زید نے بکر کے ہاتھ پر ایک مکان فروخت کیا۔ سودا اس طرح ہوا کہ مکان کی کل قیمت ۲۰ لاکھ ہے۔ دس لاکھ نقد دیں گے اور باقی دس لاکھ ماہانہ ۵۰ ہزار قسط کے حساب سے ادا کی جائے گی، لیکن زید نے یہ شرط لگائی کہ اگر دو قسط نہیں پہنچائیں، تو جتنی رقم دی ہے ، وہ واپس نہیں ملے گی، اور بیع بھی فسخ ہوگی یعنی مکان زید کو واپس ملے گا جیسا کہ بہت سے لوگ آج کل کاروبار اس شرط کے ساتھ فروخت کرتے ہیں۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ زید کا یہ شرط لگانا اور وصول شدہ رقم جو بغیر معاوضہ کے ہو لینا کیا یہ سود ہے یا نہیں ؟ جبکہ یہاں بعض علماء فرماتے ہیں کہ کل قرض جر نفعا فہو ربا کے رو سے سود ہے۔مہربانی فرماکر شریعت کی رو سے وضاحت فرمائیں۔
صورت مسئولہ میں زید کا مکان بیچتے وقت یہ شرط لگانا کہ اگر دو قسطین وقت پر اد انہ کیں تو بیع فسخ ہوجائے گی اور ادا شدہ رقم واپس نہیں ملے گی ، یہ شرط لگانا شرعا درست نہیں تھا ، یہ شرط فاسد تھی جس کی وجہ سےیہ معاملہ فاسد ہے۔زید اور بکر کو چاہیے کہ معاملہ فسخ کریں اور پھر چاہیں تو نئے سرے سے دوبارہ معاملہ کریں یا پھر بکر زید کو مکان واپس کردے اور زید بکر کو اس کی رقم واپس کردے، اس صورت میں زید کے لیے بکر کی رقم ضبط کرنا جائز نہیں ہوگا بلکہ یہ عمل شرعا غصب ہوگا۔نیز اس کو اصطلاحی اعتبار سے سود تو نہیں کہا جاسکتا، لیکن نا حق کسی کی رقم ضبط کرنے کی وجہ سے یہ رقم زید کے لیے حرام ہی ہوگی۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"أما بيان أن الثابت بهذا البيع أوجب الفسخ فهو أن البيع وإن كان مشروعا في ذاته فالفساد مقترن به ذكرا ودفع الفساد واجب ولا يمكن إلا بفسخ العقد فيستحق فسخه لكن لغيره لا لعينه حتى لو أمكن دفع الفساد بدون فسخ البيع لا يفسخ كما إذا كان الفساد لجهالة الأجل فأسقطاه يسقط ويبقى البيع مشروعا كما كان؛ ولأن اشتراط الربا وشرط الخيار مجهول وإدخال الآجال المجهولة في البيع ونحو ذلك معصية، والزجر عن المعصية واجب واستحقاق الفسخ يصلح زاجرا عن المعصية؛ لأنه إذا علم أنه يفسخ فالظاهر أنه يمتنع عن المباشرة."
(کتاب البیوع فصل فی حکم البیع، ج نمبر ۵، ص نمبر ۳۰۰، دار الکتب العلمیۃ)
بدائع الصنائع میں ہے:
"ـ(وأما) بيان من يملك الفسخ فنقول وبالله التوفيق: الفساد لا يخلو إما أن يكون راجعا إلى البدل بأن باع بالخمر والخنزير وإما أن لم يكن راجعا إليه كالبيع بشرط منفعة زائدة لأحد العاقدين أو إلى أجل مجهول، والحال لا يخلو إما أن كان قبل القبض وإما أن كان بعده، فإن كان قبل القبض فكل واحد من العاقدين يملك الفسخ من غير رضا الآخر كيف ما كان الفساد؛ لأن البيع الفاسد لا يفيد الملك قبل القبض فكان الفسخ قبل القبض بمنزلة الامتناع عن القبول والإيجاب فيملكه كل واحد منهما كالفسخ بخيار شرط العاقدين، وإن كان بعد القبض فإن كان الفساد راجعا إلى البدل فالجواب فيه وفيما قبل القبض سواء؛ لأن الفساد الراجع إلى البدل فساد في صلب العقد.
ألا ترى أنه لا يمكن تصحيحه بخلاف هذا المفسد؟ لما أنه لا قوام للعقد إلا بالبدلين فكان الفساد قويا فيؤثر في صلب العقد بسلب اللزوم عنه فيظهر عدم اللزوم في حقهما جميعا، ولو لم يكن راجعا إلى البدل فقد ذكر الإمام الإسبيجابي في شرحه مختصر الطحاوي أن ولاية الفسخ لصاحب الشرط لا لصاحبه ولم يحك خلافا؛ لأن الفساد الذي لا يرجع إلى البدل لا يكون قويا لكونه محتملا للحذف والإسقاط فيظهر في حق صاحب الشرط لا غير ويؤثر في سلب اللزوم في حقه لا في حق صاحبه، وذكر الكرخي الاختلاف في المسألة فقال في قول أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله يملك كل واحد منهما الفسخ وعلى قول محمد رحمه الله حق الفسخ لمن شرط له المنفعة لا غير.
(وجه) قوله على نحو ما ذكرنا أن من له شرط المنفعة قادر على تصحيح العقد بحذف المفسد وإسقاطه، فلو فسخه الآخر لأبطل حقه عليه وهذا لا يجوز (وجه) قولهما أن العقد في نفسه غير لازم لما فيه من الفساد بل هو مستحق الفسخ في نفسه رفعا للفساد، وقوله: المفسد ممكن الحذف فنعم لكنه إلى أن يحذف فهو قائم وقيامه يمنع لزوم العقد وبه تبين أن الفسخ من صاحبه ليس بإبطال لحق صاحب الشرط؛ لأن إبطال الحق قبل ثبوته محال."
(کتاب البیوع فصل فی حکم البیع، ج نمبر ۵، ص نمبر ۳۰۰، دار الکتب العلمیۃ)
امداد الاحکام میں ہے:
"اطمینان کے لیے بیعانہ لینے یا دینے کا تو مضائقہ نہیں مگر مشتری لینے سے انکار کر بیٹھے تو زر بیعانہ کی واپسی واجب ہے اور اس کا دبا لینا ظلم اور غصب میں داخل ہے۔"
(کتاب البیوع، ج نمبر ۳، ص نمبر ۳۸۴، مکتبہ دار العلوم کراچی)
فتوی نمبر : 144606101865
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن