آٹا چھاننے یا نہ چھاننے کا شرعی حکم و افضل کیا ہے؟ کیا چھاننے یا نہ چھاننے کے حوالے سے احادیث موجود ہیں اگر ہیں تو ان کا درجہ کیا ہے؟
واضح رہےکہ آٹا چھاننا اور نہ چھاننا دونوں درست ہیں ،شرعا کسی ایک کے بارے میں حکم یا نہی وارد نہیں ہوئی ہے ،لہذا اپنی طبیعت کے حساب سے جس کو جو آٹا موافق ہو وہ استعمال کرلے ۔
البتہ احادیث مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بےچھنا آٹا استعمال فرماتے تھے اور طبعا سادگی کی بناء پر اسی کو پسند فرماتے تھے ،چنانچہ حدیث کی مشہور کتاب سنن ابن ماجہ میں حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا سے ایک روایت مروی ہے کہ انہوں نے آٹا چھانا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اس کی روٹی بنائی ،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟حضرت ام ایمن نے جواب دیا کہ یہ وہ کھانا ہے جو ہم اپنے علاقہ میں تیار کرتے ہیں تو میں نے چاہا کہ اس سے آپ کے لئے روٹی بناؤں،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس میں (چھنی ہوئی بھوسی ) واپس ڈالوپھر اس کو گوندھو۔
اسی طرح صحیح بخاری شریف میں حضرت ابو حازم رحمہ اللہ سے ایک روایت منقول ہے کہ انہوں نے حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیاآپ حضرات نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں چھناہوا سفید جو کا آٹا دیکھا تھا ؟تو حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے فرمایا:نہیں ،(حضرت ابوحازم فرماتےہیں کہ )میں نے پوچھا:آپ لوگ جو پیسنے کے بعد اس کو چھانتے تھے ؟ توحضرت سہل رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:نہیں ،لیکن ہم اس کو پھونک مارتے تھے ۔
اسی طرح اسی مضمون کی اور بھی روایات سنن ترمذی ، سنن ابن ماجہ وغیرہ کتب حدیث میں بھی موجود ہیں ،جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے چھنا آٹا ہی استعمال فرماتے تھے ،اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی عموما بے چھنا آٹااستعمال فرمایا کرتے تھے ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب اپنے دورِخلافت میں عاملین (گورنروں) کو مختلف علاقوں میں بھیجتے تے تو ان کو مختلف ہدایات دیاکرتے ،ان میں ایک ہدایت یہ ہوتی تھی کہ چھنا ہوا آٹا استعمال نہ کریں ۔
اگر چہ اس زمانہ میں آٹا چھاننے والی چھنّیاں بھی موجود تھیں، مگر یہ حضرات ان چیزوں کو قصدا طلب نہیں کیا کرتے تھے ،یہ حضرات سادگی ، قناعت اور دنیاوی لذّات کو اخروی لذّات پر ترجیح دیاکرتے تھے ۔
وفي صحيح البخاري:
"حدثنا سعيد بن أبي مريم: حدثنا أبو غسان قال: حدثني أبو حازم: أنه سأل سهلا:
هل رأيتم في زمان النبي صلى الله عليه وسلم النقي؟ قال: لا، فقلت: كنتم تنخلون الشعير؟ قال: لا، ولكن كنا ننفخه."
(باب: النفخ في الشعير،5/ 2065،ط:دار ابن كثير)
وفي سنن ابن ماجه :
"عن أم أيمن، أنها غربلت دقيقا فصنعته للنبي - صلى الله عليه وسلم - رغيفا، فقال: "ما هذا؟ " قالت: طعام نصنعه بأرضنا، فأحببت أن أصنع منه لك رغيفا. فقال: "رديه فيه، ثم اعجنيه."
(أبواب الأطعمة،باب الحوارى،4/ 441،الناشر: دار الرسالة العالمية)
وفي عمدة القاري شرح صحيح البخاري:
"قوله: (النقي) بفتح النون وكسر القاف وهو: الخبز الحواري الأبيض، وهو الذي ينخل دقيقه بعد الطحن. قوله: (هل كنتم تنخلون الشعير) أي: بعد طحنه. وقال بعضهم: في زمن النبي، صلى الله عليه وسلم، أظن أنه احترز عما قبل البعثة لكونه، عليه السلام، كان مسافرا في تلك المدة إلى الشام تاجرا وكانت الشام إذ ذاك مع الروم والخبز النقي عندهم كثير، وكذا المناخل وغيرها من آلات الترفه. فلا ريب أنه رأى ذلك عندهم فأما بعد البعثة فلم يكن إلا بمكة والطائف والمدينة، ووصل إلى تبوك وهي من أطراف الشام، ولكنه لم يفتحها ولا طالت إقامته بها انتهى.
قلت: هذا الذي قاله هذا القائل فيه نظر من وجوه: الأول: في قوله: كان مسافرا في تلك المدة تاجرا، ولم يكن تاجرا لأنه صلى الله عليه وسلم خرج أولا إلى ناحية الشام مع عمه أبي طالب وكان له من العمر اثنتي عشرة سنة شهران وعشرة أيام. قاله الواقدي: وقال الطبري: كان له تسع سنين، والأول أصح، وفيه وقعت قصة بحيرى الراهب، وخرج في المرة الثانية في سنة خمس وعشرين من مولده مع غلام خديجة بنت خويلد، استأجرته خديجة على أربع بكرات وخرج في مالها ولم يكن له شيء، وفي المرتين لم يتعد بصري ولم يمكث إلا قليلا. الثاني: أن قوله: فلا ريب أنه رأى ذلك عندهم، غير مسلم لأنه صلى الله عليه وسلم لم يخالط الروم هناك ولا جالسهم ولا واكلهم فمن أين أنه وقف على الأخباز النقية البيضاء؟ ومن أين رأى المناخل ونحوها حتى يجزم بذلك بقوله: ولا ريب أنه رأى ذلك؟ الثالث: أن قوله فأما بعد البعثة إلى آخره يستلزم عدم رؤيته المنخل نفي سماعه بالمنخل، إذ المنخل كان موجودا عندهم، والدليل عليه قول أبي حازم لسهل بن سعد هل كنتم تنخلون الشعير؟ غاية ما في الباب أنه صلى الله عليه وسلم لم يكن رأى المنخل لعدم طلبه إياه لأجل اكتفائه بمجرد النفخ بعد الطحن سواء كان شعيرا أو قمحا، ولكن لما كان غالب قوتهم شعيرا سأل أبو حازم عن نخل الشعير."
(21/ 50،ط:دار الفكر)
وفي مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح:
"وعن عمر بن الخطاب أنه كان إذا بعث عماله شرط عليهم أن لا تركبوا برذونا ولا تأكلوا نقيا ولا تلبسوا رقيقا ولا تغلقوا أبوابكم دون حوائج الناس فإن فعلتم شيئا من ذلك فقد حلت بكم العقوبة، ثم يشيعهم، رواهما البيهقي في شعب الإيمان.
ولا تأكلوا نقيا وهو ما نخل مرة بعد أخرى، ولا تلبسوا رقيقا، ولا تغلقوا أبوابكم دون حوائج الناس، فإن فعلتم شيئا من ذلك فقد حلت بكم العقوبة ; أي في الدنيا، أو العقبى، قال الطيبي: فالنهي عن ركوب البرذون ; نهي عن التكبر، وعن أكل النقي ولبس الرقيق ; نهي عن التنعم والسرف."
(كتاب الإمارة والقضاء،باب ما على الولاة من التيسير،6/ 2425،الناشر: دار الفكر، بيروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144509100144
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن