ایک شخص کے آباء و اجداد سوات میں مقیم تھے، پھر وہ لوگ وہاں کی رہائش چھوڑ کر مستقل دوسری جگہ (مردان) میں آباد ہو گئے، اور واپس جانے کا کوئی ارادہ نہیں، مگر سوات میں کچھ جائیداد چھوڑی ہے اور مقبرہ بھی وہیں پر ہے، اب پوچھنا یہ ہے کہ یہ شخص اور اس کے والد کے لیے سوات وطنِ اصلی کہلائے گی یا نہیں؟ یا نماز میں قصر کریں گے؟
فقہاءِ کرام نے وطنِ اصلی کی تعریف یہ کی ہے کہ وہ جگہ جو انسان کی جائے ولادت ہو یا جہاں اس نے شادی کرکے رہنے کی نیت کرلی ہو یا کسی جگہ مستقل رہنے کی نیت کرلی ہو، اگر کسی جگہ صرف جائیداد ہو اور وہاں مستقل رہنے کی نیت نہ ہو تو اس جگہ کو وطنِ اصلی نہیں کہا جائے گا۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ صاحب اور ان کے والد کا سوات میں دوبارہ رہائش اختیار کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے تو ایسی صورت میں ان کے لیے سوات وطنِ اصلی نہیں ہو گا اور وہ سوات میں پندرہ دن سے کم قیام کرنے کی صورت میں قصر کریں گے۔
بدائع الصنائع ميں ہے:
"الأوطان ثلاثة: وطن أصلي: وهو وطن الإنسان في بلدته أو بلدة أخرى اتخذها دارا وتوطن بها مع أهله وولده، وليس من قصده الارتحال عنها بل التعيش بها.(ووطن) الإقامة: وهو أن يقصد الإنسان أن يمكث في موضع صالح للإقامة خمسة عشر يوما أو أكثر. (ووطن) السكنى: وهو أن يقصد الإنسان المقام في غير بلدته أقل من خمسة عشر يوما ۔۔۔ فالوطن الأصلي ينتقض بمثله لا غير وهو: أن يتوطن الإنسان في بلدة أخرى وينقل الأهل إليها من بلدته فيخرج الأول من أن يكون وطنا أصليا، حتى لو دخل فيه مسافرا لا تصير صلاته أربعا، وأصله أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - والمهاجرين من أصحابه - رضي الله عنهم - كانوا من أهل مكة وكان لهم بها أوطان أصلية، ثم لما هاجروا وتوطنوا بالمدينة وجعلوها دارا لأنفسهم انتقض وطنهم الأصلي بمكة، حتى كانوا إذا أتوا مكة يصلون صلاة المسافرين، حتى قال النبي صلى الله عليه وسلم حين صلى بهم: «أتموا يا أهل مكة صلاتكم فإنا قوم سفر» ؛ ولأن الشيء جاز أن ينسخ بمثله."
(كتاب الصلاة ، فصل مایصیر المسافر به مقیماً ، جلد ، 1 : صفحه : 103 : طبع : سعید)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144512101278
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن