میرے والدصاحب کاانتقال 2019ءمیں ہواہے،جب کہ والدہ محترمہ کاانتقال 2011ء میں ہواہے،ہم آٹھ بھائی اورتین بہنیں ہیں،والدصاحب کی جائیداد میں ایک مکان ہےجو575گز کاہے،ہم آٹھ بھائی مع اہل وعیال اس میں رہتے ہیں،ہم نے تقریباً پچاس ہزار روپے اس کاکرایہ لگایاہے،جوسب بہن بھائیوں کی رضامندی سے طےہواہے،جب کہ مکان کے فروخت کرنے کے سلسلے میں کاغذی کاروائی جاری ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ شرعی طورپر جب کہ مکان تقسیم نہیں ہواہے،پچاس ہزار روپے مذکورہ ورثاء میں کس طرح تقسیم ہوں گے؟
کیا بہنیں اس کرایہ کی حق دار ہیں؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ گھر چوں کہ ابھی تک تقسیم نہیں ہواہے،اوراس میں مرحوم کے بیٹے رہتے ہیں،اورمذکورہ گھر میں چوں کہ بہنوں کابھی شرعی طور پرحصہ ہے؛ لہذا ان کااپنےحصے کے بقدر کرایہ کامطالبہ کرنابھی شرعاً درست ہے،لہذا مذکورہ گھر کا کرایہ اگرتمام ورثاء کی باہمی رضامندی سے پچاس ہزار روپے طے کیا گیاہے تو وہ آٹھ بھائیوں اورتین بہنوں میں اس طرح تقسیم ہوگا، کہ پچاس ہزار میں سے ہرایک بھائی کو5,263.16روپے اورہرایک بہن کو2,631.58روپے ملیں گے،اسی طرح جب یہ گھرفروخت ہوکراس کی رقم ورثاء میں تقسیم ہوگی تواس میں مرحوم کے ہرایک بیٹے کو دو دوحصے اورہرایک بیٹی کو ایک ایک حصہ ملے گا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"لو واحد من الشريكين سكن … في الدار مدة مضت من الزمن
فليس للشريك أن يطالبه … بأجرة السكنى ولا المطالبه
بأنه يسكن من الأول … لكنه إن كان في المستقبل
يطلب أن يهايئ الشريكا … يجاب فافهم ودع التشكيكا."
(كتاب الشركة،باب في الشركة الفاسد، ج،4 ،ص،337، ط:سعيد)
فتاوی ہندیہ میں ہے :
"دار بين رجلين غير مقسومة فغاب أحدهما وسع الآخر أن يسكن بقدر حصته، فيسكن الدار كلها، وكذلك الخادم إن كان بين رجلين فغاب أحدهما فللآخر أن يستخدم الخادم بحصته، كذا في خزانة المفتين. ولا تلزمه أجرة حصة شريكه، ولو كانت الدار معدة للاستغلال."
(فصل في المتفرقات، ج:2، ص:341، ط،دارالفکر)
درر الاحکام شرح المجلہ میں ہے:
"أما إذا حضر الشريك وطلب من شريكه الساكن الأجرة وسكن الشريك بعد ذلك فيلزم الشريك الساكن إعطاء الأجرة حيث إن السكنى بعد ذلك هي التزام للأجرة وقبول لها. ( الحامدي )."
(کتاب العاشرالشرکات، (المادة 1074) النتاج يتبع الأم في الملكية، ج:3، ص:27، ط:دار الکتب العلمیة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511102106
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن