بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

دادا اور والد کے نہ ہونے کی صورت میں مدت پرورش کے بعد بچی کی تربیت کے حق دار۔


سوال

زیدکی دوبیویاں ہیں، زینب اورفاطمہ، زینب سےزیدکی دواولادہیں(ایک بیٹا، ایک بیٹی)، اورفاطمہ سےدس اولادہیں(پانچ بیٹے، پانچ بیٹیاں)، زینب کےبیٹےکی شادی ہوئی، لیکن کچھ عرصہ بعدایک بیٹی چھوڑکرفوت ہوا، اب اس کی بیوی یعنی زینب کی بہونےفاطمہ کےچھوٹےبیٹےیعنی اپنےشوہرکےبھائی سےنکاح کیا۔

پوچھنایہ ہےکہ زینب کی اس یتیم پوتی کی پرورش کاحق کس کوحاصل ہوگا؟ماں کو، یاسوتیلےباپ جوکہ سوتیلےچچابھی ہیں اس کو، یا دادی یعنی زینب کو، یادیگرسوتیلےچچاؤں کو؟

نیزاس بات کی بھی وضاحت درکارہےکہ بچی کےسوتیلے چچاؤں میں سےکوئی اگریہ کہے کہ: یہ لڑکی میرےاختیارمیں ہوگی(یعنی جہاں میں چاہوں وہاں میں اس کی شادی کراؤں گا)

 کیوں میں نے اس لڑکی پراوراس کےوالدپرپیسےخرچ کیےہیں، توکیا ان کایہ کہنادرست ہے؟اور اب وہ خرچ کیےہوئےمال میں رجوع کرسکتاہے؟

وضاحت:بچی کی عمردس بارہ سال ہے، اوردادااس کافوت ہوچکاہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں  سوتیلاباپ (جوبچی کاچچابھی ہے) اس بچی کازیادہ حق دارہے کہ بچی اس کی زیرِنگرانی رہے، تاکہ شادی ہونےتک وہ اس کی حفاظت اورعفت کاانتظام کریں۔

جس چچانےبچی پریااس کےحقیقی والدپرپیسےخرچ کئےہیں، اب اس کی وجہ سےاس کایہ کہناکہ"یہ لڑکی میرےاختیارمیں ہوگی یعنی جہاں میں چاہوں وہاں میں اس کی شادی کراؤں گا "درست نہیں، تاہم والداوردادانہ ہونےکی وجہ سےچچاوتایابچی کےولی اورسرپرست ہیں، نیز اس کےنان نفقہ کےانتظام میں بھی چچاوتایاکی ذمہ داری ہےکہ چچاوتایادوتہائی نفقہ برداشت کریں گےاورایک تہائی والدہ برداشت کرےگی، بشرطیکہ تنگ دست نہ ہو،باقی جہاں تک اس کی شادی کرانےکامعاملہ ہےتویہ چچایابچی کاکوئی بھی چچااگراس نابالغ بچی کاکہیں نکاح کرادیتاہےتونکاح درست ہوگا ، البتہ بچی کوبلوغت کےبعداس نکاح کواگروہ ختم کرناچاہےتواسےختم کرنےکاشرعاًاختیارہوگا، اس لیےمناسب یہی ہےکہ بچی کےبالغ ہونےکےبعداس کی مرضی معلوم کرکےشادی کافیصلہ کیاجائے۔

جس چچانےبچی پریااس کےوالدپروالد کی زندگی میں پیسے خرچ کیےہیں، اگرخرچ کرتےوقت  والدسےواپس لینےکامعاہدہ ہواتھاتوحسبِ معاہدہ عمل ہوگا، ورنہ یہ اس کی طرف ان پرتبرع واحسان ہےیاپھرذمہ داری کی ادائیگی ہے، اب اس کی واپسی کامطالبہ کرنےکاحق حاصل نہیں۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"ثم بعد ما حاضت أو بلغت عند الأم حد الشهوة؛ تقع الحاجة إلى حمايتها وصيانتها وحفظها عمن يطمع فيها لكونها لحما على وضم فلا بد ممن يذب عنها والرجال على ذلك أقدر."

(كتاب الحضانة، فصل في وقت الحضانة، 43/4، ط:دار الکتب العلمیة)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"يشترط في المرأة أيضا ما يأتي:

1 - ألا تكون متزوجة بأجنبي عن الصغير أو بقريب غير محرم منه: وهو متفق عليه للحديث السابق: أنت أحق به ما لم تنكحي ولأنه يعامل الصغير بقسوة وكراهية، ولأنها مشغولة عنه بحق الزوج.فإن كانت متزوجة بقريب محرم للمحضون كعمه...... فلا يسقط حقها في الحضانة، لأن من تزوجته له حق في الحضانة، وشفقته تحمله على رعايته، فيتعاونان على كفالته."

(کتاب الطلاق، باب الخضانة، 7307/10، ط:دار الفکر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و) الحاضنة (يسقط حقها بنكاح غير محرمه) أي الصغير

(قوله: بنكاح غير محرمه) أي سواء دخل بها، أو لا، وكان ينبغي أن يقول: غير محرمه النسبي، لأن الرضاع كالأجنبي في سقوط حضانتها به رملي.

قلت: ينبغي أنه لو لم يكن للغلام سوى ابني عم تزوجت أمه أحدهما أن لا يسقط حقها لأن الآخر أجنبي مثله فلا فائدة في دفعه إليه بل إبقاؤه عندها أولى."

(کتاب الطلاق، باب الخضانة، 565/3، ط:سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وبعدما استغنى الغلام وبلغت الجارية فالعصبة أولى يقدم الأقرب فالأقرب كذا في فتاوى قاضي خان. ويمسكه هؤلاء إن كان غلاما إلى أن يدرك فبعد ذلك ينظر إن كان قد اجتمع رأيه وهو مأمون على نفسه يخلى سبيله فيذهب حيث شاء، وإن كان غير مأمون على نفسه فالأب يضمه إلى نفسه ويوليه ولا نفقة عليه إلا إذا تطوع كذا في شرح الطحاوي.والجارية إن كانت ثيبا وغير مأمونة على نفسها لا يخلى سبيلها ويضمها إلى نفسه، وإن كانت مأمونة على نفسها فلا حق له فيها ويخلى سبيلها وتنزل حيث أحبت كذا في البدائع.وإن كانت البالغة بكرا فللأولياء حق الضم، وإن كان لا يخاف عليها الفساد إذا كانت حديثة السن وأماإذا دخلت في السن واجتمع لها رأيها وعفتها فليس للأولياء الضم ولها أن تنزل حيث أحبت لا يتخوف عليها كذا في المحيط."

(الباب السادس عشر في الحضانة، 543/1، ط:دار الفکر)

وفیه أیضاً:

"ولو كان له أم وجد فإن نفقته عليهما أثلاثا على قدر مواريثهما، الثلث على الأم والثلثان على الجد، وكذلك إذا كان له أم وأخ لأب وأم، أو ابن أخ لأب وأم، أو عم لأب وأم، أو واحد من العصبة فإن النفقة عليهما أثلاثا على قدر مواريثهما."

(کتاب الطلاق، باب النفقات، الفصل الخامس في نفقة ذوي الأرحام، 566/1، ط:دار الفکر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"والولاية تنفيذ القول على الغير) تثبت بأربع: قرابة، وملك، وولاء، وإمامة (شاء أو أبى) وهي هنا نوعان: ولاية ندب على المكلفة ولو بكرا وولاية إجبار على الصغيرة ولو ثيبا ومعتوهة ومرقوقة

(قوله قرابة) دخل فيها العصبات والأرحام".

(کتاب النکاح،‌‌باب الولي،  55/3، ط:سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وإذا اجتمع للصغير والصغيرة ‌وليان مستويان كالأخوين والعمين فأيهما زوج جاز عندنا، كذا في فتاوى قاضي خان. سواء أجاز الآخر أو فسخ."

(کتاب النکاح، الباب الرابع في الأولياء في النكاح، 283/1، ط:دار الفکر)

وفیه أیضاً:

"فإن زوجهما الأب والجد فلا خيار لهما بعد بلوغهما، وإن زوجهما غير الأب والجد فلكل واحد منهما الخيار إذا بلغ إن شاء أقام على النكاح، وإن شاء فسخ."

(کتاب النکاح، الباب الرابع في الأولياء في النكاح، 285/1، ط:دار الفکر)

تنقیح الفتاویٰ الحامدیہ میں ہے:

"المتبرع ‌لا ‌يرجع بما تبرع به على غيره."

(كتاب المداينات، 226/2، ط:دار المعرفة)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144602102313

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں