میرے شادی کوتقریباً15 سال ہوگئے ،اور ایک بیٹا ہے13 سال کا،بیوی کو12 سال سے انفیکشن ہے، جس کی وجہ سے ازدواجی تعلقات قائم نہیں کئےجاسکتے ،انفیکشن کے بعد سے میرے تقریباً 4 بچے ضائع ہوچکے ہیں،تعلقات قائم کرنے کی وجہ سے ان کی بیماری بھی بڑھتی جاتی ہے،لہذا میں دوسری شادی کرناچاہتاہوں،توکیا دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینا ضروری ہے؟
واضح رہے کہ شریعت مطہرہ نے مرد کو بیک وقت چار شادیوں تک کی اجازت دی ہے،بشرطیکہ مرد جسمانی ومالی حقوق کی ادائیگی کے ساتھ ان میں برابری کی قدرت رکھتاہو،اور دوسری شادی کے لئے پہلی بیوی کی اجازت یا رضامندی شرعاً لازمی اور ضروری نہیں۔
قرآن کریم میں ہے:
" فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَاِنْ خِفْتُـمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ۚ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَلَّا تَعُوْلُوْا ".
(سورة النساء3)
صورت مسئولہ میں جب بیوی بوجہ مرض کے ازدواجی تعلق کے قابل نہیں رہی،توایسی صورت میں اگر شوہر دوسری شادی کرنا اچاہتاہے توبیوی کوچاہئے کہ وسعت ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خوشدلی سے اجازت دے،لیکن اگر بیوی اعتماد میں لینے کی کوشش کے باوجود وہ راضی نہ ہوتوبھی شوہر دوسری شادی کرسکتاہے،شرعاً اس پر پابندی نہیں ،اگرچہ مروجہ قانون میں اجازت کو لازمی قرار دیا گیا ہے ۔ باقی دوسری شادی کی صورت میں دونوں کے حقوق اور دونوں بیویوں کے درمیان عدل وانصاف قائم نہ کرسکنے کی صورت میں یا کسی ایک کی طرف مائل ہوکردوسری کے حق میں کمی کوتاہی کی وجہ سے عنداللہ مجرم ہوگا۔
سنن ابی داود میں ہے:
"عن أبي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من كان له امرأتان فمال إلى إحداهما، جاء يوم القيامة وأحد شقيه ساقط".
(وما اسندالى ابي هريرة ، وبشير بن نهيك، ج:4، ص:201، ط:دار هجر - مصر)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144510101920
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن