جب جنت میں تمام جوان ہوں گے تو جامع ترمذی کی حدیث مبارک جس میں حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما کو جنت کے ادھیڑعمروں کا سردار بتایا گیا ہے، اس کا کیا مطلب ہے ؟
اس حدیث میں جنتیوں کو ادھیڑ عُمراُن کی دنیاوی حالت ِوفات کے اعتبار سے کہا گیا ہے، اس اعتبار سے نہیں کہ وہ وہاں بھی ادھیڑ عمر کے ہوں گے ، یہ بالکل ایسے ہے جیسے کہ قرآن کریم میں( وَآتُواْ الْيَتَامَى أَمْوَالَهُمْ. النساء:2) یتیموں کو ان کی پہلی حالت کا اعتبار کرتے ہوئے بعد از بلوغت بھی یتیم کہا گیا ہے، حالانکہ بلوغت کے بعد تو یتیمی نہیں رہتی، جیسا کہ حدیث شریف ’’وَلا يُتْمَ بَعْدَ احْتِلامٍ‘‘ میں صراحت ہے۔
’’مرقاة المفاتیح‘‘ اور ’’تحفۃ الأحوذی‘‘ میں ہے :
" الكهول: بضمتين جمع الكهل، وهو على ما في القاموس من جاوز الثلاثين أو أربعا وثلاثين إلى إحدى وخمسين، فاعتبر ما كانوا عليه في الدنيا حال هذا الحديث، وإلا لم يكن في الجنة كهل، كقوله تعالى: وآتوا اليتامى أموالهم. "
(مرقاۃ المفاتیح، (9/ 3913)، ط / دار الفكر، بيروت - لبنان)
(تحفة الأحوذی، (10/ 103)، ط/ دار الكتب العلمية - بيروت)
’’تحفۃ الألمعي شرح سنن ترمذی ‘‘میں ہے :
’’سوال: جنت میں کوئی ادھیڑ عمر نہیں ہوگا، سب (33) سال کی عمر کے ہوں گے ، پھر حدیث کا کیا مطلب؟
جواب: یہ مجاز ما کان ہے یعنی جو دنیا میں ادھیڑ عمر فوت ہوئے ہیں وہ جنتی مراد ہیں ، جیسے الحسن والحسین سیدا شباب أهل الجنةمیں بھی یہی مجاز مراد ہے‘‘۔
(تحفۃ الألمعي،مناقب ٲبی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ، باب، (8/ 312)، ط/ زمزم پبلشرز، اردو بازار کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144512101650
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن