میں اپنی حیات میں اپنی ڈھائی کروڑکی جائیداداپنے دو بیٹوں اور پانچ بیٹیوں اور ایک بیوی کے درمیان تقسیم کرنا چاہتاہوں شرعی طریقہ کیا ہوگا؟
ہر شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کا خود مالک ومختار ہوتا ہے، وہ ہر جائز تصرف اس میں کرسکتا ہے، کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ اس کو اس کی اپنی ملک میں تصرف کرنے سے منع کرے ،نیز والد کی زندگی میں اولاد وغیرہ کا اس کی جائیداد میں کوئی حق و حصہ نہیں ہوتا، اور نہ ہی کسی کو مطالبہ کا حق حاصل ہوتاہے، تاہم اگر صاحبِ جائیداد اپنی زندگی میں اپنی جائیداد خوشی ورضا سے اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، اور اپنی زندگی میں جو جائیداد تقسیم کی جائے وہ میراث نہیں ہوتی، بلکہ وہ ہبہ (گفٹ) کہلاتی ہے اور اولاد کے درمیان ہبہ کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ اپنی جائیداد میں سے اپنے لیے جتنا چاہے رکھ لے؛ تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئے، اور کل مال کے آٹھویں حصہ کے بقدر اپنی بیوی کو دیدے، اور اگر والدین زندہ نہیں ہیں تو اس کے بعد بقایا جائیداد اپنی تمام اولاد میں برابر تقسیم کردے یعنی جتنا بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو دے، نہ کسی کو محروم کرے اور نہ ہی بلاوجہ کمی بیشی کرے، ورنہ گناہ گار ہوگا اور اس صورت میں ایسی تقسیم شرعاً غیر منصفانہ کہلائے گی۔ البتہ کسی بیٹے یا بیٹی کو کسی معقول شرعی وجہ کی بنا پر دوسروں کی بہ نسبت کچھ زیادہ دینا چاہے تو دےسکتا ہے، یعنی کسی کی شرافت ودِین داری یا زیادہ خدمت گزار ہونے کی بنا پر اس کو دوسروں کی بہ نسبت کچھ زیادہ دے تو اس کی اجازت ہے ۔
فتاوی عالمگیریہ میں ہے:
"(الباب السادس في الهبة للصغير) . ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى هكذا في فتاوى قاضي خان وهو المختار، كذا في الظهيرية."
(کتاب الھبة،الباب السادس ،ج:4،ص: 391،ط:المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق مصر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609100061
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن