میرے علاتی بھائی کی وفات ہوئی، اس کے ورثاء میں دو حقیقی بہنیں ہیں(یعنی ماں باپ شریک ہیں)اور ایک میں ہوں(یعنی ہم دونوں کے والد ایک اور والدہ الگ الگ ہے)میراث کی تقسیم کیسے ہوگی؟مرحوم کے ایک سگے بھائی کا انتقال مرحوم سے پہلے ہوچکا ہے، رشتہ داروں کا مطالبہ ہے کہ اس مرحوم بھائی کی اولاد کو بھی میرا ث میں سے حصہ دیا جائے ۔
مرحوم سے پہلے مرنے والے بھائی کی اولاد مرحوم کی میراث میں حصہ دار ہے یا نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں مرحوم کاترکہ تقسیم کرنے کاشرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کے ترکہ میں سےاُس کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد، اگرمرحوم کے ذمہ کسی کاقرضہ ہو تو اُسے ادا کرنے کے بعد، اگرمرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہوتوباقی ترکہ کے ایک تہائی میں اُسے نافذ کرنے کے بعد باقی تمام ترکہ منقولہ وغیرِمنقولہ کو تین حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصہ مرحوم کی ہر ایک حقیقی بہن کو اور ایک حصہ باپ شریک بھائی کو ملے گا۔ حقیقی بھائی کی اولاد کا مرحوم کی جائیداد میں شرعاً حصہ نہیں ہے۔
صورتِ تقسیم یہ ہے:
میت: 3
حقیقی بہن | حقیقی بہن | باپ شریک بھائی |
1 | 1 | 1 |
یعنی 100 روپے میں سے ہر ایک کو 33.3333روپے ملیں گے۔
نوٹ: تقسیم کا مذکورہ طریقہ کار اس صورت میں ہے جب کہ مرحوم کے انتقال کے وقت اس کے والدین،بیوہ کوئی بیٹا بیٹی یا دو سگی بہنوں اور ایک علاتی بھائی کے علاوہ کوئی اور حقیقی یا علاتی بھائی بہن حیات نہ ہوں، ورنہ طریقہ کار مختلف ہوگا۔
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604100507
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن