بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

کلائی میں دھاگہ، کڑا یا زنجیر وغیرہ باندھنا


سوال

آج کل بہت سارے مسلم نوجوان کلائی پر کالا دھاگا پہنتے ہیں، کوئی ہرا دھاگا تو کوئی لال دھاگا بھی پہنتا ہے، اس کا کیا حکم ہے؟

نیز بعض لوگ کلائی پر زنجیر یا کڑا پہنتے ہیں، اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

1: ہاتھ میں دھاگہ  یازنجیر باندھنا  اگر کسی نفع کی امید یا نقصان سے بچاؤ کی نیت وعقیدہ سے ہو تو  اس عقیدہ کے ساتھ ہاتھوں میں دھاگہ یا زنجیر کا باندھنا درست نہیں ؛  اس لیے کہ  نفع ونقصان پہنچانے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے ، اللہ ہی بھلائیاں عطا کرتے ہیں اور مصیبتوں سے بچاتے ہیں ،بلکہ بعض فقہاء نے تو اسے افعالِ کفر میں شمار کیا ہے ، زمانہ جاہلیت میں لوگ گردن میں یا ہاتھ میں اپنے عقیدہ کے مطابق خود کو مصیبت سے بچانے کے لیے دھاگے باندھا کرتے تھے ، ان دھاگوں کو” تمیمۃ“ کہا جاتا ہے ، فقہاء نے لکھا ہے کہ: یہ ممنوع ہے، اور بعض فقہاء نے تو اسے کفریہ کاموں میں شمار کیا ہے اور اگر یہ عمل فیشن اور آرائش کے طور پر ہو تب بھی درست نہیں۔

 2: سونے اور لوہے کے کسی بھی زیور کا استعمال مرد کے لیے جائز نہیں ، چاندی کی بھی صرف انگوٹھی استعمال کی جاسکتی ہے ، زنجیر نہیں پہنی جاسکتی ہے،نیز اس   میں عورتوں کی مشابہت بھی ہے ؛ کیوں کہ یہ عورتوں کے لیے مقام زینت ہے نہ کہ مردوں کے لیے، اور عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والے مردوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے  لعنت فرمائی ہے ۔

اسی طرح ہاتھوں میں کڑا پہننا بعض غیر مسلموں کا مذہبی شعار ہے، اور غیر مسلموں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے،مسلمان نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے زیب و زینت اختیار کریں اور ہر رواج کو قبول کرنے کا مزاج نہ بنالیں  مسلمان کا مقام یہ نہیں ہے کہ لوگوں کے رنگ میں رنگ جائیں ؛ بلکہ ایک مسلمان کی شان یہ ہونی چاہیے کہ  دنیا اس کو اپنے لیے نمونہ بنائے ۔

صحیح بخاری میں ہے:

"عن ابن عباس رضي الله عنهما قال:لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم المتشبهين من الرجال بالنساء، والمتشبهات من النساء بالرجال."

(کتاب اللباس، باب المتشبہین بالنساء،والمتشبہات بالرجال، ج: 5، ص:2207، رقم: 5546، ط: دار ابن کثیر)

”ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما  بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے لعنت فرمائی ان مردوں پر جوعورتوں کی مشابہت اختیارکرتے ہیں اور ان عورتوں پر جو مردوں کے مشاہت اختیار کرتی ہیں۔“

فتاوی شامی میں ہے:

"لا) يكره (خرقة لوضوء) بالفتح بقية بلله (أو مخاط) أو عرق لو لحاجة ولو للتكبر تكره (و) لا (الرتيمة) هي خيط يربط بأصبع أو خاتم لتذكر الشيء والحاصل أن كل ما فعل تجبرا كره وما فعل لحاجة لا، عناية. [فرع] في المجتبى: التميمة المكروهة ما كان بغير العربية،

(قوله التميمة المكروهة) أقول: الذي رأيته في المجتبى التميمة المكروهة ما كان بغير القرآن، وقيل: هي الخرزة التي تعلقها الجاهلية اهـ فلتراجع نسخة أخرى. وفي المغرب وبعضهم يتوهم أن المعاذات هي التمائم وليس كذلك إنما التميمة الخرزة، ولا بأس بالمعاذات إذا كتب فيها القرآن، أو أسماء الله تعالى، ويقال رقاه الراقي رقيا ورقية إذا عوذه ونفث في عوذته قالوا: إنما تكره العوذة إذا كانت بغير لسان العرب، ولا يدرى ما هو ولعله يدخله سحر أو كفر أو غير ذلك، وأما ما كان من القرآن أو شيء من الدعوات فلا بأس به اهـ قال الزيلعي: ثم الرتيمة قد تشتبه بالتميمة على بعض الناس: وهي خيط كان يربط في العنق أو في اليد في الجاهلية لدفع المضرة عن أنفسهم على زعمهم، وهو منهي عنه وذكر في حدود الإيمان أنه كفر اهـ. وفي الشلبي عن ابن الأثير: التمائم جمع تميمة وهي خرزات كانت العرب تعلقها على أولادهم يتقون بها العين في زعمهم، فأبطلها الإسلام."

(کتاب الحظروالاباحة، فصل فی اللبس، ج: 6، ص: 363، ط: دار الفکر)

تبیین الحقائق میں ہے:

"ثم ‌الرتيمة قد تشتبه بالتميمة على بعض الناس، وهي خيط كان يربط في العنق أو في اليد في الجاهلية لدفع المضرة عن أنفسهم على زعمهم، وهو منهي عنه، وذكر في حدود الإيمان أنه كفر والرتيمة مباح؛ لأنها تربط للتذكر عند النسيان، وليست كالتميمة، وقد روي أنه عليه الصلاة والسلام «أمر بعض أصحابه بها»، وتعلق بها غرض صحيح فلا يكره بخلاف التميمة فإنه عليه الصلاة والسلام قال فيها إن الرقى والتمائم والتولة شرك على ما يجيء بيانه، وتأويل الرقى في آخر هذا الكتاب عند ذكر التداوي بالحقنة إن شاء الله تعالى."

(کتاب الکراھیة، فصل فی اللبس،ج: 6، ص: 17، ط: دار الکتاب الاسلامی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143802200014

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں