بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

اگر عصبات موجود ہوں لیکن ان کا پتہ معلوم نہ ہو تو کیا ترکہ ذوی الارحام میں تقسیم کیا جائے گا؟


سوال

میرے چچا کا انتقال ہوا، ورثاء  میں بیوہ، ایک حقیقی بھائی اور دو باپ شریک بھائی تھے، والدین میں سے کوئی حیات نہیں تھا، اور نہ ہی مرحوم کی کوئی اولاد تھی۔

پھر حقیقی بھائی کا انتقال ہوا، ورثاء میں چار بیٹے اور ایک بیٹی ہے، بیوہ اور والدین میں سے کوئی حیات نہیں۔

پھر مرحوم (چچا) کی بیوہ (چچی) کا انتقال ہوا، اولاد نہیں ہے، والدین کا انتقال بھی پہلے ہی ہوچکا ہے، مرحومہ کا کوئی بھائی  نہیں ہے، ایک بہن تھی اس کا انتقال بھی مرحومہ کی زندگی میں ہوچکا تھا، مرحومہ کے  چچا زاد بھائی موجود ہیں،  لیکن ان  کے بارے میں پاکستان و انڈیا میں بہت معلوم کرنے کے باوجود بھی کچھ پتہ نہ چلا، مرحومہ کے دو بھانجے اور دوبھانجیاں حیات ہیں، ان کے علاوہ باقی ورثاء کا علم نہیں ہوسکا۔

مرحومہ زندگی میں کہتی تھیں کہ میرا سونا میری بہن کے بچوں کو دیا جائے، لیکن مرحومہ کے انتقال تک بہن کے بچوں  کو قبضہ نہیں دیا گیا، بلکہ وہ سونا مرحومہ کے پاس ہی تھا، اب پوچھنا یہ ہے کہ: 

1۔ مرحوم چچا کی جائیداد ورثاء میں کس طرح تقسیم ہوگی؟ اس جائیداد کا کرایہ بھی وصول ہورہا ہے، وہ بھی کس طرح تقسیم ہوگا؟

2۔ مرحومہ چچی کے ترکہ میں مکان اور کچھ سونا ہے، اس کی تقسیم ورثاء میں کیسے ہوگی؟

جواب

1۔ صورتِ مسئولہ میں مرحوم (چچا) کی جائیداد تقسیم کرنے کا طریقۂ کار یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد، اگر مرحوم پر کوئی قرض ہو تو اسے کل ترکہ سے ادا کرنے کے بعد، اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہے تو اسے باقی ترکہ کے ایک تہائی حصّے سے نافذ کرنے کے بعد، باقی کل ترکہ (منقولہ وغیر منقولہ) کو  12حصّوں میں تقسیم کرکے  دو دو حصّے مرحوم ( چچا)کے مرحوم حقیقی بھائی کے چاروں بیٹوں میں سے ہر ایک بیٹے کو،  ایک  حصّہ اس کی اکلوتی بیٹی کو ملے گا، اور باقی تین حصّے مرحومہ (چچی) کے ورثاء (چچا زاد بھائیوں وغیرہ) کے لیے محفوظ کرلیے جائیں گے، جب بھی ان کا معلوم ہوگا تو مرحومہ کا ترکہ ان کے درمیان شرعی حِصص کے اعتبار سے تقسیم کیا جائے گا۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

مرحوم (چچا):4/ 12

بیوہسگا بھائی
13
3فوت شدہ

مرحوم (سگا بھائی): 9۔۔۔3                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                      3۔۔۔۔1

بیٹابیٹابیٹابیٹابیٹی
22221

یعنی  ٪100 میں سے 16.666 فیصد مرحوم (چچا) کے مرحوم حقیقی بھائی کے چاروں بیٹوں میں سے ہر ایک بیٹے کو، 8.333 فیصد اس کی اکلوتی بیٹی کو ملے گا، اور  25 فیصد مرحومہ (چچی) کے ورثاء (چچازاد وغیرہ)  کے معلوم ہونے تک محفوظ کرلیاجائے گا، جب ان کا علم ہوجائے تو مرحومہ کا حصّہ ان کے حوالہ کرلیا جائے گا، تاکہ وہ شرعی طریقہ پر اس حصّے کو اپنے درمیان تقسیم کرلیں، نیز مرحوم کی جائیداد سے جوکرایہ وصول ہوا ہے اور جو آئندہ وصول ہوگا، وہ بھی مذکورہ بالا طریقہ پر تقسیم کیا جائے گا یعنی  ہر  کرائے کے 12 حصّے کرکے دودو حصّے مرحوم حقیقی بھائی کے ہر بیٹے کو اور ایک حصّہ اکلوتی بیٹی کو اور باقی تین حصّے مرحومہ (چچی) کے ورثاء کے لیے محفوظ کرلیے جائیں گے۔

باقی مرحوم (چچا) کے باپ شریک بھائیوں کو ترکہ میں سے کچھ بھی نہیں ملے گا، اسی طرح  مرحومہ  (چچی) کے چچا زاد کی موجودگی میں ان کے بھانجے اور بھانجیوں کو بھی ان کے ترکہ سے کچھ بھی نہیں ملے گا۔

2۔ مرحومہ (چچی) کا یہ جملہ کہ میرا سونا میری بہن کے بچوں کو دیا جائے (جب کہ انہوں نے وصیت کا جملہ نہیں کہا ہے اور نہ ہی اپنی موت کے بعد کا لفظ استعمال کیا ہے) یہ شرعاً وصیت نہیں، بلکہ ہبہ کی ہدایت ہے، جب کہ مرحومہ کی زندگی میں اس پر ان کو قبضہ وتصرف بھی نہیں دیاتھا، لہذا یہ ہبہ بھی درست نہیں  ہو، اس لیے جب تک مرحومہ (چچی) کے ورثاء (چچا زاد وغیرہ)   موجود ہیں مرحومہ کے وہی وارث ہیں، لہذامرحومہ کا ترکہ تقسیم نہیں کیا جائے ، بلکہ  اس کو محفوظ رکھا جائے،   اور ہر ممکن طریقہ سے ان کو تلاش کرکے ان کو اطلاع دینے کی کوشش ضروری ہے،  جب ان کے چچازاد کا علم ہوگا تو مرحومہ کا ترکہ ان کے حوالہ کردیا جائے گا، جسے وہ شرعی طریقہ پر اپنے درمیان تقسیم کریں گے،  مرحومہ کا ترکہ اس کے بھانجے اور بھانجیوں کے درمیان تقسیم نہیں ہوگا۔

سراجی میں ہے:

"یرجحون بقرب الدرجۃ،اعنی اولاھم بالمیراث جزء المیت،ای البنون،ثم بنوھم وان سفلوا۔۔۔۔۔۔ثم جزء جدہ، ای الأعمام،ثم بنوھم وان سفلوا."

(باب العصبات، ص:54، ط: البشریٰ)

وفيه أيضا:

"ثم يرجحون بقوة القرابة - أعني به: أن ذا القرابتين أولى من ذي قرابة واحدة، ذكرا كان أو أنثى؛ لقوله  صلى الله عليه وسلم: إن بني الأم يتوارثون دون بني العلات: كالأخ لأب وأم أو الأخت لأب وأم..."

(باب العصبات، ص:55، ط: البشرى)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإنما يرث ذوو الأرحام إذا لم يكن أحد من أصحاب الفرائض ممن يرد عليه ولم يكن عصبة."

(كتاب الفرائض، الباب العاشر، ج:6، ص:459، ط: دار الفكر)

وفيه أيضا:

"ولا يتم حكم الهبة إلا مقبوضة ويستوي فيه الأجنبي والولد إذا كان بالغا، هكذا في المحيط. والقبض الذي يتعلق به تمام الهبة وثبوت حكمها القبض بإذن المالك."

(کتاب الهبة، الباب الثاني في مايجوز من الهبة  ومالا يجوز ج:4، ص:377، ط:رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(هي تمليك مضاف إلى ما بعد الموت) عينا كان أو دينا."

(کتاب الوصایا،ج:6،ص:648،ط:سعید)"

درر الحکام میں ہے:

"(المادة: 1073) - (‌تقسيم ‌حاصلات ‌الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابهم بنسبة حصصهم. فلذلك إذا شرط لأحد الشركاء حصة أكثر من حصته من لبن الحيوان المشترك أو نتاجه لا يصح) تقسم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابها بنسبة حصصهم، يعني إذا كانت حصص الشريكين متساوية أي مشتركة مناصفة فتقسم بالتساوي وإذا لم تكن متساوية بأن يكون لأحدهما الثلث وللآخر الثلثان فتقسم الحاصلات على هذه النسبة؛ لأن نفقات هذه الأموال هي بنسبة حصصهما، انظر المادة (1308) وحاصلاتها أيضا يجب أن تكون على هذه النسبة؛ لأن الغنم بالغرم بموجب المادة (88).

الحاصلات: هي اللبن والنتاج والصوف وأثمار الكروم والجنائن وثمن المبيع وبدل الإيجار والربح وما أشبه ذلك."

(الكتاب العاشر، الباب الأول، الفصل الثاني، ج:3، ص:26، ط: دار الجيل)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

”وارث کا پتہ معلوم نہ ہو، تو اس کے حصہ کا کیا کیا جائے؟

سوال: عمر کے پاس اس کے چچا کی صندوقچی ہے، چچا کے صاحبزادے کلکتہ میں اور صاحبزادی غیر ملک میں تھیں کہ ان کا انتقال ہو گیا، شرعی حصہ چچا کی صاحبزادی کے پاس منی آرڈر کیا ، وہ واپس آگیا ، پھر خط لکھا کہ حصہ لے لیں یا معاف کر دیں، تو کوئی جواب موصول نہیں ہوا ، صاحبزادی کے شوہر و بچوں کا پتہ دریافت کیا، مگر نا کامی رہی، اس صندوقچی کی قیمت تخمینا لگا کر عمر نے صدقہ کر دیا، اب عمر مذکورہ صندوقچی کے متعلق کیا کرے؟ شرعی حکم سے مطلع فرمائیں؟

الجواب حامداً ومصلياً:ابھی صندوقچی کی قیمت تخمینا کرا کے صدقہ کرنا قبل از وقت ہے، صندوقچی محفوظ رکھیں، جب ورثاء مالک کی زندگی سے مایوس ہو جائیں ، تب صدقہ کر دیں  ۔ واللہ تعالی اعلم ۔“

(کتاب الفرائض، ج:24، ص:550، ط: ادارہ فاروقیہ)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144606101850

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں