میں ایک فیکٹری میں امام ہوں، اس فیکٹری میں تقریباً250 لیبرز کام کر رہے ہیں، فیکٹری میں ایک ہال نماز با جماعت کے لیے مختص کیا گیا ہے، جس میں پانچ وقت کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہیں، عام نمازوں میں نمازیوں کی تعداد 75 تک ہوتی ہیں ، یہ ہال فیکٹری کے اندر ہے ، باہر روڈ سے اس میں جانے کا کوئی راستہ نہیں ہے، بلکہ فیکٹری کے مین گیٹ ہی سےاندر یہ ہال ہے، جس کے اوپر چاروں طرف فیکٹری کی مشینیں لگی ہوئی ہیں اور لیبرز اس میں کام کر رہے ہیں ۔
جمعہ کے دن سارے لیبرز اور مالکان جمعہ پڑھنے کے لئے باہر کی مساجد جاتے ہیں، جس کی وجہ سے کافی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
اس ضرورت کے پیش نظر ہم مالک کے حکم پر یہاں نماز جمعہ شروع کرنا چاہتے ہیں ۔
مذکورہ تفصیل کی روشنی میں آپ سے مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:
1 : یہاں جمعہ پڑھنا شرعا کیسا ہے اور اس کے لیے کیا شرائط ہیں ؟
2: فیکٹری کے برابر میں ایک پلاٹ ہے ،مستقبل قریب میں ان شاء اللہ وہاں پر ایک جامع مسجد بنانے کا ارادہ ہے، اب اگر وہ مسجد ہم بنا کر نمازیں وہاں پڑھنا شروع کر دیں، تو اس موجودہ غیر وقف ہال میں ہم نے اتنےعرصہ نمازیں پڑھی ہیں یہاں سے شفٹ ہونے کے بعد اس غیر وقف ہال کو فیکٹری کے کام مثلا مشینیں وغیرہ لگاسکتے ہیں ؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ فیکٹری اگر شہر کی حدود میں ہے یا مضافاتِ شہر میں ہےتو اس میں نمازِ جمعہ کی ادائیگی جائز ہے، اگر چہ حفاظت کے پیش نظر عام لوگوں کو فیکٹری میں آنے کی اجازت نہ ہو۔
البتہ قریبی جامع مسجد میں جاکر جمعہ کی نماز ادا کرنے کا ثواب زیادہ ہے ۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما الشرائط التي ترجع إلى غير المصلي فخمسة في ظاهر الروايات، المصر الجامع، والسلطان، والخطبة، والجماعة، والوقت."
(كتاب الصلاة،فصل بيان شرائط الجمعة، ج: 2591،ط:دار الکتب العلمیة)
فتاوی شامی میں ہے:
"(و) السابع: (الإذن العام) من الإمام، وهو يحصل بفتح أبواب الجامع للواردين كافي فلا يضر غلق باب القلعة لعدو أو لعادة قديمة لأن الإذن العام مقرر لأهله وغلقه لمنع العدو لا المصلي."
(كتاب الصلاة، باب الجمعة، ج:2، ص:152،151، ط:سعيد)
2: اگرمالک نے مذکورہ فیکٹری میں یہ جگہ عارضی طور پر نماز کے لیےمقرر کی تھی ، باقاعدہ یہ جگہ وقف نہیں کی ، تو مستقل مسجد بنانے کے بعد اس مصلی کو فیکٹری کی دیگر ضروریات مثلاً مشینیں وغیرہ لگانے میں استعمال کیا جاسکتا ہے ۔
فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:
"رجل له أرض ساحة لابناء فیھا أمرقوماّ أن يصلوا فيها باالجماعة ،فهذا علي ثلاثة أوجه ۔۔۔وأماإن وقت الأمر بااليوم أو الشهر أو السنه ففي هذاالوجه لاتصيرالساحة مسجداّ ولومات يورث عنه."
(کتاب الوقف،الفصل الحادی والعشرون فی المساجد،ج:5،ص:570/ 571،ط:قدیمی)
فتاوی محمودیہ میں ہے:
اگروہاں عارضی طورپرمسجدتیارہونےتک مسجدکاانتظام کرلیاگیاہےاوراس کووقف کرکےمسجدنہیں بنایاگیاتووہ شرعی مسجدنہیں بنی ،اس کاوہ حکم نہیں جوشرعی مسجدکاہوتاہے،اس کاحال ایساہی ہےجیسےمکان میں کسی جگہ نمازپڑھتےہو،یاباغ اورکھیت میں نمازپڑھتےہو کہ وہ ہمیشہ کےلئےمسجدنہیں۔
(کتاب الوقف ،باب احکام المسجد، ج: 14، ص: 397، ط: ادارۃالفاروق کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144608101409
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن