میری اور میرے شوہر کے علاج کے سلسلے میں بات ہو رہی تھی، میں بیمار تھی انھوں نے مجھے کہا کہ تمہیں جو اچھا لگے وہی کرو ،میری طرف سے ہر طرف سے آزاد ہو، اس بات کی ٹینشن میں کہ بچے ہیں، پھر کہا کہ آزاد ہو جو تمہیں اچھا لگے وہی کرواؤ، میرا آپریشن ہونا تھا تو اس پر انھوں نے ایسا بولا اس سے کوئی طلاق تو واقع نہیں ہوئی ؟
صورت مسئولہ میں اگر سائلہ کے شوہر کا مقصد مذکورہ الفاظ ’’ تمہیں جو اچھا لگے وہی کرو ،میری طرف سے ہر طرف سے آزاد ہو ‘‘سےسائلہ کو متعلقہ معاملہ میں خود مختار اور آزاد کرنا تھا کہ جو سمجھ میں آئے وہ کرلو،طلاق دینا یا رشتہ نکاح سے آزادکرنا مراد نہیں تھا جیسا کہ سوال سے معلوم ہورہا ہے ،تو ان الفاظ سے سائلہ پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ہے ۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"(الفصل الخامس في الكنايات) لا يقع بها الطلاق إلا بالنية أو بدلالة حال كذا في الجوهرة النيرة ... والأحوال ثلاثة (حالة) الرضا (وحالة) مذاكرة الطلاق بأن تسأل هي طلاقها أو غيرها يسأل طلاقها (وحالة) الغضب. ففي حالة الرضا لا يقع الطلاق في الألفاظ كلها إلا بالنية والقول قول الزوج في ترك النية مع اليمين."
(كتاب الطلاق،الباب الثاني في إيقاع الطلاق،الفصل الخامس في الكنايات،375/1،ط:رشيدية)
فتاوی شامی میں ہے:
"بخلاف فارسية قوله سرحتك وهو " رهاء كردم " لأنه صار صريحا في العرف على ما صرح به نجم الزاهدي الخوارزمي في شرح القدوري اهـ وقد صرح البزازي أولا بأن: حلال الله علي حرام أو الفارسية لا يحتاج إلى نية، حيث قال: ولو قال حلال " أيزدبروي " أو حلال الله عليه حرام لا حاجة إلى النية، وهو الصحيح المفتى به للعرف وأنه يقع به البائن لأنه المتعارف ثم فرق بينه وبين سرحتك فإن سرحتك كناية لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح فإذا قال "رهاكردم" أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت، لكن لما غلب استعمال حلال الله في البائن عند العرب والفرس وقع به البائن ولولا ذلك لوقع به الرجعي."
(كتاب الطلاق،باب الكنايات،299/3 ،ط:سعيد)
امداد الاحکام میں ہے:
"لفظِ "آزاد" ہر حالت اور ہر استعمال میں کنایۂ طلاق نہیں، بلکہ یہ کنایات میں اس وقت داخل ہیں جب کہ خلاف ارادۂ طلاق کا قرینہ کلام میں نہ ہو مثلاً یوں کہا جائے: میری بیوی آزاد ہےیا تو آزاد ہے یا وہ آزاد ہے اور وہ ہر طرح مجھ سے آزاد ہے اور تو پوری طرح آزاد ہےان استعمالات میں یہ بے شک کنایات کی قبیل سے ہیں اور اگر ارادۂ طلاق کا قرینہ قائم ہو تو پھر یہ لفظ صریح ہوجاتاہے، مثلاً میری بیوی میرے نکاح سے آزاد ہے، میں نے اس کو اپنے سے آزاد کردیا، اگر کلام میں عدمِ ارادۂ طلاق کا قرینہ قائم ہو توپھر یہ نہ صریح طلاق سے ہے نہ کنایات سے مثلاً یوں کہا جائے کہ " تو آزاد ہے جو چاہے کھا پی" اور میں نے اپنی بیوی کو آزاد کیا چاہے وہ میرے پاس رہے یا اپنے گھر "اور"وہ آزاد ہے جب اس کا جی چاہے آوے" ان استعمالات میں ہر گز کوئی شخص محض مادہ "آزاد" کی وجہ سے اس کلام کو کنایۂ طلاق سے نہیں کہہ سکتا بلکہ اباحتِ افعال و تخییر وغیرہ پر محمول کرے گا بشرطیکہ اس کو محاوراتِ لسان پر کافی اطلاع ہو۔"
(جلد دوم حصہ اول،ص:470،ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511100930
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن