بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

آئمہ نام رکھنا


سوال

کیا آئمہ لڑکی کا نام رکھا جا سکتا ہے؟

ائمہ (جسے ام آئمہ بھی کہا جاتا ہے) ایک  باندی تھی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد کیا تھا۔ اس کا اصل نام برکہ تھا اور وہ حبشی نژاد تھی۔ ائمہ کے بارے میں کچھ اہم حقائق یہ ہیں:

1. وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادموں اور ساتھیوں میں سے تھیں۔

2. آئمہ اپنی تقویٰ، مہربانی اور پیغمبر کے گھر والوں کے لیے لگن کے لیے مشہور تھیں۔

3. ان کی شادی عبید بن زید سے ہوئی جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی ہیں۔

4. آئمہ نے جنگ حنین اور دیگر اہم واقعات میں شرکت کی۔

5. اس نے متعدد احادیث (نبوی روایات) بیان کیں اور اپنے علم کی وجہ سے ان کا احترام کیا گیا۔

جواب

"آئمہ" کامعنی ہے"پیاسی" یا "دھونی دینے والی" ، یہ معنی اچھے نہیں ہیں ،لہذااس کے بجائے کسی اور نام کو منتخب کیا جائے ۔بہتر ہے کہ لڑکی کانام کسی صحابیہ  رضی اللہ عنہا کے نام پر  یا اچھے معنی والا عربی نام رکھا جائے۔

نیز آئمہ نام کے حوالہ سے سائل نے جو تفصیلات ذکر کی ہیں یہ حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کے نام سے متعلق ہیں ،ان کا نام برکۃ تھااور کنیت ام ایمن تھی۔

آئمہ کے حوالہ سے مذکورہ معلومات نہیں مل سکیں ،سائل نے سوال میں جو معلومات لکھیں ان کا حوالہ ذکرکرے۔

وفي الإصابة في تمييز الصحابة :

"أم أيمن  :

مولاة النبيّ صلّى اللَّه عليه وآله وسلم وحاضنته.قال أبو عمر: اسمها بركة بنت ثعلبة بن عمرو بن حصن بن مالك بن سلمة بن عمرو بن النّعمان، وكان يقال لها أم الظّباء وقال ابن أبي خيثمة: حدّثنا سليمان بن أبي شيخ، قال: أم أيمن اسمها بركة، وكانت لأمّ رسول اللَّه صلّى اللَّه عليه وآله وسلّم، وكان رسول اللَّه صلّى اللَّه عليه وسلم يقول: «أمّ أيمن أمّي بعد أمّي» .

وقال أبو نعيم: قيل: وكانت لأخت خديجة، فوهبتها للنبيّ صلّى اللَّه عليه وآله وسلّم.

وقال ابن سعد: قالوا: كان ورثها عن أمّه، فأعتق رسول اللَّه صلّى اللَّه عليه وآله وسلّم أم أيمن حين تزوّج خديجة، وتزوّج عبيد بن زيد، من بني الحارث بن الخزرج، أمّ أيمن، فولدت له أيمن فصحب النبيّ صلّى اللَّه عليه وآله وسلّم، فاستشهد يوم خيبر، وكان زيد بن حارثة لخديجة فوهبته لرسول اللَّه صلّى اللَّه عليه وآله وسلم، فأعتقه وزوّجه أم أيمن بعد النبوّة فولدت له أسامة."

(8/ 358،الناشر: دار الكتب العلمية)

لسانُ العرب  میں ہے:

"أوم: ‌الأوام، ‌بالضم: العطش، وقيل: حره، وقيل: شدة العطش وأن يضج العطشان؛ قال ابن بري: شاهده قول أبي محمد الفقعسي:قد علمت أني مروي هامها، … ومذهب الغليل من أوامها وقد آم يؤوم أوما، وفي التهذيب: ولم يذكر له فعلا. والإيام: الدخان، والجمع أيم."

(م، فصل الألف، ج:12 ص:38 ط: دار صادر)

المعجم الاشتقاقي المؤصل میں ہے:

"الأوام - كصداع: دخان المشتار (المشتار هو الذي يجني العسل من الخلية) وقد آم عليها (أي على النخل) وآمها يئومها أوما وإياما: دخن (أي عليها أي دخن على النحل لتبتعد إلى أن يجني العسل). والمؤوم: العظيم الرأس والخلق، وقبل المشوه الخلق. والأوام - كصداع: العطش وقيل حره وقيل شدة العطش وإن يضج العطشان."

(باب الميم، أوم - أيم، ج:4 ص:2018 ط: مکتبة الآداب)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144604100022

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں