بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1446ھ 18 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

تین تولہ سونا اور کمیٹی کے پیسوں پر زکات


سوال

تین تولہ سونا ہے اور کچھ لوگوں کے ساتھ (قسط)بھی ڈالاہے،3ماہ بعد86 ہزار ملنےکی امیدہے ۔اب اس پر زکاة ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر کسی کی ملکیت میں تین تولہ سونا ہے اور اس شخص نے بی سی بھی ڈالی ہوئی ہے تو اس صورت میں چوں کہ سونا اور نقد رقم کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت سے بڑھ کر ہے ، لہذا ایسے شخص پر سال گزرنے کے بعد زکاۃ ادا کرنا لازم ہے ، جس کا طریقہ یہ ہے کہ  اگر یہ شخص پہلے سے زکاۃ دیتا چلا آرہا ہے تو زکاۃ کی ادائیگی کی جو تاریخ مقرر کررکھی ،اس تاریخ کو سونے کی موجودہ قیمت اور جتنی رقم بی سی میں جمع کرواچکا ہے اس رقم کو شامل کرکے مجموعی جو مالیت بنے گی اس مالیت کا ڈھائی فیصد زکاۃ میں ادا کیا جائے گا۔ اور اگر پہلے سے زکاۃ کی تاریخ مقرر نہیں تو جس تاریخ کو اس شخص کی ملکیت میں اس سونے کے ساتھ ضرورت سے زائد نقد رقم جمع ہونا شروع ہوئی ہے اس تاریخ سے یہ صاحب نصاب شمار ہوگا ، اب اگر ایک سال ہوچکا ہے تو جس دن سال مکمل ہو اس دن مذکورہ بالا طریقہ کے مطابق زکاۃ ادا کردے ۔ 

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ومن كان له نصاب فاستفاد في أثناء الحول مالا من جنسه ضمه إلى ماله وزكاه المستفاد من نمائه أولا وبأي وجه استفاد ضمه سواء كان بميراث أو هبة أو غير ذلك، ولو كان من غير جنسه من كل وجه كالغنم مع الإبل فإنه لا يضم هكذا في الجوهرة النيرة. فإن استفاد بعد حولان الحول فإنه لا يضم ويستأنف له حول آخر بالاتفاق هكذا في شرح الطحاوي. ثم إنما يضم المستفاد عندنا إلى أصل المال إذا كان الأصل نصابا فأما إذا كان أقل فإنه لا يضم إليه، وإن كان يتكامل به النصاب وينعقد الحول عليهما حال وجود النصاب كذا في البدائع."

(الفتاوى الهندية، كتاب الزكاة، الباب الأول في تفسيرها وصفتها وشرائطها، 1/ 175، ط: دار الفكر بيروت)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"في المعراج في فصل زكاة العروض أن الزكاة تجب في النقد كيفما أمسكه للنماء أو للنفقة، وكذا في البدائع في بحث النماء التقديري. اهـ.

قلت: وأقره في النهر والشرنبلالية وشرح المقدسي، وسيصرح به الشارح أيضا، ونحوه قوله في السراج سواء أمسكه للتجارة أو غيرها، وكذا قوله في التتارخانية نوى التجارة أولا، لكن حيث كان ما قاله ابن ملك موافقا لظاهر عبارات المتون كما علمت، وقال ح إنه الحق فالأولى التوفيق بحمل ما في البدائع وغيرها، على ما إذا أمسكه لينفق منه كل ما يحتاجه فحال الحول، وقد بقي معه منه نصاب فإنه يزكي ذلك الباقي، وإن كان قصده الإنفاق منه أيضا في المستقبل لعدم استحقاق صرفه إلى حوائجه الأصلية وقت حولان الحول، بخلاف ما إذا حال الحول وهو مستحق الصرف إليها، لكن يحتاج إلى الفرق بين هذا، وبين ما حال الحول عليه، وهو محتاج منه إلى أداء دين كفارة أو نذر أو حج، فإنه محتاج إليها أيضا لبراءة ذمته وكذا ما سيأتي في الحج من أنه لو كان له مال، ويخاف العزوبة يلزمه الحج به إذا خرج أهل بلده قبل أن يتزوج، وكذا لو كان يحتاجه لشراء دار أو عبد فليتأمل، والله أعلم."

(رد المحتار على الدر المختار،کتاب الزکوۃ، 2/ 262، ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144609100622

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں