بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

شادی کامسنون طریقہ


سوال

1۔کیا نبی کریم ﷺ کاطریقہ  حضرت فاطمہ  کی شادی کے سلسلہ  پوری امت کےلئے ہے؟ منگنی ،نکاح،رخصتی کاشرعی طریقہ کیا ہے؟بارات کی شرعی حیثیت کیاہے؟نیزبارات کےموقع پر کھاناکھلانے کاکیاحکم ہے؟ ولیمہ کے کھانے میں کتنے افراد ہونے چاہیے ؟کیامعاشرہ میں رائج رسوم کی رعایت رکھنا درست ہے؟ اور کیاگناہ کی جگہ میں شرکت کرنا درست ہے ؟

 2۔تراویح کےاختتام پر مٹھائی تقسیم کرنے کی شرعی حیثیت کیاہے؟اوراگر اس کو ضروری سمجھاجائے تو مقتدا کوکیاکرنا چاہیے ؟اور امام کوجو کچھ دیا جاتا ہے اس کا شرعا کیا حکم ہے ؟

جواب

1۔ واضح رہے کہ نبی کریم ﷺنے حضرت فاطمہ ؓ کی شادی میں جو طریقہ  اختیار فرمایا وہ پوری امت کے لیے ہے، کسی زمانہ  وطبقہ کےساتھ خاص نہیں ہے ،نکاح ،منگنی ،رخصتی ، کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ  اولا کسی دین دار خاندان  کی کسی دین دار لڑکی کاانتخاب کیاجائے،  پھر اس کے گھروالوں سے مل کر معاملہ کو پکا کیاجائےاور پھرمسجد کے آداب کاخیال  رکھتے ہوئے انتہائی سادگی سےاعلانیہ طورپر  جمعہ کے دن مسجد میں نکاح کی تقریب  منعقد کی جائے اور دومسلمان عاقل بالغ  گواہان کی موجودگی میں  نکاح پڑاھوایاجائے اور حسبِ استطاعت  باہمی رضامندی سے مہر مقرر کیاجائے   اورپھردلہن کوکسی معتمد شخص کے ساتھ یا اس کےمحارم کےساتھ دلہا  کے گھر بھیج  دیاجائے  ،اورشبِ زفاف کے اگلے دن استطاعت کے مطابق جتنے لوگوں کے لئے ہوسکے  ولیمہ  کا اہتمام کیاجائے ،واضح رہے کہ خلاف شرع رسوم کی رعایت رکھنا درست نہیں ہے،اورکسی مجلس یا جگہ میں   جب معاصی اورگناہوں کاہونا معلوم ہوجائے تو وہاں شرکت کرنادرست نہیں ہے  ۔

 رخصتی کاطریقہ یہ ہے کہ:نکاح کے بعد لڑکی کو اس کے محارم کے ذریعے عزت و وقار کے ساتھ دولہا کے گھر پہنچا دیا جائے، اور اگر دولہا اور اس کے گھر والے خود آکر لے جائیں تو یہ بھی جائز ہے، اسی طرح اگر شرعی آداب کی پاسداری کے ساتھ، بغیر کسی خلافِ شرع امور جیسے اختلاط، موسیقی اور غیر ضروری رسومات کے، لڑکے کے خاندان کے چند افراد اجتماعی طور پر رخصتی کروائیں، تو اس کی بھی گنجائش ہے۔رخصتی کے لیے باقاعدہ بارات لے جانا نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں،لڑکی والوں کی طرف سے باراتیوں کو یا برادری کو کھانا دینا لازم یا مسنون اور مستحب نہیں ہے ، اگر  بغیرالتزام کے وہ اپنی مرضی سے کھانا دے دیں تو مباح ہے، نہ دیں تو کوئی الزام نہیں ،  لیکن اگر اس دعوت کو لازم سمجھا جائے یا اس کے لیے قرض لیا جائے تو یہ درست نہیں ہوگا، لہٰذاغیر ضروری رسم و رواج اور خلافِ شرع امور سے اجتناب کرتے ہوئے سادگی اور وقار کے ساتھ نکاح اور رخصتی کو انجام دینا بہتر ہے۔

2۔  تراویح میں تکمیلِ قرآنِ کریم کے موقع پر مٹھائی تقسیم کی رسم میں متعددخرابیاں پائی جاتی ہیں مثلا،  ختم  پر مٹھائی تقسیم کرنے  کے لیے لوگوں کو چندہ دینے پر مجبور کرنا،  بچوں کا  رش اور  مسجدمیں شوروغل کاہونا، مسجد کا فرش قالین وغیرہ کا خراب ہونا،اس عمل کوضروری سمجھناان وجوہات کی وجہ سے مذکورہ عمل ترک کرنا ضروری ہے ، مسجد کی انتظامیہ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ حسن تدبیر سے اس عمل کو بند کرائے ، تاہم اگر     مٹھائی تقسیم کرنے کو ضروری نہ سمجھا جائے،  اور لوگوں سے  چندہ نہ لیا جائے،  بلکہ کوئی   شخص اپنی خوشی سے  مٹھائی تقسیم کردے تو اس میں مضائقہ نہیں ہے،  تقسیم کے وقت مسجد کی حرمت کا خیال رکھا جائے، شور و غل سے اجتناب کیا جائے،  اور   مسجد کے اندر تقسیم کرنے کے بجائے دروازے پر تقسیم کردی جائے،باقی تراویح میں قرآن  سنانے والے کواگرپہلے سے طے کرکےرقم وغیرہ دی جائے تواجرت میں داخل ہونے کی وجہ سے جائز نہیں لیکن طے کئے بغیراگر کوئی نمازی اپنی خوشی سے بطور ہدیہ کچھ دیدےتواس کی گنجائش ہوگی اسی طرح اگر قرآن سنانےوالااگر اسی مسجد کا پنج وقتہ امام بھی ہو تو اس کی تنخواہ میں اضافہ کیاجاسکتاہے   ۔

عمدۃ القاری میں ہےـ:

"قوله: (وبعثت إلى الناس عامة) أي: لقومه ولغيرهم من العرب والعجم والأسود والأحمر، قال اتعالى: {وما أرسلناك إلا كافة للناس} (سبإ: 82)"

(کتاب التیمم،ج:4،ص:10،ط:إدارة الطباعة المنيرية)

النتف فی الفتاوی میں ہے:

"ما يستحب في النكاح ويستحب في النكاح خمسة اشياءاولها ان يكون ظاهراوالثاني ان يتولى عقده ولي رشيدوالثالث ان يكون الشهود عدولاوالرابع ان يكون فيه خطبةوالخامس ان يعقد في يوم الجمعة"

(کتابالنکاح ،ج:1،ص: 271،ط:مؤسسة الرسالة - بيروت)

در مع الرد میں ہے:

"(دعي إلى وليمةوثمة لعب أو غناء....على المائدة لا ينبغي أن يقعد بل يخرج معرضا لقوله تعالى: - {فلا تقعد بعد الذكرى مع القوم الظالمين} [الأنعام: 68]....(وإن علم أولا) باللعب (لا يحضر أصلا) سواء كان ممن يقتدى به أو لا لأن حق الدعوة إنما يلزمه بعد الحضور لا قبله ابن كمال. (قوله لا يحضر أصلا) إلا إذا علم أنهم يتركون ذلك احتراما له فعليه أن يذهب إتقاني"

(کتا ب الحظروالاباحة  ،ج:6،ص:348،ط:سعید)

صحیح مسلم میں ہے:

"حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة.... فقال أبو سعيد: أما هذا فقد قضى ما عليه. سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول "‌من ‌رأى ‌منكم ‌منكرا فليغيره بيده. فإن لم يستطع فبلسانه. ومن لم يستطع فبقلبه. وذلك أضعف الإيمان"

(کتاب الایمان،ج:1 ،ص:69 ،ط:مطبعة عيسى البابي الحلبي)(کتاب الایمان،ج:1 ،ص:69 ،ط:مطبعة عيسى البابي الحلبي)

"ترجمہ:حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "یہ شخص تو اپنی ذمہ داری پوری کر چکا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے، اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو زبان سے (روکنے کی کوشش کرے)، اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو دل میں برا جانے، اور یہ کمزور ترین ایمان ہے۔"

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"سوال : 1۔ رمضان المبارک میں تراویح میں ختم قرآن ہوتا ہے اس دن شیرینی تقسیم کرنا کیسا ہے؟ بینوا تؤجروا2۔ شیرینی صرف ایک شخص کی طرف سے تقسیم ہوتی ہے۔ چندہ نہیں کرتے تو یہ درست ہے یا نہیں؟3۔شیرینی جماعت خانہ میں تقسیم کرسکتے ہیں یا صحن میں کی جائے؟بینوا تؤجروا۔

الجواب:1۔ضروری نہیں ہے، لوگوں نے اسے ضروری سمجھ لیا ہے اور بڑی پابندی کے ساتھ عمل کیا جاتا ہے، لوگوں کو چندہ دینے پر مجبور کیا جاتا ہے، مسجدوں میں بچوں کا اجتماع اور شور و غل وغیرہ خرابیوں کے پیشِ نظر اس دستور کو موقوف کردینا ہی بہتر ہے۔2۔امامِ تراویح یا اور کوئی ختمِ قرآن کی خوشی میں کبھی کبھی شیرینی تقسیم کرے اور مسجد کی حرمت کا لحاظ رکھا جائے تو درست ہے۔3۔مسجد کا فرش خراب نہ ہو، خشک چیز ہو اور مسجد کی بے حرمتی لازم نہ آئے تو درست ہے، بہتر یہ ہے کہ دروازے پر تقسیم کردیا جائے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب۔"

(مسائلِ تراویح، ج:6، ص:243-244،دار الاشاعت)

تراویح کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا میں ہے:

"جہاں اللہ کی رضا کے لیے تراویح کی نماز میں قران مجید ختم کرنے  والا حافظ نہ ملے وہاں تراویح میں قران مجید سنانے والے حافظ کو رمضان المبارک کے لیے نائب امام بنایا جائے اور اس کی ذمہ ایک یا دو نمازیں سپرد کی جائے تو اس حیلہ  کی وجہ سے تنخواہ لینا جائز ہوگا کیونکہ امامت کی جرت لینا جائز ہے مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ کا یہی فتوی ہے نیز یہ صورت بھی ہو سکتی ہے کہ نمازیوں میں سے اگر کوئی نمازی حافظ کی افطاری اور سحری وغیرہ کا انتظام کر دے اور اخر میں ہدیہ اور امداد کے طور پر کچھ پیش کر دے تو اس کی گنجائش ہوگی کیونکہ ا جرت دینا منع ہے اور امداد کرنا منع نہیں ہے،بلاتعیین کچھ دے دیا جائے اور نہ دینے پر کوئی شکوہ و شکایت نہ ہو تو یہ صورت اجرت میں داخل نہیں ہے۔"

(عنوان ،تراویح میں اجرت لینااوردینا،ص:142،ط:بیت العمار)

کفایت المفتی میں ہے:

"لڑکی والوں کی طرف سے براتیوں کو یا برادری کو کھانا دینا لازم یا مسنون اور مستحب نہیں ہے ، اگر  بغیرالتزام کے وہ اپنی مرضی سے کھانا دے دیں تو مباح ہے، نہ دیں تو کوئی الزام نہیں ۔"

(کفایت المفتی، 7/471، باب العرس والولیمہ، ط: فاروقیہ)

اسلامی شادی میں ہے:

’ بارات ہندوؤں کی ایجاد اور ان کی رسم ہے:اصل بات یہ ہے کہ یہ بارات وغیرہ ہندوؤں کی ایجاد ہے کہ پہلے زمانہ میں امن نہ تھا، اکثر راہزنوں (اور ڈاکوؤں) سے دوچار ہونا پڑتا تھا؛ اس لیے دولہا، دلہن اور اسبابِ زیور وغیرہ کی حفاظت کے لیے ایک جماعت کی ضرورت تھی، اور حفاظت کی مصلحت سے بارات لے جانے کی رسم ایجاد ہوئی، اور اسی وجہ سے فی گھر ایک آدمی لیا جاتا تھا کہ اگر اتفاق سے کوئی بات پیش آئے تو ایک گھر میں ایک ہی بیوہ ہو، اور اب تو امن کا زمانہ ہے، اب اس جماعت کی کیا ضرورت ہے؟ اب حفاظت وغیرہ تو کچھ مقصود نہیں، صرف رسم کا پورا کرنا اور نام آوری مد نظر ہوتی ہے۔ بارات کی قطعاً ضرورت نہیں۔...بارات مجموعہ معصیت ہے:جو رسوم شریعت کے خلاف اکثر شادیوں میں ہوا کرتی ہیں ان ہی سے وہ مجمع معصیت کا مجمع ہو جاتا ہے، وہاں نہ بیٹھے، اور رسوم تو الگ رہیں، آج کل خود بارات ہی مجمع معصیت ہے،  اگر کوئی خرابی نہ ہو تو یہ خرابی تو ضرور ہی باراتوں میں ہوتی ہے کہ (عموماً) باراتی مقدارِ دعوت سے زائد جاتے ہیں،  جس کی وجہ سے بے چارے میزبان کو سخت دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کہیں قرض لیتا ہے کہیں اور کچھ فکر کرتا ہے۔ غرض بہت خرابی ہوتی ہے‘‘۔

(اسلامی شادی ، باب 14 ، ص:235/241،ط:ادارہ افادات اشرفیہ)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144608102118

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں