1: ولیمہ کی دعوت کا مسنون طریقہ کیا ہے؟
2:شادی ہال میں لوگوں کو بلایا جاتا ہے، تو کیا دولہن کا آنا بھی ضروری ہے؟ جیسا کہ آج کل ماحول ہے۔
3: اس موقع پر ملنے والی سلامی اور تحائف کا کیا حکم ہے؟
1:ولیمہ اس دعوت کو کہا جاتا ہے، جو نکاح کے بعد میاں بیوی کے ملاپ کے بعد ہو،جس کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ اعزہ و اقارب ، دوست و احباب میں سے جنہیں مدعو کرنا چاہے مدعو کر کے حسبِ استطاعت کھانا کھلا دیا جائے،تاہم نام نمود کے لئے استطاعت نہ ہونے کے باوجود قرض لینے کی اجازت نہیں۔
امداد الاحکام میں ہے:
"ولیمہ مشہور قول میں تو اسی دعوت کا نام ہے جو شبِ زفاف ودخول کے بعد ہو اور بعض اقوال سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نکاح کے وقت سے دخول کے بعد تک جو بھی دعوت ہو ولیمہ ہی ہے، مگر راجح قول اوّل ہے؛ کیوں کہ رسول اللہ ﷺ سے ولیمہ بعد الدخول ہی ثابت ہے۔"
(ولیمہ کی تعریف اور اس کا مستحب وقت، ج: 4، ص: 291، ط: مکتبہ دار العلوم کراچی)
کفایت المفتی میں ہے:
ولیمہ کی دعوت اپنی حیثیت کے مطابق ہونی چاہئیے
"سوال: (الف )برادری کا کھانا حیثیت سے زیادہ دینا۔ (ب) قرض لیکر دعوت کرنا۔( ج) نام و نمود کے لئے اسراف کرنا۔
جواب:حیثیت سے زیادہ اور نام و نمود کے لئے کرنا اور زیر بار ہو نا نا جائز ہے ۔"
(کتاب الحظرو لاباحۃ، ج: 9، ص: 89، ط: دارالاشاعت)
2:ولیمہ کی مخلوط محفل کرنا جائز نہیں،البتہ ہال میں غیر مخلوط محفل کرنا اور اس میں دولہن کو لانے میں حرج نہیں۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"من دعي إلى وليمة فوجد ثمة لعبا أو غناء فلا بأس أن يقعد ويأكل، فإن قدر على المنع يمنعهم، وإن لم يقدر يصبر وهذا إذا لم يكن مقتدى به أما إذا كان، ولم يقدر على منعهم، فإنه يخرج، ولا يقعد، ولو كان ذلك على المائدة لا ينبغي أن يقعد، وإن لم يكن مقتدى به وهذا كله بعد الحضور، وأما إذا علم قبل الحضور فلا يحضر؛ لأنه لا يلزمه حق الدعوة بخلاف ما إذا هجم عليه؛ لأنه قد لزمه، كذا في السراج الوهاج وإن علم المقتدى به بذلك قبل الدخول، وهو محترم يعلم أنه لو دخل يتركون ذلك فعليه أن يدخل وإلا لم يدخل، كذا في التمرتاشي."
(كتاب الكراهية، الباب الثاني عشر، ج: 5، ص: 343، ط: دار الفکر)
3:شادی بیاہ کے موقع پردولہا، دولہن کو بدلہ کی نیت کے بغیر تحفہ، تحائف ، نقدی دینا جائز ہے، البتہ اس مقصد سے دینا کہ دینے والے کو اس تحفہ کے عوض زیادہ بڑا تحفہ ملے گا،جسے نیوتہ کہا جاتا ہے، ، جائز نہیں،یہ نہایت قبیح رسم ہے،جسے قرآن کریم میں "ربوا" یعنی سود سے تعبیر کیا گیا ہے، ارشادِ بارتعالی ہے:
"وَما آتَيْتُمْ مِنْ رِباً لِيَرْبُوَا فِي أَمْوالِ النَّاسِ فَلا يَرْبُوا عِنْدَ اللَّهِ وَما آتَيْتُمْ مِنْ زَكاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ "(سورۃ الروم، آیة: 39)
معارف القرآن میں ہے:
"وَمَا أَتَيْتُمْ مِنْ رِبَا لِيربُوا فِي أَمْوَالِ النَّاسِ، اس آیت میں ایک بری رسم کی اصلاح کی گئی ہے، جو عام خاندانوں اور اہل قرابت میں چلتی ہے۔ وہ یہ کہ عام طور پر کنبہ رشتہ کے لوگ جو کچھ دوسرے کو دیتے ہیں اس پر نظر رکھتے ہیں کہ وہ بھی ہمارے وقت میں کچھ دے گا بلکہ رسمی طور پر کچھ زیادہ دے گا، خصوصا نکاح ، شادی وغیرہ کی تقریبات میں جو کچھ دیا لیا جاتا ہے اس کی یہی حیثیت ہوتی ہے جس کو عرف میں نو تہ کہتے ہیں۔ اس آیت میں ہدایت کی گئی ہے کہ اہل قرابت کا جو حق ادا کرنے کا حکم پہلی آیت میں دیا گیا ہے ان کو یہ حق اس طرح دیا جائے نہ ان پر احسان جتائے اور نہ کسی بدلے پر نظر رکھے۔ اور جس نے بدلے کی نیت سے دیا کہ ان کا مال دوسرے عزیز رشتہ دار کے مال میں شامل ہونے کے بعد کچھ زیادتی لے کر واپس آئے گا تو اللہ کے نزدیک اس کا کوئی درجہ اور ثواب نہیں اور قرآن کریم نے اس زیادتی کو لفظ ربوٰ سے تعبیر کر کے اس کی قباحت کی طرف اشارہ کر دیا کہ یہ ایک صورت سود کی سی ہوگئی۔"
(معارف القرآن، ج: 6، سورۃ الروم، ص: 750، ط: مکتبہ معارف القرآن)
مرقاۃالمفاتیح میں ہے:
وعن ابن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «طعام أول يوم حق وطعام يوم الثاني سنة وطعام الثالث سمعة ومن سمع: سمع الله به» ".
(وعن ابن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم طعام أول يوم) : أي: في العرس (حق) : أي: ثابت ولازم فعله وإجابته أو واجب، وهذا عند من ذهب إلى أن الوليمة واجبة أو سنة مؤكدة، فعفا في معنى الواجب حيث يسيء بتركها ويترتب عتاب، وإن لم يجب عقاب (وطعام يوم الثاني سنة) : يمكن أن يكون اليومان بعد العقد، أو الأول منهما قبل العقد والثاني بعده (وطعام يوم الثالث سمعة) : بضم السين أي سمعة ورياء ليسمع الناس وليرائيهم ففيه تغليب السمعة على الرياء أو اكتفاء إذ في التحقيق فرق بينهما دقيق (ومن سمع سمع الله به) : بتشديد الميم فيهما أي: من شهر نفسه بكرم أو غيره فخرا أو رياء شهره الله يوم القيامة بين أهل العرصات بأنه مراء كذاب، بأن أعلم الله الناس بريائه وسمعته، وقرع باب أسماع خلقه فيفتضح بين الناس. قال الطيبي: إذا حدث الله - تعالى - لعبد نعمة حق له أن يحدث شكرا. واستحب ذلك في الثاني جبرا لما يقع من النقصان في اليوم الأول، فإن السنة مكملة للواجب، وأما اليوم الثالث فليس إلا رياء وسمعة، والمدعو يجب عليه الإجابة في الأول، ويستحب في الثاني، ويكره بل يحرم في الثالث. اهـ. وفيه رد صريح على أصحاب مالك رحمه الله حيث قالوا باستحباب سبعة أيام لذلك (رواه الترمذي) : وروى الطبراني عن ابن عباس: " «طعام يوم في العرس سنة وطعام يومين فضل وطعام ثلاثة أيام رياء وسمعة» ".
(كتاب النكاح، باب الوليمة، ج: 5، ص: 2110، رقم : 3224، ط: دار الفكر)
فیض الباری میں ہے:
"السنة في الولیمة أن تکون بعد البناء، وطعام ماقبل البناء لایقال له: "ولیمة عربیة."
(كتاب النكاح، باب الوليمة حق، ج: 5، ص: 543، رقم الحدیث: 5166، ط: دار الكتب العلمية)
بذل المجہود میں ہے:
"یجوز أن یؤلم بعد النکاح، أو بعد الرخصة، أو بعد أن یبني بها، والثالث هو الأولی."
( کتاب الأطعمة، باب في استحباب الولیمة للنکاح، ج: 11، ص: 471، رقم الحدیث، 3744، ط: مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"ووليمة العرس سنة، وفيها مثوبة عظيمة وهي إذا بنى الرجل بامرأته ينبغي أن يدعو الجيران والأقرباء والأصدقاء ويذبح لهم ويصنع لهم طعاما، وإذا اتخذ ينبغي لهم أن يجيبوا، فإن لم يفعلوا أثموا قال عليه السلام: «من لم يجب الدعوة، فقد عصى الله ورسوله، فإن كان صائما أجاب ودعا، وإن لم يكن صائما أكل ودعا، وإن لم يأكل أثم وجفا» ، كذا في خزانة المفتين.ولا بأس بأن يدعو يومئذ من الغد وبعد الغد، ثم ينقطع العرس والوليمة، كذا في الظهيرية."
(كتاب الكراهية، الباب الثاني، ج: 5، ص: 343، ط: دار الفکر)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144604102159
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن