بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

دو بھائیوں کا مل کر والدہ کی طرف سے قربانی کرنا


سوال

1۔ہم دو بھائی ہیں ہم پر قربانی واجب ہے  اور  ہم چاہتے ہیں کہ تیسری قربانی والدہ کی طرف سے  (ایصال ثواب کے واسطے)کریں، تو گزارش   یہ ہے کہ کیا ہم اس طرح وجوبی اور نفلی کو جمع کرسکتے ہیں؟

2۔کیا ہم میں سے کوئی زیادہ یا کم پیسے دے سکتا ہے؟ مثلاً  60,000 کی قربانی ہو تو ہم دونوں بھائیوں میں ایک نے  40,000 اور  دوسرے نے  20,000دیے تو اس طرح کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ گوشت کی تقسیم کس طرح کریں گے؟ دوحصے یا تین؟

جواب

قربانی کے بڑے جانور (گائے،بھینس اور اونٹ وغیر ہ )  کے شرکاء میں سے بعض واجب قربانی کی نیت کریں اور بعض نفلی  کی  یا صدقہ  وغیر ہ کی نیت کریں تو اس طرح مختلف نیتیں کرنا درست ہیں، بشرطیکہ   سب شرکاء کی  نیت   اللہ تعالیٰ کی رضاوخوشنودی ہو، اگر کسی ا یک شریک کا مقصد بھی اللہ تعالیٰ کی رضاوخوشنودی نہ ہوئی  تو تمام شرکاء کی قربانی درست نہیں ہو گی۔

1-  صورتِ مسئولہ میں  بڑے جانور میں واجب  اورنفلی قربانی  کو  جمع کرنا جائز ہے۔ نیز دونوں بھائی مل کر مشتر کہ رقم سے  والدہ  کے  لیے قربانی کرنا چاہتے ہیں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ  دونوں  میں سے کوئی ایک  اپنے حصے کی رقم دوسرے بھائی کو  ہبہ کردے ، پھر وہ  بھائی قربانی کا ایک حصہ والدہ  کی طرف سے کر دے ، اس سے قربانی بھی ہو جائے گی ، اور والدہ  کو ثواب بھی مل جائے گا ۔اس صورت میں  اگر گوشت  کی تقسیم  مقصود ہو تو  گو شت  کا مالک  وہی بھائی ہو گا  جس  کو رقم ہبہ کی ہو گی، البتہ  وہ اپنی خوشی سے دوسرے بھا ئی کو جتنا گوشت دینا چاہے دے سکتا ہے۔ اور اگر  تقسیم مقصود نہیں ہے  بلکہ  گھر میں مشترکہ طور پر  استعمال کرنا مقصود ہے تو تقسیم  کے بغیر بھی استعمال کرسکتے ہیں۔

2- ایک بھائی نے 40,000  اور دوسرے نے 20,000 ملاکر بڑا جانور خریدا ہو اور  گوشت  تقسیم کرنا ہو تو تین حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصہ بیس ہزار روپے  والے کو اور دو حصے چالیس ہزار ملانے والے کو ملیں گے۔ اگر سوال نمبر ایک بھی اسی تناظر میں ہے تو ملحوظ رہے کہ اس صورت میں ہر بھائی کی طرف سے ملائی  ہوئی رقم اتنی  ہے جس سے دو یا دو سے زیادہ حصے آسکتے ہیں، اس لیے کوئی بھی ایک بھائی ایک حصہ والدہ کی طرف سے کرسکتا ہے۔

رد المحتارمیں ہے :

"من ضحى عن الميت يصنع كما يصنع في أضحية نفسه من التصدق والأكل والأجر للميت والملك للذابح. ۔۔۔[تنبيه] قد علم أن الشرط قصد القربة من الكل، وشمل ما لو كان أحدهم مريدا للأضحية عن عامه وأصحابه عن الماضي تجوز الأضحية عنه ونية أصحابه باطلة وصاروا متطوعين۔۔۔ وشمل ما لو كانت القربة واجبة على الكل أو البعض اتفقت جهاتها أو لا: كأضحية وإحصار وجزاء صيد وحلق ومتعة وقران خلافا لزفر، لأن المقصود من الكل القربة."

(‌‌كتاب الأضحية ، ج : 6 ، ص : 326 ، ط : سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں  ہے:

"فلا تجوز الشاة والمعز إلا عن واحد وان كانت عظيمة تساوى شاتين مما يجوزان يضحى بهما . "

 

(كتاب الاضحية  ، الباب الخامس في بيان محل إقامة الواجب ، ج : 5، ص : 367 ، ط: دار الکتب العلمیة)

وفیها ایضا :

"يجب أن يعلم أن الشاة لا تجزئ إلا عن واحد، وإن كانت عظيمة والبقر والبعير يجزئ عن سبعة إذا كانوا يريدون به وجه الله تعالى والتقدير بالسبع يمنع الزيادة ولا يمنع النقصان كذا في الخلاصة، لا يشارك المضحي فيما يحتمل الشركة من لا يريد القربة رأساً فإن شارك لم يجز عن الأضحية وكذا هذا في سائر القرب إذا شارك المتقرب من لا يريد القربة لم تجز عن القربة، ولو أرادوا القربة الأضحية أو غيرها من القرب أجزاهم سواء كانت القربة واجبة أو تطوعاً أو وجب على البعض دون البعض وسواء اتفقت جهات القربة أو اختلفت بأن أراد بعضهم الأضحية وبعضهم جزاء الصيد وبعضهم هدي الإحصار وبعضهم كفارة عن شيء أصابه في إحرامه وبعضهم هدي التطوّع وبعضهم دم المتعة أو القرآن وهذا قول أصحابنا الثلاثة رحمهم الله تعالى وكذلك إن أراد بعضهم العقيقة عن ولد ولد له من قبل كذا ذكر محمد رحمه الله تعالى في نوادر الضحايا ولم يذكر ما إذا أراد أحدهم الوليمة ."

(كتاب الأضحية ، الباب الثامن فيما يتعلق بالشركة في الضحايا ، ج :5 ، ص : 375 ، ط : دار الکتب العلمیة)

بدائع الصنائع میں ہے :

"وأما قدره فلا يجوز الشاة ‌والمعز ‌إلا ‌عن ‌واحد وإن كانت عظيمة سمينة تساوي شاتين مما يجوز أن يضحى بهما؛ لأن القياس في الإبل والبقر أن لا يجوز فيهما الاشتراك؛ لأن القربة في هذا الباب إراقة الدم وأنها لا تحتمل التجزئة؛ لأنها ذبح واحد وإنما عرفنا جواز ذلك بالخبر فبقي الأمر في الغنم على أصل القياس.

فإن قيل: أليس أنه روي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحى بكبشين أملحين أحدهما عن نفسه والآخر عمن لا يذبح من أمته فكيف ضحى بشاة واحدة عن أمته؟ عليه الصلاة والسلام.

(فالجواب) أنه عليه الصلاة والسلام إنما فعل ذلك لأجل الثواب؛ وهو أنه جعل ثواب تضحيته بشاة واحدة لأمته لا للإجزاء وسقوط التعبد عنهم ولا يجوز بعير واحد ولا بقرة واحدة عن أكثر من سبعة ويجوز ذلك عن سبعة أو أقل من ذلك، وهذا قول عامة العلماء."

(كتاب التضحية ، فصل في محل إقامة الواجب ، ج : 6 ، ص : 301 ، ط : دار الکتب العلمیة)

وفیه ایضا :

ومنها أن لا يشارك المضحي - فيما يحتمل الشركة - من لا يريد القربة رأسا، فإن شارك لم يجز عن الأضحية، وكذا هذا في سائر القرب سوى الأضحية إذا شارك المتقرب من لا يريد القربة لم يجز عن القربة كما في دم المتعة والقران والإحصار وجزاء الصيد وغير ذلك."

(كتاب التضحية ، فصل في شرائط جواز إقامة الواجب ، ج : 6 ، ص : 305 ، ط : دار الکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511101560

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں