ہم نے چائے کی دکان کے لیے ایک صاحب سے چار لاکھ روپے لیے اس بنیاد پر کہ چار لاکھ کا مال لے کر دکان میں ڈالیں گے اور اس مال پر ہر کلو میں پچاس روپے نفع اس صاحب کو دینا ہوگا اور جب معاہدہ ختم ہو تو ان کی ساری رقم چار لاکھ واپس دیں گے، نقصان میں اس کا کچھ حصہ نہیں ہوگا آیا یہ سودی معاملہ ہے کہ نہیں اگر سودی معاملہ ہے تو جو ہر ماہ نفع دیا گیا اس کا کیا حکم ہے؟معاہدے کی کاپی ساتھ لگی ہوئی ہے.
مذکورہ معاملہ قرض کا ہے اور قرض پر نفع کا لینا دینا خالص سودی معاملہ ہےلہذا اس کوفوراً ختم کرنا ضروری ہے ، مذکورہ شخص صرف اپنے چار لاکھ لینے کا حقدار ہے اس سے زائد لینے کا حقدار نہیں، اگر چار لاکھ سے زائد کوئی رقم لی تووہ اس کے حصے سے کٹوتی ہوگی ۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"(ومنها) : أن يكون الربح جزءًا شائعًا في الجملة، لا معينًا، فإن عينا عشرةً، أو مائةً، أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدةً؛ لأن العقد يقتضي تحقق الشركة في الربح والتعيين يقطع الشركة لجواز أن لايحصل من الربح إلا القدر المعين لأحدهما، فلايتحقق الشركة في الربح".
(6/ 59، کتاب الشرکة، فصل في بيان شرائط جواز أنواع الشركة، ط: سعید)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144408102187
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن