بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

آج سے تم میری طرف سے آزاد ہو ان الفاظ سے وقوع طلاق کا حکم


سوال

کچھ دن پہلے میری  بیوی  کسی سے میسج پر  بات کررہی تھی،  تو مجھے اس پر شک ہوا کہ کس سے بات کررہی ہے ، پھر اگلے دن وہ بھائی کے  گھر چلی گئی  تو میں نے اس کو میسج کیا  کہ کل  تم کس سے بات کررہی تھی؟ اس نے مجھے مطمئن کرنے  کے لیے کہا کہ میں   ایک جماعت کے کسی گروپ سے بات کررہی تھی، میں نے اس  وقت ان کو میسج پر یہ الفاظ لکھ کر  بھیجے" آج سے میری طرف  سے تم آزاد ہو پھر چاہے  جس کےساتھ بات کرنا چاہو کرو جس کے ساتھ گھومو پھرو "یہ  جملہ میں نے تین مرتبہ لکھا  اس  جملے سے میری طلاق کی کوئی نیت نہیں تھی، نہ   ہی اس نے مجھے  سے طلاق کا مطالبہ کیا،اب مجھے شرعی رہنمائی درکار ہے ،

1:آیا  میں اس  سے رجوع کرسکتا ہوں یا دوبارہ نکاح کرنا ہوگا؟ 

2:حلالے کی ضرورت  تو نہیں ہے اس لیے کہ حلالہ تو اسلام میں منع ہے تو اس حوالے سے بھی تفصیل سے فرمائے اس لیے کہ میں  کئی علماء سے سناہے وہ حلالہ کو اسلام  میں حرام کہتے   ہیں۔

3:نکاح  یارجوع عدت کے اندر کرسکتاہوں؟

4:اگر بالفرض  میری تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں، تو اس کا  کیاحکم ہوگا؟ جبکہ میں  نےعلماء سے سنا ہے کہ ایک مجلس  کی تین طلاقیں حضور علیہ السلام کے زمانے میں ایک شمار ہوتی تھیں؟ بعد میں  حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کے دور میں انہوں نے تین کو تین شمار  کیا اور سنا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے بعد  میں اپنے قول سے رجو ع بھی کیاتھا۔

5:اگر دوبارہ سے نکاح کرناضروری ہو تو اس کا کیا طریقہ ہوگا؟ کیا ا س میں حق مہر ادا کرنا ہوگا؟

 

جواب

1:صورت مسئو لہ میں    شو ہر نےجب پہلی مرتبہ   بیوی  کو میسج میں یہ ا لفاظ  لکھے کہ "آج سے میری طرف  سے تم آزاد ہو پھر چاہے  جس کےساتھ بات کرنا چاہو کرو جس کے ساتھ گھومو پھرو "تواس سے سائل کی بیوی  پر ایک طلاق بائن واقع ہوکر نکاح ختم ہوچکا  ہے اور  رجوع  کی گنجائش بھی نہیں ہے،  بعد میں   شوہر نےجتنی بار بھی لکھا کہ"   آج سےمیری طرف سے تم آزاد ہو جس سے بات کرنا چاہو"تو  ان الفاظ سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی،  ٖ بیوی اپنے شوہر سے جدا ہونے کے وقت سے اپنی عدّت( پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو، اگر حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک) گزار کردوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے اور اگر اسی شوہر کے ساتھ دوبارہ ساتھ رہنا چاہے تو دونوں کی رضامندی سے شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر اور نئے ایجاب وقبول کےساتھ تجدیدِ نکاح کرنا ضروری ہوگا، تجدیدِ نکاح کے بعد شوہر کو آئندہ کے لیے دوطلاقوں کا حق حاصل ہوگا۔

2:اس  کی ضرورت نہیں ہے۔

3: عدت کے دورا ن اور عدت کے بعد ہر وقت نکاح  کرسکتے ہیں، لیکن دونوں کا رضامند ہونا ضروری ہے، عورت کی رضامندی کے بغیر زبردستی  اس کو نکاح پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔

4: تین طلاق تین ہی شمار ہوتی ہیں، ایک شمار نہیں ہوتیں، اس سلسلے میں  سائل  نے جو سنا ہے  وہ حقیقت کے خلاف ہے۔

5:اس شق کا جواب شق نمبر 1 میں ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"إذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدةوبعد انقضائها".

(كتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة، فصل: في ما تحل به المطلقة، 472/1، ط: رشيدية)

الدر المختارمیں ہے:

"(لا)یلحق البائن(البائن)."

(کتاب الطلاق، باب الکنایات،ج:3،ص:308،ط:سعید)

رد المحتار میں ہے:

" أنّ الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لا يستعمل عرفاً إلاّ فيه من أيّ لغةٍ كانت، وهذا في عرف زماننا كذلك فوجب اعتباره صريحاً كما أفتى المتأخرون في أنت علي حرام بأنّه طلاق بائن للعرف بلا نيّة مع أنّ المنصوص عليه عند المتقدّمين توقفه على النيّة ."

(کتاب الطلاق ، باب صریح الطلاق،ج:3،ص:252،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو قال: أعتقتك طلّقت بالنية كذا في معراج الدراية. وكوني حرّة أو اعتقي مثلأنت حرّةكذا في البحر الرائق."

(کتاب الطلاق، الباب الثانی، الفصل الخامس فی الکنایات فی الطلاق،ج:1،ص:376،ط:دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601102169

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں