ایک بندہ سیلز مین ہے، جو بازار سے سامان خرید کر دوسرے چھوٹے چھوٹے دکان داروں کو فروخت کرتا ہے، اگر مبیع اس شخص کو مثلاً 10000 کی پڑی اور وہ اپنا کرایہ، کھانا اور منافع کے حصول کے لیے اس میں بڑھوتری کا خواہش مند ہو اور بائع سے وہ 10000 کے سامان کا بل 15000 کا بنوائے، تو کیا اس بائع کے لیے بل کو بڑھا کر لکھنا جائز ہے یا نہیں؟ اگر ٹھیک نہیں تو اس کا متبادل طریقہ کیا ہے؟
مذکورہ شخص وکیل بالاجرت کے طور پر یہ کام کرتا ہے، اس کام کی اس کو مستقل اجرت ملتی ہے، اور جتنے کی خریداری کرتا ہے اس سے زائد رقم کا بل بھی اپنے منافع کے طور پر بنواتا ہے۔
صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص کسی کے لیے اس طور پر کام کرتا ہے کہ اس کام کی اس کو متعین اجرت دی جاتی ہے تو ایسی صورت میں اس شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ خریداری کر کے زائد رقم کا بل بنوائے اور زائد رقم خود رکھے، اس پر لازم ہے کہ جتنی رقم کا مال خریدا ہے اتنی رقم کا ہی بل بنوائے اور اتنی ہی رقم اپنے موکل سے وصول کرے،اس کا حق صرف متعین کردہ اجرت میں ہو گا۔
اس معاملہ کی متبادل صورت یہ ہو سکتی ہے کہ مذکورہ شخص اپنے موکل سے اجرت کا معاملہ ختم کر لے اور اس کام کی اس سے کوئی اجرت وصول نہ کرے، بازار سے مال موکل کے لیے نہ خریدے، بلکہ اپنے لیے خریدے، پھر جس رقم پر فروخت کرنا چاہتا ہے اس رقم پر فروخت کر دے، ایسی صورت میں بھی دکان دار سے غلط بل بنوا کر خریداروں کو دھوکہ نہ دے۔
درر الحکام في شرح مجلة الأحکام میں ہے:
"(إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة ... يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى."
(الکتاب الحادي عشر: الوکالة ، الباب الثالث، الفصل الأول، المادة : 1467 ، جلد : 3 ، صفحه : 573 ، طبع : دارالجیل)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144604101178
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن