاہے۔ حدیثِ مبارک کا مفہوم ہے: بدترین بندہ ہے ذخیرہ اندوز، اگر اللہ تعالیٰ نرخ ارزاں کردے تو غمگین ہوتا ہے، اور اگر نرخ گراں کردے تو خوش ہوجاتاہے۔ شدید غذائی بحران کی حالت میں حاکمِ وقت کو انصاف مدِّ نظر رکھتے ہوئے نرخ متعین کرنے کا بھی حق ہے۔
بہرحال اگر غذا کا بحران نہ ہو یا ایسی اشیاء جن پر زندگی کا گزران اور مدار نہ ہو، ان کی فروخت میں نفع کی کوئی حد مقرر نہیں ہے، تاہم حرص وہوس شریعت میں ایک ناپسندیدہ خلق (وصف) ہے، دنیا کی محبت اور لالچ دل کے گناہ ہیں، اس لیے عمومی احوال میں بھی مارکیٹ ریٹ یا اس سے کسی قدر کمی بیشی کے ساتھ اشیاء فروخت کرنی چاہییں۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144107200829
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن