بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

لایحب اللہ الجھر آیت کا ترجمہ


سوال

اللہ پسند نہیں کرتا ماتم کو ہاں مگر سوائے اس کے لیے جو مظلوم ہو۔ یہ کسی آیت میں موجود ہے؟

جواب

اس طرح کی کوئی آیت قرآنِ کریم میں موجود نہیں ہے جس کا ترجمہ یہ ہو جو ذکر کیا گیا ہے۔ 

البتہ جس آیت سے مذکورہ مفہوم اخذ کیا گیا ہے (جو کہ غلط ہے) وہ یہ ہے:

﴿لَا يُحِبُّ اللّٰهُ الْجَهْرَ بِالسُّوْءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ﴾

   اس آیت کا ترجمہ یہ ہے:

ترجمہ: "اللہ تعالیٰ بری بات زبان پر لانے کو پسند نہیں کرتے، بجز مظلوم کے"۔ (بیان القرآن) 

اس آیت کے تحت مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر "معارف القرآن"  میں لکھتے ہیں:

"اللہ تعالیٰ بری بات زبان پر لانے کو (کسی کے لیے) پسند نہیں کرتے بجز مظلوم کے (کہ اپنے مظالم کی نسبت کچھ حکایت شکایت کرنے لگے تو وہ گناہ نہیں) اور اللہ تعالیٰ (مظلوم  کی بات) خوب سنتے ہیں (اور ظالم کے ظلم کی حالت) خوب جانتے ہیں"۔

یعنی زبان پر کوئی بری بات لانا خصوصاً کسی کی برائی کرنا اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں،الا یہ کہ اگر کوئی مظلوم ہو اور  وہ ظالم کا ظلم لوگوں کے سامنے بیان کرے، تو اس میں گو ظالم کی برائی کا اظہار ہے، لیکن بوجہ ظلم، اس آیت میں لوگوں کے سامنے اس کی شکایت کی اجازت دی گئی ہے۔

"تفسیر مظہری" میں ہے:

 التفسير المظهري (2 ق 2/ 266):

"﴿لَا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ﴾  يعني يبغض الجهر بالسوء وغير الجهر أيضاً، لكن الجهر أفحش، وإنما خصّ الجهر بالذكر؛ لمطابقة الحادثة ﴿إِلَّا مَنْ ظُلِمَ﴾  إلّا جهر من ظلم بالدعاء على الظالم والتظلم منه، وقيل: الجهر بالسوء من القول، هو الشتم إلّا من ظلم؛ فانه إن ردّ عليه مثله فلا حرج".

یعنی اگر کسی شخص پر ظلم ہوا ہو تو اس کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ ظالم پر بد  دعا کرے،  اس میں کوئی حرج نہیں۔

اسی قسم کا مضمون دیگر تفاسیر میں بھی لکھا ہے:

الدر المنثور في التفسير بالمأثور (2/ 723):

"وأخرج ابن جرير عن السدي في الآية يقول: إن الله لا يحب الجهر بالسوء من القول من أحد من الخلق، ولكن يقول: من ظلم، فانتصر بمثل ما ظلم فليس عليه جناح". 

معلوم ہوا کہ نہ تو مذکورہ آیت کے الفاظ سے ماتم کا ثبوت ملتاہے، اور نہ ہی اس آیت کی تفسیر سے ماتم کے ثبوت کی طرف اشارہ ملتاہے۔ اس کے برعکس احادیثِ مبارکہ سے ماتم کی ممانعت و حرمت ثابت ہوتی ہے؛ لہٰذا ماتم کا اس آیت سے کوئی تعلق نہیں، نہ ہی اس آیت کو ماتم کے جواز کے لیے دلیل کے طور پر پیش کرنا درست ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201200271

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں