بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

دوطلاق رجعی دینے کے بعد رجوع ہوسکتا ہے


سوال

میں نےآج سے22سال پہلےاپنی بیوی کوایک طلاق ان الفاظ سےدی تھی کہ "میں نےتجھےطلاق دی"پھررجوع کرلیاتھا،پھر7سال بعد میں نےاپنی اہلیہ  کے بھائی سےکہاتھاکہ" تیری بہن کومیں طلاق دےدوں گا"،اس کےبعدصلح ہوئی میں اسےگھرلےآیا،اب تیسری بارمیں نےاپنی زوجہ کوبولاکہ میں نےتمہیں طلاق دی۔

ہماری شرعی رہنمائی فرمائیں کہ ہمارارشتہ ختم ہوچکاہےیانہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل نےپہلی دفعہ ان الفاظ  میں ایک طلاق دی کہ "میں نےتجھےطلاق دی"تو اس سےسائل کی بیوی پرایک طلاق رجعی واقع ہوگئی تھی اوراس کے بعد جب سائل نے بیوی کی عدت( پوری تین ماہورایاں اگرحمل نہیں تھااگرحمل تھاتوبچےکی پیدائش تک) کےاندررجوع کرلیاتھا،تونکاح قائم رہا،اورآئندہ کےلیےدوطلاقوں کاحق حاصل تھا،اس کےبعد سائل نےاپنی اہلیہ کےبھائی سےکہاکہ " تیری بہن کومیں طلاق دےدوں گا"تو ان الفاظ میں چوں کہ سائل نے طلاق کی صرف دھمکی دی تھی ،طلاق نہیں دی ہے،لہذا دھمکی کے ان الفاظ سے طلاق واقع نہیں ہوئی تھی،البتہ اب تیسری مرتبہ طلاق کےجوالفاظ اداکئےتواس سےدوسری طلاق رجعی واقع ہوگئی ہے،سائل کواپنی بیوی کی عدت کےاندررجوع کاحق حاصل ہے، اگر عدت میں رجوع کرلیاتونکاح قائم رہےگا،ورنہ بعدازعدت نکاح ختم ہوجائےگا،پھردوبارہ ساتھ رہنےکےلیےشرعی گواہوں کی موجودگی میں نئےمہراورایجاب وقبول کےساتھ تجدیدِنکاح کرناہوگااوردونوں صورتوں میں سائل کوآئندہ صرف ایک طلاق کاحق حاصل ہے،آئندہ کبھی تیسری طلاق دےدی توبیوی سائل پہ حرمتِ مغلظہ کےساتھ حرام ہو جائےگی،لہذاآئندہ کےلیےخوب احتیاط کی ضرورت ہے۔

تفسیرسمرقندی ،بحرالعلوم میں ہے:

"ثم بيّن الطلاق الذي يملك فيه الرجعة، فقال تعالى: الطَّلاقُ مَرَّتانِ، يعني يقول:‌الطلاق ‌الذي ‌يملك ‌فيه ‌الرجعة ‌تطليقتان. فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ، يعني إذا راجعها، يمسكها بمعروف، ينفق عليها، ويكسوها، ولا يؤذيها، ويحسن معاشرتها أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ، يعني يؤدي حقها، ويخلي سبيلها."

(سورة البقرة،ص:208، ط:دار الكتب العلمية)

مصنف ابن ا بی شیبۃ میں ہے:

"حدثنا أبو بكر قال: نا أبو الأحوص، عن سماك، عن عكرمة، قال: {‌الطلاق ‌مرتان فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان} [البقرة: 229] قال: إذا أراد الرجل أن يطلق امرأته، فيطلقها تطليقتين، فإن أراد أن يراجعها كانت له عليها رجعة، فإن شاء طلقها أخرى فلا تحل له حتى تنكح زوجا غيره."

(كتاب الطلاق، ‌‌ما قالوا في قوله: "الطلاق مرتان فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان"رقم الحديث:19218،ج:4، ص:191، ط:مكتبة الرشد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ولو قال لها: أنت طالق طالق أو قال: أنت طالق أنت طالق أو قال: قد طلقتك قد طلقتك، أو قال: أنت طالق قد طلقتك ‌يقع ‌ثنتان إذا كانت المرأة مدخولا بها؛ لأنه ذكر جملتين كل واحدة منهما إيقاع تام لكونه مبتدأ وخبرا، والمحل قابل للوقوع."

(كتاب الطلاق، فصل في النية في أحد نوعي الطلاق وهو الكناية،ج:3، ص:102، ط:دار الكتب العلمية)

النہرالفائق میں ہے:

"لكن القياس في المضارع عدم الوقوع لأنه ‌وعد أو محتمله."

(كتاب الطلاق، باب الكنايات، ج :2، ص: 368، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144512101069

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں