بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

عام پانی یا زمزم پر رقیہ پڑھ کر پھونکنے اور اُسے پینے کا حکم


سوال

کیا پانی کی بوتل پر رقیہ(دم) پھونکنا اور اس سے پینا جائز ہےاور کیا زمزم کے پانی پر رقیہ پڑھ کر پھونکا جا سکتا ہے؟

جواب

"رقیہ"  عربی زبان میں جھاڑ پھونک اور دم کرنے کو کہتے ہیں۔ قرآنی آیات ،اللہ تعالی کے اسمائے مبارکہ اور  ادعیہ ماثورہ جن کا کسی مرض کے علاج کے لیے پڑھنا مفید ہو،  پڑھ کر  براہ راست اپنے اوپر دم کرنا یاپانی وغیرہ پر دم کرکے اُس کو پینا شرعاً جائز ہے، اور اگر یہ رقیہ زمزم وغیرہ پر پڑھ کر پھونکا جائے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔البتہ رقیہ کے لیے جو کلمات پڑھے جائیں ، اُن کا معنی و مفہوم کا علم ہو اور  آیات  قرآنیہ ، ادعیہ ماثورہ یا کلمات صحیحہ پر مشتمل ہوں ، نیز اُن کے بارے میں مؤثر بالذات ہونے کااعتقاد نہ ہو، کیوں کہ شفاء دینے کا اختیار فقط اللہ تعالیٰ کو ہے، یہ رقیہ دم درود اور جھاڑ پھونک فقط اسباب اور تدبیر کے درجہ میں ہے، جو اسی کے حکم سے اثر کرتے ہیں۔

باقی کلماتِ  شرکیہ یا  کلماتِ مجہولہ یا نامعلوم قسم کے منتر وغیرہ کو بطورِ رقیہ پڑھنایا کسی بھی قسم کے الفاظ کو مؤثر حقیقی  سمجھ کر پڑھاجائے تو شرعاً ایسا رقیہ  جائز نہیں ہے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"وأما ما كان من الآيات القرآنية، والأسماء والصفات الربانية، والدعوات المأثورة النبوية، فلا بأس، بل يستحب سواء كان تعويذاً أو رقيةً أو نشرةً، وأما على لغة العبرانية ونحوها، فيمتنع؛ لاحتمال الشرك فيها."

( کتاب الطب والرقی، الفصل الثاني، ج:7، ص:2880، ط: دارالفکر بیروت)

الموسوعۃ الفقہیہ الکویتیۃ میں ہے:

"فذهب الجمهور إلى جواز الرقي من كل داء يصيب الإنسان بشروط ثلاثة:

أولها: أن يكون بكلام الله تعالى أو بأسمائه وصفاته.

ثانيها: أن يكون باللسان العربي أو بما يعرف معناه من غيره.

ثالثها: أن يعتقد أن الرقية لا تؤثر بذاتها بل بإذن الله تعالى وقدرته لما روى عوف بن مالك رضي الله عنه قال: كنا نرقي في الجاهلية فقلنا: يا رسول الله كيف ترى في ذلك؟ فقال صلى الله عليه وسلم: اعرضوا علي رقاكم، لا بأس بالرقى ما لم يكن فيه شرك."

(بحث ‌‌رقية، ج:23، ص:97، ط:مطابع دارالصفوة)

والله تعالى اعلم


فتوی نمبر : 144603103177

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں