ہمارا گاؤں بلوچستان میں ہے،ایک دور میں وہاں بہت آبادی تھی،لہذا وہاں تین مساجد بنائی گئی تھیں ،اب وہاں صرف سات گھر باقی ہیں،تو سوال یہ ہے کہ ان تینوں مساجد کو آباد رکھنا ہماری ذمہ داری ہے یا کسی ایک کو،اور اس صورت میں بقیہ دو مساجد کا کیا کیا جائے ؟
واضح رہے کہ مسجد ایک مرتبہ تعمیر ہوجانے کے بعد ہمیشہ کے لیے مسجد ہوجاتی ہے،اب اس مسجد کو توڑنا یا مسجد کی جگہ فروخت کرکے دوسری مسجد میں صرف کرنا جائز نہیں ہے۔لہذا صورت مسئولہ میں تینوں مساجد کو آباد رکھنے کی کوشش کی جائے چاہے دو چار آدمیوں کی چھوٹی جماعت سے نماز ادا کی جائے۔
"اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّكٰوةَ وَلَمْ يَخْشَ اِلَّا اللّٰهَ فَعَسٰٓى اُولٰئِكَ اَنْ يَّكُوْنُوْا مِنَ الْمُهْتَدِيْنَ} [التوبة: 18]"
"ترجمہ : اللہ کی مسجدیں وہی آباد کرتا ہے جو اللہ پر اور آخرت پر ایمان لایا اور نماز قائم کی اور زکاۃ دی اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرا، سو وہ لوگ امیدوار ہیں کہ ہدایت والوں میں سے ہوں۔"
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولا يورث كذا في الهداية وفي العيون واليتيمة إن الفتوى على قولهما".
( کتاب الوقف،ج:2،ص؛350، ط: دار الفكر)
فتاوی شامی میں ہے:
"(ولو خرب ما حوله واستغني عنه، يبقى مسجدا عند الإمام والثاني) أبدا إلى قيام الساعة، (وبه يفتي) حاوي القدسی.وفي الرد : (قوله: ولو خرب ما حوله) أي ولو مع بقائه عامرا وكذا لو خرب وليس له ما يعمر به وقد استغنى الناس عنه لبناء مسجد آخر (قوله: عند الإمام والثاني) فلا يعود ميراثا ولا يجوز نقله ونقل ماله إلى مسجد آخر، سواء كانوا يصلون فيه أو لا، وهو الفتوی، حاوي القدسي، وأكثر المشايخ عليه، مجتبى، وهو الأوجه، فتح. اه. بحر."
(کتاب الوقف، مطلب فيما لوخرب المسجد أو غيرہ،ج:4، ص:358، ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144608100710
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن