بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

وکیل بالبیع (فروختگی کا وکیل) رقم مالک تک پہنچانے میں کوتاہی کرے تو کیا حکم ہے؟


سوال

میرے دادا نے دو شادیاں کی تھیں، اس میں سے ہر ایک بیوی سے ایک بیٹا تھا، اس کے بعد ہمارے والد صاحب کی حقیقی والدہ کا انتقال ہوا، اور سوتیلی والدہ اب تک زندہ ہیں، ہمارے اور ان کے درمیان (ہمارے والد اور سوتیلی ماں اور باپ شریک بھائی کے درمیان) جدائی ہوگئی ہے، اور اپنے دادا کی ساری جائیداد تقسیم کردی ہے، البتہ  کراچی کی دکان رہ گئی، جس کے بارے میں ہم نے ان سے کہا کہ جب بھی آپ تیار ہوجاتے ہیں ہم تقسیم کرلیں گے۔

اور اس کے ساتھ ہمارا گاؤں میں چلغوزہ کا ایک پہاڑ ہے، جس میں سارے علاقے والے شریک ہیں، اور اس کو کچھ لوگ (بطور کمیٹی) نمائندہ مقرر ہیں، جو ان کو فروخت کرتے ہیں، اور پھر ہر قبیلہ کو اس کے حصے کے بقدر پیسے دیتے ہیں۔

 ہماری سوتیلی دادی (میرے والد صاحب کی سوتیلی ماں) اس کمیٹی والوں کے پاس جاتی ہیں، اور ان سے اپنے قبیلے کے پیسوں کا مطالبہ کرتی ہیں، (میرے والد صاحب کے اور اپنے دونوں کے حصے کا مطالبہ کرتی ہیں)، اور پیسے وصول کرکے اپنے پاس رکھتی ہیں، اور اس میں سے ہم کو نہیں دیتیں، ہم نے اس کمیٹی والوں کو  بارہا سمجھایا ہے کہ اس کو پیسے نہ دیا کریں، لیکن وہ پھر بھی دیتے ہیں۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ  باوجود منع کرنے کےکمیٹی والوں کا ہمارا حصہ ہماری سوتیلی دادی کو دینا شرعاً کیسا ہے؟

اور اس طرح دادی کا ان سے ان پیسوں کا مطالبہ کرنا اور پھر ان کو اپنے پاس رکھنا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ وکیل کی حیثیت امین (امانت دار) کی ہوتی ہے، یعنی شرعاً وکیل کے ذمہ لازم ہے کہ اپنے مؤکل کی طرف سے دی گئی ذمہ داری پوری کرنے کے ساتھ ساتھ مؤکل کا مال بھی محفوظ رکھے، اس کی حفاظت میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے، اور مؤکل کے مطالبہ پر اس کا مال اس کے حوالہ کرے، مؤکل کی اجازت کے بغیر اس کا مال کسی اور کے قبضہ میں نہ دے۔

 مذکورہ کمیٹی اور اس کے ارکان بھی پورے علاقے والوں کی طرف سے چلغوزہ فروخت کرنے وکیل ہیں، لہٰذا مذکورہ کمیٹی کے ذمہ بھی لازم ہے کہ ہر قبیلہ کے حصہ کی رقم اصل مالکان یا ان کے مقرر کردہ وکیل کے حوالہ کرے۔

اب منع کرنے  کے باوجود اگر کمیٹی سائل کے والد کا حصہ سوتیلی دادی کے حوالہ کردیتی ہے، جبکہ اس پر والد کے ورثاء راضی نہیں ہیں، اور نہ ہی انہوں نے سوتیلی دادی کو اپنا وکیل مقرر کیا ہے،  تو کمیٹی کا یہ (غیرِ مالک کو رقم حوالہ کرنے کا)عمل شرعاً ناجائز ہے، اور اراکینِ کمیٹی پر لازم ہے کہ سائل کے والد کا حصہ اس کے ورثاء کے حوالے کریں؛ اور سوتیلی والدہ (سائل کی سوتیلی دادی) سائل کے والد کے شرعی ورثاء میں شامل نہیں ہیں۔

۲) اگر سوتیلی دادی اپنی ذمہ داری پر کمیٹی والوں سے رقم اٹھاتی ہیں تو  ان پر بھی اصل مالکان تک رقم پہنچانا لازم ہے۔

اور اب تک دادی نے جتنی رقم کمیٹی سے وصول کی ہے اس میں سے سائل کے والد کے ورثاء کا جتنا حصہ ان کے حوالہ نہیں کیا تو وہ اتنی  رقم والد صاحب کے ورثاء کو واپس کرنا دادی پر لازم ہے۔

فتاویٰ ہندیہ  میں ہے:

"وأما حكمها فوجوب الحفظ على المودع وصيرورة المال أمانة في يده ووجوب أدائه عند طلب مالكه، كذا في الشمني."

(كتاب الوديعة، الباب الأول، 4/ 372، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

مجلة الأحكام العدلية میں ہے:

"المادة (1463) المال الذي قبضه الوكيل بالبيع والشراء وإيفاء الدين واستيفائه وقبض العين من جهة الوكالة في حكم الوديعة في يده فإذا تلف بلا تعد ولا تقصير لا يلزم الضمان."

 (الكتاب الحادي عشر في الوكالة، الباب الثالث في بيان أحكام الوكالة، ص390، ط:دار ابن حزم بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144604100246

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں