بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

80 سال کے لیے دکانیں خریدنا


سوال

ایک جگہ مارکیٹ بن رہی ہے،  جس کے اوپر فلیٹ ہوں گے، میں نے مارکیٹ مالک سے اس مارکیٹ میں تین دکانیں 80 سال کے لیے خرید لی، 80 سال بعد مالک یہ دکانیں واپس لے لے گا،  تو آیا اس طرح کرنا شرعا درست ہے یا نہیں؟ 

نیز اگر  میں یہی دکانیں  جو ابھی  تک مکمل  بنی  نہیں ہیں(یعنی اس مارکیٹ میں کام چل رہا ہے) کسی اور کو کرایہ پر دے دوں جب کہ ابھی تک وہ بنی نہیں ہےاور اس نے استعمال میں  نہیں لائی تو آیا میرے لیے اس سے کرایہ  لینا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے بیع کا حکم یہ ہے کہ  فروخت کی گئی چیز ، بیچنے والے کی ملکیت سے نکل کر  خریدار کی ملکیت میں چلی جاتی ہے، اور فروخت کرنے والے کے لیے   اس میں کسی قسم کے تصرف کا حق نہیں رہتا اور نہ مخصوص مدت کے بعد واپس لینے کا حق ہوتا ہے، اور    کسی چیز کو فروخت کرتے وقت  اگر نفس عقد میں کوئی ایسی شرط لگائی جائے   جو خرید وفروخت کے عقد کے تقاضوں کے خلاف ہو، یا اس میں خریدار یا فروخت کرنے والا کا فائدہ ہو تو اس  طرح کی شرط لگانے سےوہ معاملہ فاسد ہوجاتا ہے اس کو فسخ کرنا واجب ہوتا ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں سائل نے اگر  مذکورہ دکانیں   اس شرط پر خریدی ہیں کہ 80 سال بعد   فروخت کرنے والے کو وہ دکانیں واپس کرنا ہوں گی تو  یہ معاملہ فاسد ہے، اس کو فسخ کرنا واجب ہے۔

2: اگر    مذکورہ دکانوں کا اسٹریکچر (بنیادی ڈھانچہ) نہیں بنا تو اس  دکان کی خرید وفروخت اور کرایہ پر دینا جائز نہیں ہے، اگر بنیادی ڈھانچہ بن گیا ہو تو اس کو  کسی شرط فاسد کے بغیر خریدنا جائز ہے اور اس کے بعد اس کو آگے کرایہ پر دینا بھی جائز ہوگا،  کرایہ پر لینے کے بعد  اگر کرایہ دار اس کو اپنی مرضی سے  استعمال  میں نہیں لاتا تب بھی اس کا کرایہ وصول کرنا  جائز ہوگا۔

فتاوی   عالمگیری میں ہے:

"وأما حكمه فثبوت الملك في المبيع للمشتري وفي الثمن للبائع إذا كان البيع باتا وإن كان موقوفا فثبوت الملك فيهما عند الإجازة كذا في محيط السرخسي."

(كتاب البيوع، الباب الأول في تعريف البيع وركنه وشرطه وحكمه وأنواعه،3/ 3، ط: رشیدیة)

      فتاوی شامی میں ہے:

"(و) لا (بيع بشرط) عطف على إلى النيروز يعني الأصل الجامع في فساد العقد بسبب شرط(لا يقتضيه العقد ولا يلائمه وفيه نفع لأحدهما أو) فيه نفع (لمبيع) هو (من أهل الاستحقاق)...الخ"

(  کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، مطلب فی البیع بشرط فاسد، 5/ 84، ط: سعید)

      فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ولو اشترى شيئا ليبيعه من البائع فالبيع فاسد."

(کتاب البیوع، الباب العاشر فی الشروط التی تفسد البیع، 3/ 134، ط: رشیدیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي حاشية الفصولين عن جواهر الفتاوى: هو أن يقول بعت منك على أن تبيعه مني متى جئت بالثمن فهذا البيع باطل وهو رهن، وحكمه حكم الرهن وهو الصحيح اهـ. فعلم أنه لا فرق بين قوله على أن ترده علي أو على أن تبيعه مني."

(کتاب البیوع، باب الصرف، مطلب فی مسائل المقاصة، 5/ 276، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144603101368

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں