میرےاورمیری بیوی کےدرمیان جھگڑےچل رہے تھے ،میری بیوی پولیس لیکر آجایاکرتی تھی ،ایک مرتبہ مجھے لاک اپ میں بھی ڈلوایا،اورزور دیاکہ آپ مجھے طلاق دیں ،میں نے باہر نکلتے ہی اپنی بیوی کوتین طلاقیں دیں ،اورکہا کہ "آپ کوطلاق ہے، آپ کوطلاق ہے ،آپ کوطلاق ہے"،ابھی تقریباًایک ہفتہ گذراہےاور میرے سسرال والے کہہ رہے ہیں کہ طلاق نہیں ہوئی ،لہذاآپ اپنی بیوی کوساتھ لے لیں،توکیامیری بیوی کوطلاق ہوئی یانہیں ؟اورکیامیں اپنی بیوی کواپنے ساتھ رکھ سکتاہوں ؟
(2)میرےدوبیٹے ہیں ایک کی عمرساڑھے چارسال اوردوسرے کی چھ سال ہے،اوروہ میری بیوی کے پاس ہیں اورخرچہ میں ہی دونگا،کیاان کی پرورش میرےذمہ ہے یاا ن کی والدہ کے ذمہ ہے ؟
(3)میں نےاپنی بیوی کاجو50ہزارحق مہرمؤجل مقررکیاتھا،اب تک نہیں دیا،چارمہینے کے اندر دے دونگا،کیاایساکرنادرست ہے یافوری اداکرناضروری ہے ؟
(1)صورتِ مسئولہ میں سائل نے اپنی بیوی کوجو یہ الفاظ کہے تھے کہ: " آپ کوطلاق ہے، آپ کوطلاق ہے ،آپ کوطلاق ہے" تو ان الفاظ کے کہنے سےاس کی بیوی پرتینوں تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں، اور دونوں کا نکاح ختم ہوگیا ہے، بیوی شوہر پرحرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے، شوہر کے لیے مطلقہ بیوی سے رجوع کرنا یا دوبارہ نکاح کرنا حرام ہے،پس سسرال والوں کایہ کہناکہ طلاق نہیں ہوئی ہے، شرعاًدرست نہیں ۔
(2)صورت ِمسئولہ میں سائل کےبیٹوں کی عمرجب تک سات سال مکمل نہ ہو جائے، اس وقت تک ان کی پرورش کاحق ان کی ماں کو حاصل ہوگا،اس دوران اگربچوں کی ماں کی شادی کسی ایسےشخص سے ہو جائے جو بچوں کےمحارم میں سےنہ ہو،تو ماں حق پرورش سے محروم ہوجائےگی، اور ان کی پرورش کاحق نانی کو حاصل ہوگا،اگر نانی حیات نہ ہوں،تو دادی کوحقِ پرورش منتقل ہوجائےگا، اور دادی اگر حیات نہ ہوں، تو یہ حق بچوں کی خالہ کو حاصل ہوگا،اور سات سال عمرمکمل ہونے کے بعد بچوں کی تربیت کی ذمہ داری بچوں کے والد کے سپرد ہوگی ،تاہم اگر سائل بچوں کو ان کی ماں کےپاس چھوڑنے تیار ہوجائے،تو ایساکرنے کی شرعاً اجازت ہوگی، بچوں کے بالغ ہونے کے بعد انہیں ماں، باپ میں سےکسی کےبھی ساتھ رہنے کا اختیار ہوگا،بہرصورت سائل کےبیٹےجب تک کمانے کےقابل نہیں ہو جاتے، اس وقت تک ان کےتمام اخراجات سائل کی حیثیت کے مطابق سائل پر لازم ہوں گے۔
(3)واضح رہےکہ مہربیوی کاحق ہے جس کو فوری طور پر ادا کرنا طلاق کی وجہ سےسائل پر لازم ہوچکا ہے، لہٰذا سائل کی مطلقہ بیوی اگر سائل کو کچھ مہلت دے، تو یہ مطلقہ بیوی کی صوابدید پر موقوف ہوگا۔
النتف فی الفتاوی میں ہے:
"واما اللفظ المقرون بالتكرار فهو على اربعة اوجه:
احدھا:ان يقول انت طالق طالق طالق، والثاني: ان يقول انت طالق وطالق وطالق، والثالث: ان يقول انت طالق انت طالق انت طالق،والرابع: ان يقول انت طالق ثم طالق ثم طالق فأن كانت المرأة مدخولا بها في هذه الوجوه طلقت ثلاثا وان لم يكن مدخولا بها طلقت واحدة."
(کتاب العدۃ، المقرون بالتکرار، ج: 1، ص: 340،ط: مؤسسة الرسالة - بيروت)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"رجل قال لامرأته أنت طالق أنت طالق أنت طالق فقال عنيت بالأولى الطلاق وبالثانية والثالثة إفهامها صدق ديانة وفي القضاء طلقت ثلاثا كذا في فتاوى قاضي خان
متى كرر لفظ الطلاق بحرف الواو أو بغير حرف الواو يتعدد الطلاق وإن عنى بالثاني الأول لم يصدق في القضاء."
(کتاب الطلاق، الفصل الأول فی الطلاق الصریح، ج: 1ص: 356، ط: دار الفكر بيروت)
الدرالمختارمیں ہے:
"(ثم) أي بعد الأم بأن ماتت، أو لم تقبل أو أسقطت حقها أو تزوجت بأجنبي (أم الأم) وإن علت عند عدم أهلية القربى (ثم أم الأب وإن علت) بالشرط المذكور وأما أم أبي الأم فتؤخر عن أم الأب بل عن الخالة أيضا بحر (ثم الأخت لأب وأم ثم لأم) لأن هذا الحق لقرابة الأم (ثم) الأخت (لأب) ثم بنت الأخت لأبوين ثم لأم ثم لأب (ثم الخالات كذلك) أي لأبوين، ثم لأم ثم لأب، ثم بنت الأخت لأب ثم بنات الأخ (ثم العمات كذلك) ثم خالة الأم كذلك، ثم خالة الأب كذلك ثم عمات الأمهات والآباء بهذا الترتيب."
(کتاب الطلاق، باب الحضانة، ج: 3، ص: 563، ط: سعید)
وفیہ أیضا:
"(و) الحاضنة (يسقط حقها بنكاح غير محرمه) أي الصغير."
(کتاب الطلاق، باب الحضانة، ج: 3، ص: 565، ط: سعید)
وفیہ أیضا:
"(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب.
(کتاب الطلاق، باب الحضانة، ج: 3، ص: 566، ط: سعید)
وفیہ أیضاً:
"(ولا خيار للولد عندنا مطلقا) ذكرا كان، أو أنثى خلافا للشافعي. قلت: وهذا قبل البلوغ، أما بعده فيخير بين أبويه، وإن أراد الانفراد فله ذلك مؤيد زاده معزيا للمنية."
(کتاب الطلاق، باب الحضانة، ج: 3، ص: 567، ط: سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ولم يذكر الوقت للمؤجل ... يقع ذلك على وقت وقوع الفرقة بالموت أو بالطلاق وروى عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - ما يؤيد هذا القول، كذا في البدائع."
(کتاب النکاح، الباب السابع، فصل الحادی عشر،ج:1،ص:318،ط:دار الفكر بيروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144610100552
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن