بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

ایک بھائی کی تنخواہ میں دوسرےبھائی کاحق ہے؟نوکری بیچنےکاحکم


سوال

انگریزکےدورمیں ہرقوم کےلیےمخصوص نوکریاں آئیں،جس کےحصول کےلیےمتعلقہ قوم کےافرادنےکوششیں کیں،ان افرادمیں ایک میرےوالدصاحب بھی تھے، چوں کہ فقروفاقہ کادورتھا،اس لیےمجبوری میں میرےوالدصاحب نے اپنےلیےایک نوکری (خاصہ داری)کاانتخاب کرکےاس کےحاصل کرنےمیں کامیاب ہوئے، اس وقت کےحساب سےوالدصاحب کی تنخواہ سوروپےتھی،جس پرمیرےوالدصاحب کےدوبھائیوں اورتین چچاکےبیٹوں نےتنخواہ میں اپنےحصےکامطالبہ کیا،ان کے مطالبہ کےمطابق جرگہ میں یہ فیصلہ ہوا،کہ سوروپےمیں سےپچاس روپےمیرےوالدصاحب کےہوں گےاورپچاس روپےدوبھائیوں اورتین چچاکےبیٹوں میں اس طرح تقسیم ہوں گےکہ ساڑھےبارہ روپےہرایک بھائی کواورباقی چچاکےتین بیٹوں میں تقسیم ہوں گے،ایک کوپانچ روپےاوردیگردوبھائیوں کودس دس روپےملیں گے ،اس طرح یہ تقسیم چلتی رہی۔

پھروالدصاحب کےانتقال کےبعدوالدصاحب کی جگہ پرنوکری کرنےوالاکوئی نہیں تھا،تومیں نےوہ نوکری پانچ لاکھ روپےکےعوض بیچ دی،چوں کہ انگریزحکومت کی طرف سےنوکری بیچنےپرکوئی پابندی نہیں تھی،اب جب نوکری کوبیچےہوئےایک عرصہ گزرچکاہے،اب والدصاحب کےبعض بھتیجےاورچچاکےاولادمیں سےبعض یہ دعوی کررہےہیں،کہ نوکری میں اب تک ہماراحصہ تھا،آپ نےجونوکری بیچی ہے،ہمیں اس میں سےبھی حصہ چاہیے،حالاں کہ جولوگ ابھی دعوی کررہےہیں،میں نے ان کےسامنےعلی الاعلان نوکری بیچی تھی ،اس وقت ان کواعتراض نہیں تھا،اب مطالبہ کررہےہیں،لہذااب میں پوچھتاہوں کہ:

1:کیامذکورہ نوکری قومی ورثہ ہے؟

2:مذکورہ جرگہ کےذریعہ جبری تقسیم کی شرعاکیاحیثیت ہے؟

3:مذکورہ نوکری میں پچاس روپےجن لوگوں نےکھائےہیں کیامیں ان کی موجودہ اولادسے اس کامطالبہ کرسکتاہوں؟

4:نوکری محنت ایک کی ہواورتنخواہ کاآدھاحصہ دوسرالے،کیاایساکرنےکی اسلام اجازت دیتاہے؟

5:فریقِ مخالف نےمقامی طالبان کےپاس اپنادعوی دائرکیاہےاوروہ مجھےافغان کےایک علاقے(بیرملک)کی طرف لےجانےپرمجبورکرتےہیں، توکیامیرےلیے وہاں جانا شرعاضروری ہے؟

6:کیامیری اپنی اولاداورمیرےبھتیجےجوسب مجھ سےالگ ہیں،اس نوکری کےعوض جورقم میں نےحاصل کی ہے،اس میں ان کاحق ہے؟

 

جواب

واضح رہےبعض اداروں میں ملازم مدتِ ملازمت پوری کرنےکےبعدجب ریٹائرہونےلگے،توادارہ اس  کواپنی جگہ کسی عزیزکوبھرتی کرنےکاموقع  دیتاہے، پھراس کو اختیارہوتاہے،کہ جس کوبھی اپنی جگہ  بھرتی کرادے،اس کی مثال سفارش سےزیادہ نہیں ہےاورسفارش کرنےکےعوض پیسےلیناجائزنہیں ہے، اس لیےکہ سفارش مال متقوم(قابلِ قیمت نہیں کہ اس کوقیمت لےکربیچاجائے) نہیں ہےاورعوض صرف وہاں لینا جائزہوتا ہے،جسےشریعت نےقابل قیمت شمارکیاہو،نیزیہ ایک حق مجرد ہےاورخالص حق کےعوض اجرت لینا جائز نہیں ہے،لہذامذکورہ مسئلہ میں سائل کااپنےوالدکی نوکری کودوسرےپربیچنادرست نہیں تھااوراس سےحاصل ہونے والی رقم بھی سائل کےلیےحلال نہیں تھی،اب اگروہ شخص معلوم ہے اور زندہ ہوتواس کوواپس کرنالازم ہے،اگروہ موجودنہیں تواس کےورثاءکوواپس کرنالازم ہے، اگر اس کےبارےمیں کچھ علم نہ ہو،تواس سےلی جانےوالی رقم کےبقدررقم صدقہ کرنالازم ہے۔

جب یہ بات واضح ہوگئی کہ نوکری  ایک حق  مجردہے،جس کےعوض رقم نہیں لی جاسکتی ہے،اب سائل کےسوالات درج ذیل ہیں:

1:مذکورہ نوکری قومی ورثہ نہیں ہے،بلکہ جس کوملی ہوصرف اسی کاحق ہے۔

2:صورتِ مسئولہ میں جرگہ والےحضرات کافیصلہ ممکن ہےکہ قومی روایات کےمطابق ہو،لیکن حقداری کی بنیادپرشرعادرست نہیں ہے،سائل کےوالدکی تنخواہ میں دوسرےرشتہ داروں کوبغیرکسی سبب کےشریک کرنادرست نہیں تھا۔

3:سائل کےوالدکی تنخواہ کی جورقم ان کےدیگررشتہ داروں نےاپنےاستعمال میں لی ہےاس کےبارےمیں شرعی حکم تویہ ہےکہ اگرسائل کےوالدنےان چچازاد بھائیوں کےساتھ صلح کرلی تھی اورازخوددلی رضامندی سےاپنی تنخواہ کےآدھےحصےکی رقم ان کوحوالہ کیاکرتےتھے،تواس صورت میں وہ لوگ اس رقم کےمالک ہوچکے ہیں،لہذااب ان سےمطالبہ ناحق ہوگااوراگر سائل کےوالدنےمجبورہوکررقم دیتےتھےتواس صورت میں اگروہ زندہ ہیں،توان کوواپس کرنالازم ہے،کیوں کہ مذکورہ رقم لینا  ان کے لیے حلال نہیں تھااوراگران کا انتقال ہوگیاہے،تواس کےلوٹانےکی ذمہ داری ان کےورثاءپرعائدہوتی ہے،جن کومرحوم کاترکہ ملاہو،تاہم اگرباہمی مفاہمت اورمعافی تلافی کی راہ اپنائی جائے،تواس کی بھی گنجائش ہے۔

4:نوکری جس کی ہو،اس کی تنخواہ صرف اسی کاحق ہے،یاوہ دلی رضامندی سےجس کودے،اس کےعلاوہ جبری طورپرکسی کےتنخواہ میں سےبغیرکسی شرعی وجہ کے رقم وصول کرناجائزنہیں ہےاوراگرلاعلمی کی وجہ سےلی ہو،تومالک کوواپس کرناضروری ہے۔

5: سائل کےلیےمذکورہ نوکری کےحق کوبیچناجائزنہیں تھااوربیچنےکےبعداس رقم کومالک تک واپس کرنالازم ہے،اس میں دوسرےفریق کاحق نہیں ،بلکہ جس کوبیچی ہے،اس کواس کےپیسےواپس کرنالازم ہے۔

اوردوسرےفریق کااس میں اپنےحق کامطالبہ شرعاًناجائزہےاورناجائزدعوی پرجرگہ میں حاضرہوناسائل پرلازم نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

وفي الأشباه لا يجوز ‌الاعتياض عن الحقوق المجردة كحق الشفعة...

مطلب: لا يجوز ‌الاعتياض عن الحقوق المجردة (قوله: لا يجوز ‌الاعتياض عن الحقوق المجردة عن الملك) قال: في البدائع: الحقوق المفردة لا تحتمل التمليك ولا يجوز الصلح عنها. أقول: وكذا لا تضمن بالإتلاف قال: في شرح الزيادات للسرخسي وإتلاف مجرد الحق لا يوجب الضمان؛ لأن ‌الاعتياض عن مجرد الحق باطل إلا إذا فوت حقا مؤكدا، فإنه يلحق بتفويت حقيقة الملك في حق الضمان كحق المرتهن.

مطلب: في ‌الاعتياض عن الوظائف والنزول عنها (قوله: وعلى هذا لا يجوز ‌الاعتياض عن الوظائف بالأوقاف) من إمامة وخطابة وأذان وفراشة وبوابة، ولا على وجه البيع أيضا؛ لأن بيع الحق لا يجوز كما في شرح الأدب وغيره وفي الذخيرة: أن أخذ الدار بالشفعة أمر عرف بخلاف القياس فلا يظهر ثبوته في حق جواز ‌الاعتياض عنه. اهـ. أقول: والحق في الوظيفة مثله والحكم واحد."

(كتاب البيوع، مطلب في بيع الجامكية، ج:4، ص:518، ط:دار الفكر)

الاشباہ والنظائرمیں ہے:

"الحقوق ‌المجردة ‌لا ‌يجوز ‌الاعتياض ‌عنها.كحق الشفعة؛ فلو صالح عنه بمال بطلت ورجع به ولو صالح المخيرة بمال لتختاره بطل ولا شيء لها، ولو صالح إحدى زوجتيه بمال لتترك نوبتها لم يلزم ولا شيء لها، هكذا ذكروه في الشفعة.وعلى هذا لا يجوز الاعتياض عن الوظائف في الأوقاف.وخرج عنها حق القصاص وملك النكاح، وحق الرق فإنه يجوز الاعتياض عنها ."

(كتاب البيوع، ‌‌بيع المعدوم باطل، ص:178، ط:دار الكتب العلمية)

فتح القدیرمیں ہے:

"لأن ‌بيع ‌الحقوق المجردة لا يجوز كالتسييل وحق المرور."

(كتاب البيوع، باب بيع الفاسد، ج:6، ص:340، ط:دار الفكر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"أما السبب فهو ‌أخذ ‌مال ‌الغير ‌بغير ‌إذنه لقوله عليه الصلاة والسلام: "على اليد ما أخذت حتى ترد"، وقوله عليه الصلاة والسلام: "لا يأخذ أحدكم مال صاحبه لاعبا ولا جادا، فإذا أخذ أحدكم عصا صاحبه فليرد عليه" ولأن الأخذ على هذا الوجه معصية، والردع عن المعصية واجب، وذلك برد المأخوذ."

(كتاب الغصب، فصل في حكم الغصب، ج:7، ص:148، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي حظر الأشباه: الحرمة تتعددمع العلم بها إلا في حق الوارث...(قوله إلا في حق الوارث إلخ) أي فإنه إذا علم أن كسب مورثه حرام يحل له، لكن إذا علم المالك بعينه فلا شك في حرمته ووجوب رده عليه، وهذا معنى قوله وقيده في الظهيرية إلخ، وفي منية المفتي: مات رجل ويعلم الوارث أن أباه كان يكسب من حيث لا يحل ولكن لا يعلم الطلب بعينه ليرد عليه حل له الإرث والأفضل أن يتورع ويتصدق بنية خصماء أبيه. اهـ وكذا لا يحل إذا علم عين الغصب مثلا وإن لم يعلم مالكه، لما في البزازية أخذه مورثه رشوة أو ظلما، إن علم ذلك بعينه لا يحل له أخذه، وإلا فله أخذه حكما أما في الديانة فيتصدق به بنية إرضاء الخصماء."

(كتاب البيوع، مطلب فيمن ورث مالا حراما، ج:5، ص:98، ط:دار الفكر)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"أن ‌الدعوى نوعان: صحيحة وفاسدة فالصحيحة ما يتعلق بها أحكامها وهو احتضار الخصم والمطالبة بالجواب واليمين إذا أنكر مثل هذه ‌الدعوى يمكن إثباتها بالبينة والدعوى الفاسدة ما لا يتعلق بها الأحكام التي بيناها."

(كتاب الدعوى، ج:17، ص:30، ط:دار المعرفة)

وفيه ايضا:

"قال النبي صلى الله عليه وسلم "على اليد ما أخذت حتى ‌ترد"، وتمليك ملك غيره من غير المالك يكون لغوا فيجب رد ذلك على صاحبه إن كان حيا، وعلى، ورثته بعد موته، وهكذا فيما حازه لنفسه من أملاك الناس."

(كتاب الشرب، ج:23، ص:183، ط:دار المعرفة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144603100046

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں