میری شادی کو تین چار دن ہوگئے ہیں، شادی کے بعد ایک دفعہ میں رات کے وقت کمرے میں سورہاتھا کہ میرے والد صاحب آئے اور مجھ پر غصہ کیا، جس کے بعد میں چھت پر گیا اور والدہ کو کئی بار کہا کہ میرے لیے کمرہ خالی کرو، مجھے سونا ہے، میرے لیے کمرہ خالی نہیں کیا گیا،تو میں نے غصہ سے کہاکہ :"آج رات میرے اوپر حرام ہے کہ میں بیوی کے ساتھ گزاروں"، اس کے چند سیکنڈ بعدمیں نے کہا کہ :"آج کے بعد میں کبھی بیوی سے ملنے نہیں جاؤں گا" پھر اس کے بعد میں نے بیوی سے تقریبًا10/15 منٹ بیٹھ کر باتیں کی، تاہم اس مجلس میں کوئی جسمانی تعلق قائم نہیں کیا، اور یہ رات پھر میں نے باہر گزاری، یہ الفاظ کہتے وقت میری طلاق کی کوئی نیت نہیں تھی، ویسے غصے میں یہ الفاظ کہہ دیے تھے۔
اب سوال یہ ہے کہ اِن الفاظ سے میری بیوی پر طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟ اگر ہوگی تو کتنی؟ اور کیا رجوع کی کوئی صورت ہوگی؟
صورتِ مسئولہ میں سائل نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں ان سے اس کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ہے، دونوں کا نکاح بدستور قائم ہے، نیز ان الفاظ سے ایلاء بھی واقع نہیں ہوتا۔
فتاوٰی شامی میں ہے:
"وركنه لفظ مخصوص. قال ابن عابدين: (قوله: وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية."
(كتاب الطلاق، ركن الطلاق، 230/3، ط: سعید)
فتاوٰی ہندیہ میں ہے:
"الإيلاء منع النفس عن قربان المنكوحة منعا مؤكدا باليمين بالله أو غيره من طلاق أو عتاق أو صوم أو حج أو نحو ذلك مطلقا أو مؤقتا بأربعة أشهر في الحرائر وشهر في الإماء من غير أن يتخللها وقت يمكنه قربانها فيه من غير حنث."
(كتاب الطلاق، الباب السابع في الإيلاء، 476/1، ط: رشيدية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144404100257
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن